گو کہ برطانیہ یورپی یونین سے خارج ہو رہا ہے، مگر اب بھی یہ ملک تارکین وطن اور مہاجرین کے لیے ایک سیاسی پناہ کے حصول کے اعتبار سے ایک اہم منزل کی حیثیت رکھتا ہے۔ مگر برطانیہ میں سیاسی پناہ کی درخواست دی کیسے جاتی ہے؟
اشتہار
برطانیہ سن 1951 میں طے پانے والے جنیوا کنویشن برائے حیثیتِ مہاجرین پر تکیہ کرتا ہے۔ اسی معاہدے کے تحت برطانیہ میں دی جانے والی سیاسی پناہ کی درخواستیں نمٹائی جاتی ہیں۔ یعنی کسی شخص کو اگر اس کے آبائی ملک میں نسل، مذہب، قومیت، سیاسی نکتہ ہائے نگاہ یا جنس یا شناخت یا اس طرز کی کسی دوسی سماجی یا سیاسی وجہ کی بنا پر زندگی کو خطرہ لاحق ہو، تو اسے سیاسی پناہ کی درخواست جمع کرانے کا حق حاصل ہوتا ہے۔
افغان مہاجرین کی جرمنی بدری
سیاسی پناہ کی درخواستیں رد ہو جانے کے بعد افغان مہاجرین کو لیے پہلا طیارہ فرینکفرٹ سے کابل پہنچ گیا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sobhani
کابل میں آمد
38 مہاجرین کو ایک خصوصی طیارے کے ذریعے جرمن شہر فرینکفرٹ سے کابل کے ہوائی اڈے پر پہنچایا گیا۔
تصویر: Reuters/O. Sobhani
وطن تو پھر وطن ہے
کابل پہنچنے پر ایک مہاجر افغانستان کی زمین کو چوم رہا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sobhani
واپسی پر ہاتھ تقریباﹰ خالی
افغانستان پہنچنے والے ان مہاجرین کے ہم راہ ایک چھوٹے بستے کے علاوہ کچھ نہیں۔ ان مہاجرین میں سے بعض کا کہنا ہے کہ انہیں کئی ضروری اشیاء بھی ساتھ لینے کی اجازت نہیں دی گئی۔
تصویر: Reuters/O. Sobhani
جرمنی میں مظاہرے
جرمنی میں موجود سینکڑوں افغان مہاجرین اس ڈپورٹیشن کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ان افراد کا کہنا ہے کہ افغانستان محفوظ ملک نہیں اس لیے مہاجرین کی جرمنی بدری روکی جائے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Prautsch
جرمنی اور افغانستان کے درمیان معاہدے پر اعتراضات
مہاجرین کی ملک بدری جرمنی اور افغانستان کے درمیان کچھ ماہ قبل طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت ہو رہی ہے۔ جرمنی میں اس معاہدے پر کئی طرح کے اعتراضات کیے جا رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Roland
ملک بدری کے لیے خصوصی طیارہ
فریکنفرٹ سے ان مہاجرین کو ایک خصوصی طیارے کے ذریعے کابل پہنچایا گیا۔ جرمن حکام کے مطابق کابل حکومت ان مہاجرین کو ان کے گھروں تک پہنچانے کا بندوبست کرے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
افغانستان محفوظ نہیں
اس ملک بدری کے ناقدین کا کہنا ہے کہ افغانستان ایک محفوظ ملک نہیں ہے اور واپس پہنچنے والے مہاجرین کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں۔
تاہم سیاسی پناہ کے درخواست گزاروں کو یہ بات معلوم ہونا چاہیے کہ اگر کسی شخص نے یورپی یونین کے کسی دوسرے ملک میں پناہ کی درخواست جمع کرا رکھی ہو، تو وہ برطانیہ میں سیاسی پناہ کی درخواست جمع کرانے کا اہل نہیں ہوتا۔
سیاسی پناہ کی درخواست کیسے جمع کرائی جائے؟
مہاجرت کے موضوع پر معلومات فراہم کرنے والی ویب سائٹ انفومائیگرینٹس ڈاٹ نیٹ کے مطابق، جوں ہی کوئی شخص برطانیہ پہنچے، اسے فوراﹰ امیگریشن افسر کو بتانا چاہیے کہ وہ سیاسی پناہ کا متلاشی ہے۔ اگلے قدم کے طور پر یہ سرکاری اہلکار اسے یوکے بارڈر ایجنسی کے جنوبی لندن میں واقع مرکز پہنچا دیں گے، جہاں کسی تارک وطن کو جلد از جلد سیاسی پناہ کی درخواست بھرنا ہو گی۔
جرمنی میں سیاسی پناہ کا طریقہ کار
01:02
اس کے بعد سیاسی پناہ کی درخواست پر عمل درآمد کے باقاعدہ طریقہ کار کا آغاز ہو جاتا ہے، جس میں ’اسکریننگ انٹرویو‘ سب سے اہم ہے۔ اس انٹرویو میں یوکے بارڈر ایجنسی کسی تارک وطن سے متعلق بنیادی معلومات حاصل کرتی ہے، جس میں ایک سوال یہ بھی ہوتا ہے کہ کہیں اس نے یورپ کے کسی اور ملک میں ایسی کوئی درخواست تو نہیں دی اور اگر دی ہے تو اس کا درخواست نمبر کیا ہے۔
اس کے کچھ روز بعد سیاسی پناہ کے ایسے درخواست گزار کی ملاقات اس اہلکار سے کرائی جاتی ہے، جو اس کی درخواست پر کام کر رہا ہوتا ہے۔ اس کے بعد درخواست گزار کا ’تفصیلی انٹرویو‘ لیا جاتا ہے، جس میں اسے تفصیلی طور پر سیاسی پناہ کی درخواست جمع کرانے کی وجوہات بتانا ہوتی ہیں۔ اس انٹرویو کے عموماﹰ چھ ماہ کے اندر اندر سیاسی پناہ کی درخواست پر فیصلہ سامنے آ جاتا ہے۔
اس دوران سیاسی پناہ کے درخواست گزار کو پابند بنایا جاتا ہے کہ وہ حکام سے رابطے میں رہے اور اگر انہیں مزید معلومات درکار ہوں، تو وہ مہیا کرے۔ ایسے میں سیاسی پناہ کے درخواست گزار کو اگر مالی مدد یا قیام کی سہولت درکار ہو، تو برطانوی حکومت اسے وہ مہیا کرتی ہے۔ اگر کسی تارک وطن کو حراستی مرکز منتقل کیا جائے، تو اس کی درخواست ’فاسٹ ٹریک‘ ہو سکتی ہیں، یعنی ایسے درخواست گزار کے دعوے پر سات روز کے اندر اندر فیصلہ سامنے آ سکتا ہے۔
جرمنی میں تارکینِ وطن کی رہائش گاہیں
جرمنی میں پناہ گزینوں سے متعلق دفتر کا اندازہ تھا کہ 2015ء کے دوران تقریباً تین لاکھ مہاجرین جرمنی کا رخ کریں گے لیکن اب اس تعداد کو ساڑھے چار لاکھ کر دیا گیا ہے۔ سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو ٹھہرایا کہاں جاتا ہے؟
تصویر: Picture-Alliance/dpa/P. Kneffel
عارضی رہائش گاہیں
جرمن شہر ٹریئر میں قائم کی جانے والی عارضی رہائش گاہوں میں تقریباً ساڑھے آٹھ سو افراد کا انتظام کیا جا سکتا ہے۔ جب کوئی بھی مہاجر جرمنی آتا ہے تو اسے ابتدائی تین ماہ اسی طرح کی جگہوں پر رکھا جاتا ہے۔ بعد ازاں انہیں کسی دوسرے شہر یا کسی مضافاتی علاقے میں بھیج دیا جاتا ہے، جہاں پر انتظامات مختلف ہوتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Tittel
ہنگامی انتظامات
سیاسی پناہ کے متلاشیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث عارضی رہائش گاہوں میں جگہ ختم ہو گئی ہے۔ اس وجہ سے شہر کے ٹاؤن ہال یا دیگر سرکاری عمارتوں میں ہنگامی انتظامات کیے گئے ہیں۔ یہ تصویر شہر ’ہام‘ میں قائم کی جانے والی ایک ایسی ہی ہنگامی رہائش گاہ کی ہے، جہاں ایک وقت میں پانچ سو مہاجرین قیام کر سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Fassbender
اسکول بھی رہائش گاہیں
مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد کو رہائش فراہم کرنے میں اکثر شہروں کی انتظامیہ کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ مثال کے طور پر شہر آخن کو جولائی کے وسط میں تین سو مہاجرین کے قیام کا انتظام کرنا تھا اور اس موقع پر ان افراد کو صرف اسکول میں ہی پناہ دی جا سکتی تھی۔
تصویر: Picture-Alliance/dpa/R. Roeger
عارضی خیمے
اس دوران جرمنی میں بہت سے مقامات پر مہاجرین کے لیے خیمے بھی لگائے جا رہے ہیں۔ موسم گرما میں تو ان عارضی خیموں کو استعمال کیا جا سکتا ہے تاہم سردیوں میں ان مہاجرین کو کسی عمارت میں منتقل کرنا پڑے گا۔
تصویر: Picture-Alliance/dpa/J. Wolf
سب سے بڑی خیمہ بستی
مہاجرین کے لیے سب سے بڑی خیمہ بستی مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں قائم کی گئی ہے۔ یہاں رہنے کے لیے صبر کی ضرورت ہے۔ بیت الخلاء کے لیے طویل قطاریں لگتی ہیں اور کھانے کے لیے بھی انتظار کرنا پڑتا ہے۔ آج کل یہاں پر پندرہ ممالک کے ایک ہزار افراد موجود ہیں۔ اس خیمہ بستی میں کُل گیارہ سو افراد قیام کر سکتے ہیں۔
تصویر: Picture-Alliance/dpa/A. Burgi
کنٹینرز بطور رہائش گاہ
زیادہ سے زیادہ پناہ گزینوں کا انتظام کرنے کے لیے بہت سے جرمن علاقوں میں کنٹینرز میں بھی رہائش گاہیں قائم کر دی گئی ہیں۔ شہر ٹریئر میں 2014ء سے ایسی رہائش گاہیں قائم ہیں۔ آج کل یہاں ایک ہزار سے زائد مہاجرین پناہ لیے ہوئے ہیں۔
تصویر: Picture-Alliance/dpa/H. Tittel
مہاجرین کی پناہ گاہوں پر حملے
صوبے باڈن ورٹمبرگ میں مہاجرین کے لیے زیر تعمیر ایک عمارت کو 18 جولائی کو نذر آتش کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس دوران جرمنی کے مشرقی اور جنوبی حصوں میں روزانہ کی بنیادوں پر مہاجرین کی رہائش گاہوں کو نشانہ بنانے کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ غیر ملکیوں سے اس نفرت کے خلاف شہریوں کی جانب سے مظاہرے بھی کیے جا رہے ہیں۔
تصویر: Picture-Alliance/dpa/SDMG/Dettenmeyer
سیاسی قائدین
سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ اور نائب جرمن چانسلر زیگمار گابریئل نے اکتیس جولائی کو صوبہ میکلنبرگ پومیرانیہ میں قائم ایک مہاجر بستی کا دورہ کیا۔ یہاں تین سو افراد رہائش پذیر ہیں۔ اس موقع پر گابریئل نے کہا کہ مہاجرین کو پناہ دینے کا تعلق صرف پیسے سے نہیں بلکہ یہ عزت و وقار کا معاملہ بھی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Wüstneck
نئی عمارات کی تعمیر
پناہ گزینوں کو مناسب سہولیات فراہم کرنے لیے مختلف علاقوں میں نئی رہائش گاہیں تعمیر کی جا رہی ہیں۔ یہ صوبہ باویریا میں تعمیر کی جانے والی ایک ایسی ہی عمارت کی تصویر ہے، جس میں ساٹھ افراد کی گنجائش ہے۔ جنوری 2016ء میں تعمیراتی سلسلہ مکمل ہو جائے گا۔
تصویر: Picture-Alliance/dpa/D. Karmann
انتظار انتظار
مہاجرین کے لیے جب تک نئی باقاعدہ رہائش گاہیں تعمیر نہیں ہو جاتیں، عارضی رہائش گاہوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری رہے گا، جیسے میونخ میں قائم کی جانے والی یہ خیمہ بستی ہے، جسے ایک ہی رات میں تعمیر کیا گیا۔ اس میں کئی درجن خیمے ہیں، جن میں تقریباً تین سو بستر لگائے گئے ہیں۔
تصویر: Picture-Alliance/dpa/S. Hoppe
10 تصاویر1 | 10
اگر کسی شخص کی سیاسی پناہ کی درخواست منظور ہو جائے، تو اسے برطانیہ میں پانچ برس قیام کی اجازت دی جا سکتی ہے، تاہم یہ اجازت دیے جانے کے بعد بھی برطانوی حکومت کو فیصلے پر نظرثانی کا اختیار حاصل رہتا ہے۔ پانچ برس کی مدت کی تکمیل کے بعد بھی اگر سیاسی پناہ حاصل کرنے والے شخص کے اس کے آبائی ملک میں جان کا خطرہ بدستور لاحق رہے، تو ایسے مہاجر کو برطانیہ میں مستقل قیام کی اجازت دی جا سکتی ہے۔
اپیل کا حق
سیاسی پناہ کی درخواست رد ہو جانے پر درخواست گزار کو اپیل کا حق دیا جا سکتا ہے، تاہم اسے یہ اپیل فیصلہ سنائے جانے کے 14 روز کے اندر کرنا ہوتی ہے۔ درخواست رد ہو جانے یا کسی نئے قانون کی منظوری کی صورت میں ناکام درخواست گزار کو نئے سرے سے درخواست جمع کرانےکا کہا جا سکتا ہے، جب کہ ناکام درخواست گزاری کی اپیل بھی مستر ہو جائے، تو ایسے شخص کو برطانیہ سے نکال دیا جاتا ہے۔