برطانیہ میں مقیم یورپی شہری: لندن حکومت نے شکست تسلیم کر لی
16 فروری 2023
برطانیہ میں مقیم یورپی یونین کے رکن ممالک کے شہریوں کے بریگزٹ کے بعد بھی وہاں مستقل قیام کے حق سے متعلق قانونی جنگ میں لندن حکومت نے اپنی حتمی عدالتی ناکامی تسلیم کر لی ہے۔ اس فیصلے سے لاکھوں افراد کو فائدہ پہنچے گا۔
سول رائٹس تنظیم ’دی تھری ملین‘ کے ارکان لندن میں برطانوی پارلیمان کے نواح میں احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئےتصویر: Tom Nicholson/London News/ZUMA/dpa/picture alliance
اشتہار
برطانیہ سالہا سال تک یورپی یونین کا رکن رہا تھا اور پھر ایک عوامی ریفرنڈم کے نتیجے میں لندن حکومت نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ برطانیہ یورپی یونین سے نکل جائے گا۔ اس عمل کو یورپی یونین سے برٹش ایگزٹ یا بریگزٹ کا نام دیا گیا تھا۔
بریگزٹ کے سلسلے میں برسلز میں یورپی یونین کے حکام اور لندن حکومت کے نمائندوں کے مابین بہت طویل مذاکرات کے بعد جو معاہدہ طے پایا تھا، اس میں یہ بھی لکھا تھا کہ بریگزٹ کے وقت یونین کے مختلف رکن ممالک کے جتنے بھی شہری برطانیہ میں مقیم ہوں گے، ان کو اگر وہ چاہیں تو برطانیہ میں ہی مستقل قیام کا حق دیا جائے گا۔
دو مراحل پر مشتمل متنازعہ قانونی طریقہ
بریگزٹ کے بعد برطانوی حکومت نے ملک میں داخلی سطح پر جو اقدامات کیے، ان میں یہ بھی شامل تھا کہ اس ملک میں مقیم یورپی شہریوں کو دو مراحل پر مشتمل ایک نئی قانونی کارروائی کے دوران یہ ثابت کرنے کا پابند بنا دیا گیا تھا کہ وہ بریگزٹ سے پہلے بھی برطانیہ میں قانونی طور پر مقیم تھے۔
یہ فیصلہ اس لیے بہت متنازعہ ہو گیا تھا کہ برطانیہ میں مقیم لاکھوں یورپی شہریوں کے حقوق کے لیے سرگرم سول رائٹس تنظیم 'دی تھری ملین‘ (The3Million) نے اس کے خلاف آواز بلند کی اور مقدمہ دائر کر دیا تھا۔
اس بارے میں لندن ہائی کورٹ نے گزشتہ برس کرسمس سے چند روز قبل اپنا جو فیصلہ سنایا تھا، اس میں کہا گیا تھا کہ حکومت نے یورپی شہریوں کو برطانیہ میں اپنی قانونی رہائش ثابت کرنے کا دو مراحل پر مشتمل جو لازمی طریقہ کار متعارف کرایا، وہ بریگزٹ معاہدے میں درج شرائط کی خلاف ورزی ہے۔
اس طریقہ کار کے تحت یہ ممکن تھا کہ برطانیہ میں رہائش پذیر یورپی شہری مستقبل میں بھی وہاں اپنے مستقل قیام کے لیے دوسرے مرحلے میں اگر دوبارہ ایک نئی درخواست نہیں دیتے، تو وہ اس ملک میں اپنے طویل المدتی قیام کے حق سے محروم ہو سکتے ہیں۔ لندن ہائی کورٹ نے اسی قانونی طریقے کو بریگزٹ معاہدے کے منافی قرار دیا تھا۔
برطانیہ، یو کے اور انگلینڈ میں فرق کیا ہے؟
دنیا کے ایک بڑے حصے کو اپنی نوآبادی بنانے والے چھوٹے سے جزیرے کو کبھی برطانیہ، کبھی انگلینڈ اور کبھی یو کے لکھ دیا جاتا ہے۔ کیا ان ناموں کو متبادل کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے، اور کیا یہ ایک ہی ملک کا نام ہے؟
تصویر: picture-alliance/dpa/R.Peters
یونائیٹڈ کنگڈم (یو کے)
یو کے در حقیقت مملکت متحدہ برطانیہ عظمی و شمالی آئرلینڈ، یا ’یونائیٹڈ کنگڈم آف گریٹ بریٹن اینڈ ناردرن آئرلینڈ‘ کے مخفف کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی یو کے چار ممالک انگلینڈ، سکاٹ لینڈ، شمالی آئرلینڈ اور ویلز کے سیاسی اتحاد کا نام ہے۔
تصویر: Getty Images/JJ.Mitchell
برطانیہ عظمی (گریٹ بریٹن)
جزائر برطانیہ میں دو بڑے اور سینکڑوں چھوٹے چھوٹے جزائر ہیں۔ سب سے بڑے جزیرے کو برطانیہ عظمی کہا جاتا ہے، جو کہ ایک جغرافیائی اصطلاح ہے۔ اس میں انگلینڈ، سکاٹ لینڈ اور ویلز شامل ہیں۔ انگلینڈ کا دارالحکومت لندن ہے، شمالی آئرلینڈ کا بیلفاسٹ، سکاٹ لینڈ کا ایڈنبرا اور کارڈف ویلز کا دارالحکومت ہے۔
تصویر: Andy Buchanan/AFP/Getty Images
برطانیہ
اردو زبان میں برطانیہ کا لفظ عام طور پر یو کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ برطانیہ رومن لفظ بریتانیا سے نکلا ہے اور اس سے مراد انگلینڈ اور ویلز ہیں، تاہم اب اس لفظ کو ان دنوں ممالک کے لیے کم ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ زیر نظر تصور انگلینڈ اور ویلز کے مابین کھیلے گئے فٹبال کے ایک میچ کی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Rain
انگلینڈ
اکثر انگلینڈ کو برطانیہ (یو کے) کے متبادل کے طور پر استعمال کر دیا جاتا ہے، جو غلط ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ انگلینڈ جزائر برطانیہ کا سب سے بڑا ملک ہے۔ یا پھر اس لیے کہ انگلینڈ اور یو کے کا دارالحکومت لندن ہی ہے۔
تصویر: Reuters/J.-P. Pelissier
جمہوریہ آئرلینڈ اور شمالی آئرلینڈ
جزائر برطانیہ میں دوسرا بڑا جزیرہ آئرلینڈ ہے، جہاں جمہوریہ آئر لینڈ اور شمالی آئرلینڈ واقع ہیں ان میں سے شمالی آئرلینڈ برطانیہ کا حصہ ہے۔
زبان
انگریزی یوں تو جزائر برطانیہ میں سبھی کی زبان ہے لیکن سبھی کے لہجوں میں بہت فرق بھی ہے اور وہ اکثر ایک دوسرے کے بارے میں لطیفے بھی زبان کے فرق کی بنیاد پر بناتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
وجہ شہرت
سکاٹ لینڈ کے لوگ اپنی دنیا بھر میں مشہور اسکاچ پر فخر کرتے ہیں اور بیگ پائپر کی موسیقی بھی سکاٹ لینڈ ہی کی پہچان ہے۔ آئرلینڈ کی وجہ شہرت آئرش وہسکی اور بیئر ہے جب کہ انگلینڈ کے ’فش اینڈ چپس‘ مہشور ہیں۔
تصویر: Getty Images
اختلافات
یو کے یا برطانیہ کے سیاسی اتحاد میں شامل ممالک کے باہمی اختلافات بھی ہیں۔ بریگزٹ کے حوالے سے ریفرنڈم میں سکاٹ لینڈ کے شہری یورپی یونین میں شامل رہنے کے حامی دکھائی دیے تھے اور اب بھی ان کا کہنا ہے کہ بریگزٹ کی صورت میں وہ برطانیہ سے علیحدگی اختیار کر سکتے ہیں۔
تصویر: Andy Buchanan/AFP/Getty Images
یورپی یونین اور برطانیہ
فی الوقت جمہوریہ آئر لینڈ اور برطانیہ، دونوں ہی یورپی یونین کا حصہ ہیں۔ بریگزٹ کے بعد تجارت کے معاملات طے نہ ہونے کی صورت میں سب سے زیادہ مسائل شمالی آئرلینڈ اور جمہوریہ آئرلینڈ کی سرحد پر پیدا ہوں گے۔ برطانیہ کی خواہش ہے کہ وہاں سرحدی چوکیاں نہ بنیں اور آزادانہ نقل و حرکت جاری رہے۔
تصویر: Reuters/T. Melville
بریگزٹ کا فیصلہ کیوں کیا؟
برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی سے متعلق ریفرنڈم میں بریگزٹ کے حامی کامیاب رہے تھے۔ ان لوگوں کے مطابق یونین میں شمولیت کے باعث مہاجرت بڑھی اور معاشی مسائل میں اضافہ ہوا۔ ریفرنڈم کے بعد سے جاری سیاسی بحران اور یورپی یونین کے ساتھ کوئی ڈیل طے نہ ہونے کے باعث ابھی تک یہ علیحدگی نہیں ہو پائی اور اب نئی حتمی تاریخ اکتیس اکتوبر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R.Peters
10 تصاویر1 | 10
لندن حکومت اپیل نہیں کرے گی
سیاسی نیوز پورٹل 'پولیٹیکو‘ نے جمعرات 16 فروری کے روز لندن حکومت کے بیانات کے حوالے سے بتایا کہ ملکی وزارت داخلہ نے اس مقدمے میں اپنی قانونی ناکامی تسلیم کرتے ہوئے اب اس کے خلاف کوئی اپیل دائر نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
برطانوی وزارت داخلہ کے حکام کے مطابق، ''حکومت اس عدالتی فیصلے کے خلاف کوئی اپیل دائر نہیں کرے گی اور اب اس فیصلے پر جلد از جلد عمل درآمد کو یقینی بنانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔‘‘
برٹش سول رائٹس تنظیم 'دی تھری ملین‘ نے اس نئے موقف کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ لندن حکومت نے عدالت میں اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے جس رویے کا مظاہرہ کیا، وہ قابل ستائش ہے اور اب بلا تاخیر ایسے اقدامات کیے جانا چاہییں جن کی مدد سے برطانیہ میں مستقل رہائش پذیر یورپی شہریوں کو ان کے تمام شہری حقوق مل سکیں۔
م م / ش ر (ڈی پی اے، پولیٹیکو)
یورپی یونین میں کونسا ملک کب شامل ہوا؟
سن 1957ء میں مغربی یورپ کے صرف چھ ممالک یورپی یونین میں شامل تھے۔ اس کے بعد مزید 22 ممالک اس بلاک میں شامل ہوئے۔ ڈی ڈبلیو کی طرف سے یورپی یونین کے ماضی اور حال پر ایک نظر۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Diezins
سن1957ء: نئے یورپ کی بنیاد
جرمنی، فرانس، اٹلی، بیلجیم، ہالینڈ اور لکسمبرگ نے پچیس مارچ 1957ء کو یورپی یونین کی بنیاد رکھتے ہوئے روم معاہدے پر دستخط کیے۔ یورپین اکنامک کمیونٹی ( ای سی سی) نے اندرونی اور بیرونی تجارت کو وسعت دینے کا عہد کیا۔ اس وقت ای سی سی اور یورپ کی دو دیگر تنظیموں کے اتحاد کو یورپین کمیونیٹیز (ای سی) کا نام دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Images
سن 1973ء: برطانیہ، آئرلینڈ اور ڈنمارک
برطانیہ شروع میں تو یورپی یونین کا حصہ بننے سے گریز کرتا رہا لیکن ساٹھ کی دہائی میں اس نے اپنے ارادے تبدیل کرنا شروع کر دیے تھے۔ فرانس کی شدید مخالفت کی وجہ سے شمولیت کے لیے اس کی پہلی دو کوششیں ناکام رہی تھیں۔ لیکن 1973ء میں برطانیہ کے ساتھ ساتھ آئرلینڈ اور ڈنمارک بھی اس بلاک کا حصہ بن گئے۔ تاہم برطانوی عوام نے اس کی منظوری 1975ء میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے دی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Lipchitz
سن1981ء: یونان
چھ سالہ مذاکرات کے بعد یونان ای سی کا دسواں رکن ملک بن گیا۔ سن 1974ء میں فوجی ڈکٹیٹر شپ کے خاتمے کے بعد ہی یونان نے اس بلاک میں شمولیت کی درخواست دے دی تھی۔ یونان کی اس یونین میں شمولیت متنازعہ تھی کیوں کہ یہ ملک غریب تھا اور باقی ملکوں کو اس حوالے سے تحفظات تھے۔
تصویر: Getty Images/C. Furlong
سن 1986ء: اسپین اور پرتگال
یونان کے پانچ برس بعد اسپین اور پرتگال بھی یونین میں شامل ہو گئے۔ ان کی حالت بھی یونان کی طرح ہی تھی اور یہ بھی جمہوریت کے دور میں نئے نئے داخل ہوئے تھے۔ اسپین میں جمہوری تبدیلی سابق ڈکٹیٹر فرنسیسکو فرانکو کی 1975ء میں وفات کے بعد آئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/G. Silva
سن 1995ء: آسٹریا، سویڈن اور فن لینڈ
سن انیس سو بانوے میں ای سی بلاک کے رکن ممالک نے ایک نئے معاہدے پر دستخط کیے اور موجودہ دور کی یورپی یونین (ای یو) کی شکل سامنے آئی۔ اس کے بعد سب سے پہلے اس تنظیم میں آسٹریا، سویڈن اور فن لینڈ شامل ہوئے۔ یہ تمام رکن ممالک سرد جنگ کے دوران سرکاری طور پر غیرجانبدار تھے اور نیٹو کے رکن بھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L. Bry
سن2004ء: 10 مشرقی یورپی ممالک
یہ یورپی یونین میں سب سے بڑی وسعت تھی۔ ایک ساتھ دس ممالک یورپی یونین کا حصہ بنے۔ ان ممالک میں چیک ریپبلک، ایسٹونیا، قبرص، لیٹویا، لیتھوانیا، ہنگری، مالٹا، پولینڈ، سلوواکیا اور سلووینیا شامل تھے۔ دو عشرے قبل کمیونزم کے زوال کے بعد ان تمام ممالک کے لیے جمہوریت نئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سن 2007ء: رومانیہ اور بلغاریہ
رومانیہ اور بلغاریہ نے یورپی یونین میں شمولیت کا منصوبہ سن دو ہزار چار میں بنایا تھا۔ لیکن عدالتی اور سیاسی اصلاحات میں تاخیر کی وجہ سے انہیں اس بلاک میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ ان دونوں ملکوں کو غریب اور بدعنوان ترین قرار دیا جاتا تھا لیکن بعد ازاں اصلاحات کے بعد انہیں بھی یورپی یونین میں شامل کر لیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/V. Donev
سن 2013ء: کروشیا
یورپی یونین کو آخری وسعت کروشیا کو اس بلاک میں شامل کرتے ہوئے دی گئی۔ سلووینیا کے بعد یہ دوسرا چھوٹا ترین ملک تھا، جو نوے کی دہائی میں یوگوسلاویا کی خونریز جنگ کے بعد یورپی یونین کا حصہ بنا۔ مونٹی نیگرو اور سربیا بھی یوگوسلاویا کا حصہ تھے اور یہ بھی یونین میں شمولیت کے لیے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح مقدونیا اور البانیا کی قسمت کا فیصلہ بھی جلد ہی کیا جائے گا۔