1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہبرطانیہ

برطانیہ میں ممکنہ فسادات سے نمٹنے کے لیے ’رائٹ پولیس‘ تیار

7 اگست 2024

ملک میں انتہائی دائیں بازو کے گروپ تیس سے زائد مقامات پر مظاہرے کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ خدشہ ہے کہ مظاہرین امیگریشن کے حوالے سے کام کرنے والے وکلا اور ان عمارتوں کو نشانہ بنائیں گے، جہاں پناہ گزین مقیم ہیں۔

برطانیہ میں مظاہرین اور انہیں قابو میں کرنے کی کوشش کرنے والے پولیس اہلکار
برطانیہ میں حالیہ پرتشدد مظاہروں کے بعد مزید ممکنہ فسادات اور جھڑپوں سے نمٹنے کے لیے 'رائٹ پولیس‘ کے ہزاروں اہلکار تیار ہیںتصویر: Getty Images

برطانیہ سے بدھ کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق وہاں حالیہ پرتشدد مظاہروں کے بعد مزید ممکنہ فسادات اور جھڑپوں سے نمٹنے کے لیے 'رائٹ پولیس‘ کے ہزاروں اہلکار تیار ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق آنے والے دنوں میں ملک میں انتہائی دائیں بازو کے گروپ تیس سے زائد مقامات پر مظاہرے کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے ٹیلی گرام کے ذریعے برطانوی میڈیا کو موصول ہوئی تفصیلات کے مطابق ان مظاہروں کے شرکاء بنیادی طور پر امیگریشن کے حوالے سے کام کرنے والے وکلا اور ان عمارتوں کو نشانہ بنائیں گے جہاں پناہ گزین مقیم ہیں۔

 برطانیہ میں فسادات اور پر تشدد مظاہروں کا حالیہ سلسلہ تب شروع ہوا جب 29 جولائی کو برطانیہ کے شمال مغرب ميں واقع شہر ساؤتھ پورٹ ميں چاقو سے کیے گئے ایک حملے میں تین بچیاں ہلاک ہو گئیں۔ اس واقعے میں مزید پانچ بچے زخمی بھی ہوئے تھے۔

اس کے بعد سوشل میڈیا پر یہ جھوٹی افواہ پھیل گئی کہ اس واقعے میں مشتبہ حملہ آور ایک مسلمان اور پناہ گزین ہے۔ تاہم بعد میں یہ واضح ہوا کہ مشتبہ شخص دراصل ایک برطانوی شہری ہے، جس کی شناخت سترہ سالہ ايکسل روداکوبانا کے طور پر کی گئی۔ برطانوی میڈیا رپورٹوں کے مطابق ايکسل روداکوبانا کے والدین کا تعلق روانڈا سے ہے۔ 

برطانیہ سے بدھ کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق وہاں حالیہ پرتشدد مظاہروں کے بعد مزید ممکنہ فسادات اور جھڑپوں سے نمٹنے کے لیے 'رائٹ پولیس‘ کے ہزاروں اہلکار تیار ہیںتصویر: Ian Forsyth/Getty Images

اس واقعے کے بعد شروع ہونے والے مسلمانوں اور پناہ گزینوں کےخلاف مظاہروں اور فسادات کو برطانیہ میں گزشتہ تقریباﹰ ایک دہائی کے عرصے میں ہونے والی بدترین بد امنی قرار دیا جا رہا ہے۔ ان فسادات کے دوران مختلف شہروں میں مظاہرین نے پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ کیا، گاڑیوں کو نذر آتش کیا اور مساجد پر حملے کیے۔ انہوں نے کم از کم ایسے دو ہوٹلوں پر بھی حملے کیے جہاں پناہ گزین مقیم ہیں۔  

حکومت کے مطابق اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے 6,000 خصوصی پولیس اہلکاروں کو تیار کیا جا رہا ہے، جب کہ اب تک سینکڑوں افراد کو گرفتار بھی کیا جا چکا ہے۔

ان میں سے کئی کو منگل کو ایک جج کے سامنے پیش کیا گیا۔ ان میں شامل ایک انیس سالہ نوجوان کو دو ماہ قید کی سزا سنائی گئی ہے، جب کہ ایک اور شخص کو ایک پولیس اہلکار پر حملہ کرنے کے اعتراف کے بعد سزا دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ایک پندرہ سالہ لڑکے نے، جس کی شناخت ایک ٹک ٹاک ویڈیو کے ذریعے کی گئی تھی، لورپول میں تشدد اور بد امنی کے واقعات میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ اسی طرح مزید ایک شخص نے فیس بک پر دھمکی آمیز پوسٹ کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس پوسٹ کا مقصد نسلی بنیادوں پر نفرت پھیلانا تھا۔

اسی دوران کئی ممالک نے اپنے شہریوں کو برطانیہ سفر کرنے سے متعلق خطرات کے حوالے سے خبردار کیا ہے۔

حالیہ فسادات کے دوران مختلف شہروں میں مظاہرین نے پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ کیا، گاڑیوں کو نذر آتش کیا اور مساجد پر حملے کیےتصویر: Getty Images

’بد امنی کے خاتمے کے لیے تمام ضروری اقدامات کریں گے‘

برطانوی حکومت نے اس بد امنی کے خلاف سخت اقدامات کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

منگل کے روز برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے خبردار کیا تھا آن لائن پر تشدد رویوں کو ہوا دینے والوں سمیت بد امنی میں ملوث افراد کو قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک کے 99.9 فیصد افراد احساس تحفظ چاہتے ہیں اور ''ہم اس بد امنی کے خاتمے کے لیے تمام ضروری اقدامات کریں گے۔‘‘

اس کے علاوہ برطانوی وزیر برائے انصاف ہائڈی الیگزینڈر نے بی بی سی ریڈیو فور کو بتایا ہے کہ حکومت نے جیلوں میں 500 مزید قیدیوں کے لیے جگہ کی فراہمی کے حوالے سے اقدامات کیے ہیں۔ 

پولیس نے حالیہ بد امنی کے لیے پندر سال قبل قائم ہونے والی اور اب غیر فعال دائیں بازو کی اسلام مخالف تنظیم انگلش ڈیفنس لیگ سے منسلک افراد کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

انتہائی دائیں بازو کے بدمعاشوں کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے، برطانوی وزیراعظم

02:22

This browser does not support the video element.

م ا ⁄ ش ر (اے ایف پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں