برطانیہ میں مقیم یورپی ممالک کے ہزاروں بچوں کا دوہرا المیہ
30 مارچ 2021
ایسے ہزاروں یورپی بچے کبھی ہر قسم کی فکر سے آزاد تھے۔ اب ان کے کسی بھی دستاویزی ریکارڈ سے باہر رہ جانے کا شدید خطرہ ہے۔ ان ہزاروں بچوں کو ملک بدر بھی کیا جا سکتا ہے۔ لندن اور برسلز کو مل کر اس مسئلے کا حل نکالنا ہو گا۔
اشتہار
برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج یا بریگزٹ کے حوالے سے لندن اور برسلز کے مابین 2020ء میں ایک معاہدہ طے پایا تھا، جسے یورپی یونین کی آبادی کاری سکیم کہا جاتا ہے۔ اس اسکیم کے تحت بریگزٹ سے پہلے تک یورپی یونین کے دیگر رکن ممالک کے جو باشندے برطانیہ میں آباد تھے، انہیں آئندہ بھی برطانیہ میں قیام کا حق حاصل رہے گا۔
اسی طرح جو برطانوی باشندے یورپی یونین کے شہریوں کے طور پر بریگزٹ سے پہلے اس بلاک کے دیگر رکن ممالک میں رہائش پذیر تھے، وہ بھی آئندہ ان ممالک میں مقیم رہنے کا قانونی حق رکھتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ برطانیہ میں ایسے یورپی اور یورپی ممالک میں ایسے برطانوی شہریوں کو اپنی اپنی رہائش کے موجود ممالک میں مستقبل میں بھی مقیم رہنے کے لیے اس سال 30 جون تک باقاعدہ درخواستیں دینا ہیں۔
مقامی حکومتوں کی نگرانی میں دیے گئے ہزاروں یورپی بچے
دنیا کے بہت سے دیگر خطوں کی طرح یورپی معاشروں میں بھی قانونی طریقہ کار یہی ہے کہ جو گھرانے ٹوٹ پھوٹ یا تقسیم کا شکار ہو جاتے ہیں یا جن میں والدین اپنے بچوں کی کئی متنوع وجوہات کے سبب خود مناسب پرورش نہیں کر سکتے، ان کی دیکھ بھال اور سرپرستی کی ذمے داری مقامی حکومتوں کو منتقل ہو جاتی ہے۔
برطانوی معیشت بار بار بریگزٹ کے ممکنہ منفی اثرات سے خبردار کرتی رہی ہے۔ حالیہ برطانوی ریفرنڈم میں یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے کے بعد چند ایک کاروباری اور صنعتی ادارے برطانیہ کو خیر باد بھی کہہ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
ووڈافون
موبائل فون سروسز فراہم کرنے والے دنیا کے اس دوسرے بڑے ادارے کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ برطانیہ کو الوداع کہہ دینا خارج از امکان نہیں ہے اور ممکنہ طور پر یہ ادارہ اپنے ہیڈکوارٹرز جرمن شہر ڈسلڈورف میں منتقل کر دے گا۔ جرمن علاقے رائن لینڈ میں ووڈافون کے نئے کیمپس میں پانچ ہزار ملازمین کی گنجائش ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جرمنی اس ادارے کی سب سے بڑی منڈی بھی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hayhow
راین ایئر
پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والے اس سب سے بڑے یورپی ادارے کا مرکزی دفتر ویسے تو آئر لینڈ میں ہے لیکن اب تک اس کے زیادہ تر طیارے برطانوی سرزمین پر ہی موجود رہے ہیں تاہم اب یہ صورتِ حال بدلنے والی ہے۔ راین ایئر نے اعلان کیا ہے کہ برطانیہ میں کوئی نیا طیارہ نہیں رکھا جائے گا اور نہ ہی برطانوی ایئر پورٹس سے راین ایئر کے کوئی نئے رُوٹ متعارف کرائے جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
ایزی جیٹ
سستی پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والی اس دوسری بڑی یورپی کمپنی کا شمار اُن کاروباری اداروں میں ہوتا ہے، جو یورپ میں آج کل سب سے زیادہ منافع میں جا رہے ہیں۔ سرِد ست اس ادارے کا مرکزی دفتر لندن میں ہے لیکن کب تک؟ رواں ہفتے اس ادارے کی مجلس عاملہ کی خاتون سربراہ کیرولین میکال نے بڑے ٹھنڈے انداز میں کہا، ’دیکھیں کیا ہوتا ہے؟‘
تصویر: Getty Images/AFP/F. Guillot
ورجن
رچرڈ برینسن برطانیہ کے مشہور ترین آجرین میں سے ایک ہیں۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے نتائج پر اُن کا تبصرہ تھا: ’’ہم ایک تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔‘‘ تئیس جون کے ریفرنڈم کے بعد بازار حصص میں اُن کی کمپنی ورجن کے شیئرز کی قیمتوں میں ایک تہائی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ برینسن کا مطالبہ ہے کہ یہی ریفرنڈم ایک بار پھر منعقد کرایا جائے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas
جے پی مارگن
اس سب سے بڑے امریکی بینک کی لندن شاخ میں سولہ ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔ اب یہ بینک اپنے کاروبار کے ایک حصے کو برطانیہ سے کہیں اور منتقل کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اس بینک کے سربراہ جیمی ڈائمن نے ریفرنڈم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ایک سے لے کر چار ہزار تک آسامیاں کہیں اور منتقل کی جا سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/C.Gillon
ویزا
کریڈٹ کارڈ کی سہولت فراہم کرنے والے اس ادارے کے پاس برطانیہ میں اپنی سینکڑوں ملازمتیں ختم کرنے کے سوا غالباً کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ یورپی یونین کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایسے کسی ادارے کا ڈیٹا یورپی یونین کے کسی رکن ملک کے اندر پڑا ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لندن میں اس ادارے کے ڈیٹا سینٹر کو بند کرنا پڑے گا۔
تصویر: Imago
فورڈ
اس امریکی کار ساز ادارے کے لیے برطانیہ یورپ میں ایک ’کلیدی منڈی‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور ادارے نے اس بات کا بار بار اظہار بھی کیا ہے۔ ڈیگنہیم میں واقع فورڈ کا کارخانہ جرمن پیداواری مراکز کو انجن اور دیگر پُرزہ جات بھی فراہم کرتا ہے۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد اس ادارے کی جانب سے کہا گیا کہ یہ ادارہ ایسے تمام ضروری اقدامات کرے گا، جن سے اس کی مقابلہ بازی کی صلاحیت کو برقرار رکھا جا سکتا ہو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جیگوار لینڈ رووَر
لیکن ایسا نہیں ہے کہ سبھی ادارے ہی مایوس ہیں۔ جیگوار لینڈ رووَر کے اسٹریٹیجی کے شعبے کے سربراہ ایڈریان ہال مارک نے کہا، ’’ہم برطانوی ہیں اور برطانیہ کا ساتھ دیں گے۔‘‘ ہال مارک نے یقین دلایا کہ کاروبار معمول کے مطابق جاری ہے۔ شاید وہ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ کم از کم اگلے دو سال تک برطانیہ بدستور یورپی یونین کا ہر لحاظ سے مکمل رکن رہے گا۔
برطانیہ میں انتظامی شعبے میں ایسے بچوں کو 'مقامی بلدیاتی کونسلوں کی طرف سے بنائی گئی رہائش گاہوں یا کیئر ہومز میں رہنے والے نابالغ افراد‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ بلدیاتی کونسلوں کی سرپرستی میں برطانیہ میں قائم سینکڑوں مختلف رہائش گاہوں میں مقیم ایسے ہزارہا بچوں میں سے تقریباﹰ تین ہزار سات سو ایسے بھی ہیں، جو برطانوی نہیں بلکہ یونین کے رکن ممالک کے شہری ہیں۔
اشتہار
ہزاروں یورپی بچوں کا دوہرا المیہ
برطانیہ میں ایسے ہزاروں یورپی بچوں کو اس وقت دوہرے المیے کا سامنا ہے۔ ایک تو یہ کہ وہ ٹوٹ پھوٹ کے شکار گھرانوں کے ایسے نابالغ افراد ہیں جو اپنے اپنے والدین کے ساتھ رہنے کے بجائے مقامی حکومتوں کی سرپرستی میں پرورش پا رہے ہیں۔ دوسرے یہ کہ بریگزٹ کے باعث برطانیہ میں اب ان کا مستقبل غیر واضح ہے اور انہیں ملک بدر بھی کیا جا سکتا ہے۔
برطانوی فلاحی تنظیم 'چلدڑنز سوسائٹی‘ کی طرف سے ستمبر 2020ء سے لے کر فروری 2021ء تک ملک کی 175 بلدیاتی کونسلوں کے کیئر ہومز سے متعلق جو ڈیٹا جمع کیا گیا، اس کے مطابق ان رہائش گاہوں میں مقیم یورپی یونین کے رکن ممالک کے نابالغ شہریوں کی تعداد 3690 ہے، جنہیں اسی سال 30 جون سے پہلے پہلے برطانیہ میں اپنے مستقل قیام کی درخواستیں دینا ہیں۔
لندن جانے کی دس وجوہات
بریگزٹ کے معاملے پر برطانوی پارلیمان میں رائے شماری پر پوری دنیا کی نگاہیں ہیں۔ مگر لندن کے مرکزِ نگاہ ہونے کی اور بھی وجوہات ہیں۔ یہ یورپ میں سیر کے لیے جانے والوں کا سب سے بڑا مرکز ہے، مگر کیوں؟
تصویر: picture-alliance/Daniel Kalker
دریائے ٹیمز
لندن میں سیاحت کے لیے سب سے زیادہ مشہور جگہیں دریائے ٹیمز کے کنارے ہیں۔ لندن میں اس دریا کے جنوبی کنارے پر ’لندن آئی‘، برطانوی پارلیمان کا حامل ویسٹ منسٹر محل اور مشہورِ زمانہ بگ بین ٹاور دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/robertharding/M. Simoni
پُل
دریائے ٹیمز پر کئی پل ہیں، مگر ٹاور برج جیسی شہرت کسی دوسرے پل کی نہیں۔ سیاح اس پل کے انجن روم میں جا سکتے ہیں، جہاں کوئلے کے اصل برنر اور بھاپ کے انجن موجود ہیں، جو کسی دور میں کشتیوں کے گزرنے کے لیے پل کو اوپر اٹھانے کا کام سرانجام دیتے تھے۔ وہ افراد جو اونچائی سے ڈرتے نہیں، وہ اس پل پر شیشے کی بنی 42 میٹر اونچی ’اسکائی واک‘ پر چل سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/robertharding/A. Copson
عجائب گھر
لندن میں وکٹوریہ اور البرٹ میوزم اور برٹش میوزم کو دنیا بھر میں بہترین عجائب گھر قرار دیا جاتا ہے۔ ٹیٹ ماڈرن میوزم میں جدید فنی تخلیقات موجود ہیں، جب کہ یہ ماضی میں ایک بجلی گھر ہوا کرتا تھا۔ بہت سے دیگر عجائب گھروں کی طرح اس میوزم میں داخلے کی بھی کوئی فیس نہیں۔
تصویر: Switch House, Tate Modern/Iwan Baan
موسیقی
کانسرٹس، کانسرٹس اور کانسرٹس۔ موسیقی کے دل دادہ افراد کو لندن ضرور جانا چاہیے۔ اس شہر میں کسی چھوٹے سے پب سے لے کر موسیقی کی بڑی تقریبات تک، ہر جگہ موسیقی کی بہار ہے۔ خصوصاﹰ موسم گرما میں ہائیڈ پارک لندن میں تو جیسے میلہ لگا ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance7Photoshot/PYMCA
محلات
بکنگھم پیلس ملکہ برطانیہ کی سرکاری رہائش گاہ ہے۔ اس محل کے متعدد کمرے جولائی تا اکتوبر عام افراد کے دیکھنے کے لیے کھول دیے جاتے ہیں، کیوں کہ اس وقت ملکہ اسکاٹ لینڈ میں ہوتی ہیں۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ شاہی خاندان کے دیگر بہت سے محل بھی آپ دیکھ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/DPA/M. Skolimowska
پارک
لندن میں بہت سے قابل دید پارک، باغات اور باغیچے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی دوسرے بڑے شہر کے مقابلے میں سب سے زیادہ سبزہ لندن کا خاصا ہے۔ لندن کے ریجنٹ پارک کی پریمروز پہاڑی سے پورا شہر آپ کی نگاہوں کے سامنے ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Design Pics/Axiom
دکانیں
لندن میں ہر طرح کے بجٹ کے لیے اور ہر دلچسپی کا سامان موجود ہے۔ چھوٹے بوتیک سے لے کر بڑے بڑے ڈیپارٹمنٹل اسٹورز تک، حتیٰ کہ سیکنڈ ہینڈ سامان کی دکانیں بھی۔ اختتام ہفتہ پر لندن میں جگہ جگہ مارکیٹیں لگی نظر آتی ہیں۔ اس تصویر میں کیمڈن مارکیٹ کا منظر ہے۔ یہ مارکیٹ نوجوانوں میں بے حد مقبول ہے۔
تصویر: picture-alliance/Eibner
گرجا گھر
ویسٹ منسٹر ایبے کے ساتھ سینٹ پال کا کیتھیڈرل لندن کا مشہور زمانہ گرجا گھر ہے، مگر لندن میں بہت سے دیگر کیتھیڈرلز بھی ہیں، جو سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتے ہیں۔ ویسٹ منسٹر ایبے سن 1066ء سے شاہی خاندان کے انتقال کر جانے والے افراد کی آخری آرام گاہ ہے۔ اس میں مشہور زمانہ سائنس دانوں کی قبریں بھی ہیں، جن میں ڈارون اور جے جے تھامسن سے لے کر اسٹیفن ہاکنگ تک کئی شخصیات شامل ہیں۔
دریائے ٹیمز کے جنوبی کنارے پر ’شارڈ‘ سے لندن شہر پر ایک طائرانہ نگاہ۔ 244 میٹر اونچائی سے جیسے کوئی پورا شہر آپ کے سامنے رکھ دے۔ شیشے اور اسٹیل سے بنی یہ عمارت مغربی یورپ کی سب سے بلند عمارت ہے، اسے اسٹار آرکیٹکٹ رینزو پیانو نے ڈیزائن کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/robertharding/M. Ertman
مے خانے
لندن کی تاریخ ہی مکمل نہیں ہوتی اگر اس شہر سے یہ مے خانے نکال دیے جائیں۔ مقامی طور پر انہیں ’پب‘ کہا جاتا ہے اور یہاں آپ کو ہر طرح کی بیئر اور الکوحل والے دیگر مشروبات کی بہتات ملتی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں لوگ گپ شپ بھی کرتے ہیں اور کھاتے پیتے شامیں گزارتے ہیں۔
لیکن گزشتہ ماہ کے آخر تک ایسے صرف 1426 بچوں کی طرف سے یہ درخواستیں دی گئی تھیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے سوا دو ہزار بچوں کی طرف سے ابھی تک کسی نے کوئی درخواستیں جمع نہیں کروائیں۔ یہ کام ایسے بچوں کی دیکھ بھال کرنے والے مقامی سماجی کارکنوں یا ان کے قانونی سرپرستوں کا تھا، جو تاحال نہیں کیا گیا۔
ملک بدری کا خطرہ
برطانوی غیر سرکاری تنظیم چلڈرنز سوسائٹی کے مطابق ایسے یورپی شہریوں کے آئندہ برطانیہ سے ملک بدر کیے جانے کا بھی خطرہ ہے، حالانکہ ان کی زندگیوں کا مرکز گزشتہ کئی برسوں سے برطانیہ ہی ہے۔ اس کے علاوہ 30 جون تک درخواستیں نا دینے کی صورت میں یہ ہزاروں یورپی شہری برطانیہ میں ایسے تارکین وطن بن جائیں گے، جن کا بریگزٹ کے تناظر میں یورپی یونین کی آبادی کاری اسکیم کے تحت برطانیہ میں کوئی دستاویزی ریکارڈ بھی نہیں ہو گا۔
اس کا عملی طور پر مطلب یہ بھی ہو گا کہ ایسے یورپی شہری برطانیہ میں آئندہ اپنے روزگار، تعلیم، ریاستی مدد، بینک اکاؤنٹ کھولنے حتیٰ کہ ڈرائیونگ لائسنس تک بنوانے کے حقوق سے بھی محروم ہو جائیں گے۔
اسی لیے چلڈرنز سوسائٹی نے برطانوی وزارت داخلہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کیئر ہومز میں رہنے والے ایسے ہزاروں یورپی بچوں کی برطانیہ میں مستقل رہائش کی درخواستیں تیس جون کی ڈیڈ لائن پوری ہونے کے بعد بھی وصول کرے۔
م م / ع ح (ڈی پی اے)
بڑے شہروں میں مکانات کی قیمتوں میں کمی کا رجحان
آسٹریلیا سمیت کئی دوسرے ممالک میں جائیداد کی خرید و فروخت کے کاروبار میں مندی کا رجحان دیکھا جا رہا ہے۔ شمالی امریکا اور ایشیائی شہروں میں بھی ریئل اسٹیٹ کی قیمتوں میں کمی محسوس کی گئی ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Isakovic
آسٹریلیا میں مکانات کی قیمتوں میں کمی
مختلف آسٹریلوی شہروں میں گزشتہ پندرہ برسوں کے بعد رواں موسم خزاں میں مکانات کی خرید و فروخت میں حیران کن کمی واقع ہوئی ہے۔ خاص طور پر سڈنی نمایاں ہے۔ اقتصادی سرگرمیوں کے عروج کے دور میں سڈنی میں مکانات کی قیمتیں دوگنا ہو گئی تھیں لیکن اب ان میں دس فیصد کی کمی دیکھی گئی ہے۔ آسٹریلیا میں مکانات کی قیمتوں میں کمی کی ایک وجہ رہن رکھنے کے سخت ضوابط بھی ہیں۔
تصویر: Imago/ZUMA Press/A. Drapkin
بنکاک کی مشترکہ ملکیت پر چھائی برف
بنکاک میں مشترکہ ملکیت کی حامل ریئل اسٹیٹ میں چینی سرمایہ کار خاص دلچسپی رکھتے ہیں۔ گزشتہ پانچ برسوں میں چینی سرمایہ کاری کی وجہ سے قیمتوں میں پانچ سے دس فیصد سالانہ اضافہ دیکھا گیا۔ اب اس صورت حال میں کمی کے بعد چالیس ہزار اپارٹمنٹس کا کوئی خریدار نہیں۔ یہ بھی اتفاق ہے کہ بعض ایشیائی شہروں میں رہائشی عمارتوں کے لیے جگہ کم ہونے لگی ہے۔
تصویر: imago/Arcaid Images/R. Powers
لندن میں جائیداد کی خرید و فرخت پر بریگزٹ کے سائے
برطانوی دارالحکومت لندن کے ریئل اسٹیٹ کاروبار میں چینی، روسی اور مشرق وسطیٰ کے امراء بڑی رغبت سے سرمایہ کاری کرتے چلے آ رہے ہیں۔ لیکن اب بریگزٹ کی وجہ سے گزشتہ دو برسوں سے مکانات کی قیمتوں میں کمی کا رجحان غالب ہے۔ تقریباً پانچ سو نئے تعمیر شدہ اپارٹمنٹس اور مکانات خالی پڑے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Arcaid/R. Bryant
چین میں قیمتوں کی کمی، سرمایہ کاروں کی دہائی
چین کے کئی شہروں میں جائیداد کے کاروبار میں مندی جاری ہے۔ قیمتوں میں کمی کا یہ مخصوص رجحان گزشتہ برس سے جاری ہے۔ بیجنگ اور شنگھائی سمیت تیئس شہروں میں ریئل اسٹیٹ کے کاروبار میں گراوٹ پیدا ہو چکی ہے۔ کئی چینی صوبوں نے رہائشی اپارٹمنٹس تعمیر کرنے کے کئی منصوبے منسوخ کر دیے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/imaginechina/D. Dong
وینکُوور کے غبارے سے بھی ہوا نکل رہی ہے
گزشتہ پندرہ برسوں میں کینیڈا کے شہر وینکُوور میں ریئل اسٹیٹ کے کاروبار کو فروغ حاصل رہا۔ مکانات کی قیمتوں میں 337 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ رائل بینک آف کینیڈا کے مطابق اب یہ شہر اپنی قیمتوں میں اضافے سے پیدا شدید صورت حال کو بہتر کرنے کی کوشش میں ہے۔
تصویر: imago/All Canada Photos
استنبول کی صورت حال بھی گھمبیر
گزشتہ برس ترک کرنسی لیرا کی مجموعی قدر میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں چالیس فیصد کی کمی ہوئی۔ شرح سود میں چوبیس فیصد کا اضافہ ہوا۔ اس باعث گروی رکھنے والی جائیداد کی درخواستوں میں سے اسی فیصد کو مسترد کر دیا گیا۔ دوسری جانب غیر ملکی کرنسیوں کے لیے استنبول میں مکانات کی قیمتیں بظاہر کم محسوس ہوتی ہیں۔
تصویر: Reuters
سنگاپور میں بھی جائیداد کے کاروبار میں کمی کا رجحان
ریئل اسٹیٹ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سنگاپور میں سن 2019 کے دوران مکانات و اپارٹمنٹس کی قیمتوں میں پانچ فیصد سے زائد کمی کی توقع ہے۔ سنگاپور میں رہائشی اپارٹمنٹس کے حوالے سے نئے تجرباتی ڈیزائن بھی متعارف کرائے گئے ہیں تا کہ خریداروں کی توجہ حاصل کی جا سکے۔
تصویر: Imago/imagebroker
ہانگ کانگ میں حالات بہتر ہوئے ہیں
ہانگ کانگ میں پراپرٹی کی مارکیٹ میں چند برس قبل تیزی ضرور پیدا ہوئی تھی لیکن اب اس کی رفتار مدہم پڑ چکی ہے۔ خصوصی اختیارات کے حامل چینی علاقے کی ریئل اسٹیٹ مارکیٹ میں گزشتہ نو برسوں سے اعتدال پایا جاتا ہے۔ گرشتہ موسم گرما سے اب تک پراپرٹی کی قیمتوں میں نو فیصد کی کمی ہو چکی ہے۔