برطانیہ میں سعودی شہزادے کو عمر قید کی سزا
21 اکتوبر 2010سعود بن عبدالعزیز بن ناصر بن عبدالعزیز السعود کے 32 سالہ ملازم بندر عبداللہ عبدالعزیز کو رواں برس 15فروری کو لندن کے لینڈ مارک ہوٹل میں مردہ پایا گیا تھا۔ عدالت کو بتایا گیا کہ سعودی شہزادے کی جانب سے قتل کی اس واردات میں ’جنسی عنصر‘ شامل رہا ہے اور اس نے اپنے ملازم پر پہلے بھی متعدد بار تشدد کیا تھا۔
اس کے کمرے میں جانے والا ہوٹل کا ایک ہم جنس پرست ملازم قبل ازیں بتا چکا ہے کہ السعود اور بَندر کا ایک دوسرے سے برتاؤ دیکھ کر کہا جا سکتا تھا کہ وہ ہم جنس پرست تھے۔
جسٹس ڈیوڈ بین نے بدھ کو اس کے لئے 20 سال کی سزائے قید سنائی۔ جج نے کہا، ’اس ملک میں کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں۔ میرے لئے یہ غلط ہو گا کہ سعودی شاہی خاندان سے آپ کے تعلق کو مدِنظر رکھتے ہوئے زیادہ سخت یا نرم سزا کا فیصلہ سنا دُوں۔‘
جسٹس بین نے السعود کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ’بندر کے سامنے آپ بااختیار اور بااعتماد مرتبہ رکھنے والی شخصیت تھے، جس کا آپ نے ظالمانہ انداز میں ناجائز فائدہ اٹھایا۔ اس صورت حال کی سب سے بہتر وضاحت یہی ہو گی کہ آپ اسے زندہ چھوڑتے یا قتل کرتے، آپ کو کسی بھی بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘
جج نے یہ بھی کہا کہ قتل کے الزامات پر کسی شہزادے کا کٹہرے میں کھڑے ہونا بہت غیرمعمولی بات ہے۔
بدھ کو جیوری نے اس مقدمے پر تقریباﹰ ڈیڑھ گھنٹہ غور کرنے کے بعد یہ فیصلہ سنایا۔ جیوری کے ارکان نے وکیل صفائی کا یہ دعویٰ مسترد کر دیا کہ 34 سالہ السعود محض تشدد کا مرتکب ہوا۔
عدالت کو بتایا گیا کہ 15فروری کو بَندر پر حملے کے وقت السعود نشے میں تھا اور اس نے اپنے ملازم کے دونوں گالوں پر دانتوں سے کاٹا۔ چونکہ بَندر پہلے بھی تشدد کا نشانہ بن چکا تھا، وہ زخمی تھا اور اس نے مزاحمت نہیں کی۔ بتایا جاتا ہے کہ شہزادے کو قبل ازیں غلط فہمی تھی کہ اس کی شاہی حیثیت اسے بچا لے گی۔
یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ شہزادہ السعود کبھی بھی سعودی عرب لوٹا، تو اسے وہاں سزائے موت کا سامنا کرنا پڑے گا، کیونکہ وہاں ہم جنس پرستی کے لئے یہی سزا ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: عاطف بلوچ