1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برطانیہ میں مسلمان انتہا پسندی کے خلاف سرگرم عمل

جوآنا اِمپی / مقبول ملک18 نومبر 2013

لندن کی ایک شاہراہ پر دو نو مسلموں کے ہاتھوں ایک برطانوی فوجی کے سرعام قتل کے واقعے میں ملزمان کے خلاف مقدمے کی سماعت شروع ہو گئی ہے۔ اس قتل کے بعد سے برطانوی مسلمانوں میں انتہا پسندی کے خلاف جذبات میں اضافہ ہوا ہے۔

تصویر: Reuters

لی رِگبی نامی فوجی کو اس سال 22 مئی کو دن دیہاڑے برطانوی دارالحکومت لندن کے علاقے وُولِچ میں ملکی فوج کی ایک چھاؤنی کی عمارت کے سامنے قتل کر دیا گیا تھا۔ اس قتل کے بعد برطانیہ میں عوامی سطح پر کیا جانے والا احتجاج اس لیے بہت بلند آواز ہو گیا تھا کہ دونوں ملزمان نے مبینہ قاتلوں کے طور پر واردات کی جگہ پر ہی راہگیروں سے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ انہوں نے اس برطانوی فوجی کو انتقاماﹰ قتل کیا ہے: اس لیے کہ برطانوی فوجیوں نے (حملہ آوروں کے) مسلمان بھائیوں کو قتل کیا تھا۔

اس قتل کے دونوں مبینہ ملزمان کے نام مائیکل ادیبولاجو اور مائیکل ادیبووالے ہیں۔ انہوں نے اس قتل کے قریب چار ماہ بعد اس سال ستمبر میں کی جانے والے تفتیش کے دوران دعویٰ کیا تھا کہ وہ ’بے قصور‘ ہیں۔ برطانیہ کے یہ دونوں شہری اسلام قبول کر چکے ہیں اور دونوں نو مسلموں کے خلاف مقدمے کی باقاعدہ سماعت آج پیر 18 نومبر سے شروع ہو گئی ہے۔

لندن میں لی رِگبی نامی فوجی کے اس قتل کی اگرچہ کئی سرکردہ مسلم شخصیات اور مساجد کے آئمہ نے کھل کر مذمت کی تھی تاہم اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس قتل کے بعد کے دنوں میں برطانیہ میں مسلمانوں اور ان کی مساجد پر کیے جانے والے حملوں میں واضح اضافہ ہو گیا تھا۔

لی رِگبی کو جولائی کے وسط میں پورے فوجی اعزاز کے ساتھ دفنایا گیا تھاتصویر: Reuters

برطانوی دارالحکومت میں ایسٹ لندن کی ایک معروف مسجد کی انتظامیہ کے ایک رکن شَینُل خان کہتے ہیں کہ تب صورت حال واقعی بہت کشیدہ تھی۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہمیں بہت سے واقعات کی خبر ملی کہ وُولِچ میں قتل کے بعد بہت سی مساجد، اداروں، حتیٰ کہ مسلمانوں پر بھی حملے کیے گئے۔‘‘ شَینُل خان نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ ان کی رائے میں تب مسلمان برادری کو واقعی خوف کا سامنا تھا۔

اب کئی ماہ بعد لندن کے اس علاقے میں صورت حال دوبارہ معمول پر آ چکی ہے۔ اس علاقے میں پرہجوم ٹریفک کے شور کے باوجود ایسٹ لندن کی مسجد کی چھت سے اٹھنے والی اذان کی آواز ابھی بھی سنی جا سکتی ہے۔ اس مسجد میں نمازیوں کی ہفتہ وار تعداد ہزاروں میں رہتی ہے اور ان میں سے بہت سے مسلمانوں کا آبائی ملک بنگلہ دیش ہے۔

شَینُل خان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’جو کچھ وُولِچ میں ہوا، وہ قابل مذمت ہے۔ ایسے کسی واقعے کو کوئی بھی آسانی سے نہیں بھلا سکتا۔ اسی لیے میری رائے میں ان واقعات کے اثرات ابھی کچھ عرصہ ہمارے ساتھ ہی رہیں گے۔‘‘

برطانیہ میں آباد مسلمانوں کی تعداد تین ملین کے قریب ہے۔ ایک طرف انگلش ڈیفنس لیگ یا EDL کی طرح کی دائیں بازو کی انتہا پسند تنظیموں کی کوشش ہے کہ ملک میں مسلمانوں کے خلاف جذبات کو ہوا دی جائے۔ وُولِچ میں قتل کے واقعے کے بعد EDL نے مسلمانوں کے خلاف کئی احتجاجی مظاہروں کا اہتمام بھی کیا تھا۔ دوسری طرف شدت پسند مسلمانوں کی کوشش ہے کہ وہ اُن غیر مطمئن مسلمانوں کو اپنی صفوں میں شامل کر سکیں، جو خود کو معاشرے کے مرکزی دھارے سے دور محسوس کرتے ہیں۔

شمالی لندن میں اس سال جون میں ایک اسلامی مرکز کو بھی آتشزنی کا نشانہ بنایا گیا تھاتصویر: picture-alliance/dpa

لیکن ان حالات میں اچھی بات یہ ہے کہ برطانوی مسلمانوں کی ایک بہت بڑی اکثریت نہ صرف شدت پسندی اور انتہا پسندانہ نظریات کو رد کرتی ہے بلکہ Quilliam فاؤنڈیشن جیسی کئی ایسی تنظیمیں بھی ہیں جو مسلم برادری کے ساتھ مل کر بہتر سماجی انضمام کے لیے اور انتہا پسندانہ سوچ کے خلاف سرگرم عمل ہیں۔

Quilliam فاؤنڈیشن کے عہدیدار اسامہ حسن کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ انتہا پسندی کی مخالفت کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں۔ لندن کے وسطی حصے میں ان کی تنظیم کے دفتر کی تمام کھڑکیاں بلٹ پروف اور بم پروف ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ مسلمان انتہا پسند انہیں اور ان کی تنظیم کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں، اس کے باوجود ان کی تنظیم اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔

اسامہ حسن کے مطابق جولائی 2005ء میں لندن کے زیر زمین ریلوے نیٹ ورک پر 50 سے زائد افراد کی ہلاکت کا باعث بننے والے دہشت گردانہ حملوں کے بعد سے برطانوی مسلمانوں کی اجتماعی سوچ میں بڑی پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اسی پس منظر میں مئی 2013ء میں وُولِچ میں قتل کے واقعے پر بھی شدید ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا تھا۔

آج کے برطانیہ میں آباد مسلمانوں کی اکثریت نہ صرف خود کو بہت محفوظ اور مطمئن محسوس کرتی ہے بلکہ شَینُل خان اور اسامہ حسن جیسے بہت سے مسلمانوں کی رائے میں برطانیہ کا شمار دنیا کے ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں کوئی بھی مسلمان اپنے تمام تر حقوق اور آزادیوں کے ساتھ زندگی بسر کر سکتا ہے اور یہی بات انہیں فخر سے یہ کہنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ ان مسلمانوں کا واحد وطن برطانیہ ہے۔

لی رِگبی قتل کیس میں دونوں نو مسلم ملزمان کے خلاف مقدمے کی سماعت ابھی کافی عرصہ جاری رہے گی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں