برطانیہ میں مہنگائی: پبلک سیکٹر کے لاکھوں ملازمین کی ہڑتال
1 فروری 2023
برطانیہ میں بہت زیادہ مہنگائی کے خلاف اور اپنی تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کرتے ہوئے بدھ یکم فروری کے روز عوامی شعبے کے لاکھوں ملازمین ہڑتال کر رہے ہیں۔ ان میں سول ملازمین، ریل گاڑیوں کے ڈرائیور اور اساتذہ تک شامل ہیں۔
اشتہار
برطانیہ میں آج کی جانے والی اس وسیع تر ہڑتال میں عوامی شعبے کے پانچ لاکھ تک ملازمین کی شرکت متوقع ہے اور اس دوران ریل گاڑیوں کی آمد و رفت کا معمول کا نظام بھی بہت کم کام کر سکے گا جبکہ پبلک سروس کے دیگر بہت سے شعبوں میں بھی تعطل اور جمود یقینی قرار دیے جا رہے ہیں۔
اس ہڑتال میں حصہ لینے والے پبلک سیکٹر ملازمین ملک میں بہت زیادہ مہنگائی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان کی تنخواہوں میں واضح اضافہ کیا جائے، اس لیے کہ ان کے لیے اپنی موجودہ آمدنی میں گزارہ کرنا انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔
اس ہڑتال کی ایک اہم بات اس میں سرکاری اور مقامی حکومتوں کے زیر انتظام چلنے والے اسکولوں کے اساتذہ کا شامل ہو جانا بھی ہے، حالانکہ تعلیمی شعبے کے ملازمین عام طور پر ایسی ہڑتالوں میں شامل نہیں ہوتے۔ آج یکم فروری کے روز برطانیہ میں تمام اسکول بھی بند ہیں۔
اس ہڑتال کے اعلان کے بعد Ipsos نامی ادارے کی طرف سے کرائے گئے ایک سروے کے نتائج کے مطابق برطانوی عوام کی کافی بڑی تعداد اپنی رائے میں منقسم اور کافی حد تک ہڑتالی ملازمین کی حامی بھی ہے۔ اس سروے میں 40 فیصد رائے دہندگان نے اس ہڑتال کی حمایت کی جبکہ 38 فیصد رائے دہندگان نے اسے غلط اقدام قرار دیا۔
برطانیہ میں مختلف شعبوں کے کارکنوں کی ٹریڈ یونیوں کی نمائندہ ملکی تنظیم ٹریڈز یونین کانگریس کے جنرل سیکرٹری پال نوواک کا کہنا ہے، ''ہماری تنخواہوں میں برسوں تک ظالمانہ کمی کے بعد، ملک بھر میں نرسوں، اساتذہ اور کئی ملین دیگر پبلک ملازمین کا معیار زندگی بری طرح متاثر ہوا ہے۔ اپنی تنخواہوں کے حوالے سے ہمیں مستقبل میں اور بھی بری صورت حال کا سامنا رہے گا۔‘‘
پال نوواک نے کہا، ''ہمارے ہڑتال کے حق پر حملوں کے لیے نئے راستے تلاش کرنے کے بجائے حکومت اور وزراء کو ملک بھر میں کارکنوں کی تنخواہیں بڑھانا چاہییں، خاص طور پر پبلک سیکٹر ملازمین کی تنخواہیں، جن میں مناسب حد تک اضافہ ناگزیر ہو چکا ہے۔‘‘
برطانیہ میں آج کی اس ہڑتال کو 2011ء کے بعد سے آج تک کی سب سے بڑی ایک روزہ ہڑتال قرار دیا جا رہا ہے۔
اس کے علاوہ احتجاجی ملازمین اس بارے میں بھی احتجاج کر رہے ہیں کہ حکومت ایک ایسا نیا قانون بھی متعارف کرانا چاہتی ہے، جس کے تحت عوامی زندگی کے کچھ شعبوں میں کارکنوں کا ہڑتال کا حق محدود یا بالکل ختم کر دیا جائے گا۔
دنیا کے ایک بڑے حصے کو اپنی نوآبادی بنانے والے چھوٹے سے جزیرے کو کبھی برطانیہ، کبھی انگلینڈ اور کبھی یو کے لکھ دیا جاتا ہے۔ کیا ان ناموں کو متبادل کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے، اور کیا یہ ایک ہی ملک کا نام ہے؟
تصویر: picture-alliance/dpa/R.Peters
یونائیٹڈ کنگڈم (یو کے)
یو کے در حقیقت مملکت متحدہ برطانیہ عظمی و شمالی آئرلینڈ، یا ’یونائیٹڈ کنگڈم آف گریٹ بریٹن اینڈ ناردرن آئرلینڈ‘ کے مخفف کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی یو کے چار ممالک انگلینڈ، سکاٹ لینڈ، شمالی آئرلینڈ اور ویلز کے سیاسی اتحاد کا نام ہے۔
تصویر: Getty Images/JJ.Mitchell
برطانیہ عظمی (گریٹ بریٹن)
جزائر برطانیہ میں دو بڑے اور سینکڑوں چھوٹے چھوٹے جزائر ہیں۔ سب سے بڑے جزیرے کو برطانیہ عظمی کہا جاتا ہے، جو کہ ایک جغرافیائی اصطلاح ہے۔ اس میں انگلینڈ، سکاٹ لینڈ اور ویلز شامل ہیں۔ انگلینڈ کا دارالحکومت لندن ہے، شمالی آئرلینڈ کا بیلفاسٹ، سکاٹ لینڈ کا ایڈنبرا اور کارڈف ویلز کا دارالحکومت ہے۔
تصویر: Andy Buchanan/AFP/Getty Images
برطانیہ
اردو زبان میں برطانیہ کا لفظ عام طور پر یو کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ برطانیہ رومن لفظ بریتانیا سے نکلا ہے اور اس سے مراد انگلینڈ اور ویلز ہیں، تاہم اب اس لفظ کو ان دنوں ممالک کے لیے کم ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ زیر نظر تصور انگلینڈ اور ویلز کے مابین کھیلے گئے فٹبال کے ایک میچ کی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Rain
انگلینڈ
اکثر انگلینڈ کو برطانیہ (یو کے) کے متبادل کے طور پر استعمال کر دیا جاتا ہے، جو غلط ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ انگلینڈ جزائر برطانیہ کا سب سے بڑا ملک ہے۔ یا پھر اس لیے کہ انگلینڈ اور یو کے کا دارالحکومت لندن ہی ہے۔
تصویر: Reuters/J.-P. Pelissier
جمہوریہ آئرلینڈ اور شمالی آئرلینڈ
جزائر برطانیہ میں دوسرا بڑا جزیرہ آئرلینڈ ہے، جہاں جمہوریہ آئر لینڈ اور شمالی آئرلینڈ واقع ہیں ان میں سے شمالی آئرلینڈ برطانیہ کا حصہ ہے۔
زبان
انگریزی یوں تو جزائر برطانیہ میں سبھی کی زبان ہے لیکن سبھی کے لہجوں میں بہت فرق بھی ہے اور وہ اکثر ایک دوسرے کے بارے میں لطیفے بھی زبان کے فرق کی بنیاد پر بناتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
وجہ شہرت
سکاٹ لینڈ کے لوگ اپنی دنیا بھر میں مشہور اسکاچ پر فخر کرتے ہیں اور بیگ پائپر کی موسیقی بھی سکاٹ لینڈ ہی کی پہچان ہے۔ آئرلینڈ کی وجہ شہرت آئرش وہسکی اور بیئر ہے جب کہ انگلینڈ کے ’فش اینڈ چپس‘ مہشور ہیں۔
تصویر: Getty Images
اختلافات
یو کے یا برطانیہ کے سیاسی اتحاد میں شامل ممالک کے باہمی اختلافات بھی ہیں۔ بریگزٹ کے حوالے سے ریفرنڈم میں سکاٹ لینڈ کے شہری یورپی یونین میں شامل رہنے کے حامی دکھائی دیے تھے اور اب بھی ان کا کہنا ہے کہ بریگزٹ کی صورت میں وہ برطانیہ سے علیحدگی اختیار کر سکتے ہیں۔
تصویر: Andy Buchanan/AFP/Getty Images
یورپی یونین اور برطانیہ
فی الوقت جمہوریہ آئر لینڈ اور برطانیہ، دونوں ہی یورپی یونین کا حصہ ہیں۔ بریگزٹ کے بعد تجارت کے معاملات طے نہ ہونے کی صورت میں سب سے زیادہ مسائل شمالی آئرلینڈ اور جمہوریہ آئرلینڈ کی سرحد پر پیدا ہوں گے۔ برطانیہ کی خواہش ہے کہ وہاں سرحدی چوکیاں نہ بنیں اور آزادانہ نقل و حرکت جاری رہے۔
تصویر: Reuters/T. Melville
بریگزٹ کا فیصلہ کیوں کیا؟
برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی سے متعلق ریفرنڈم میں بریگزٹ کے حامی کامیاب رہے تھے۔ ان لوگوں کے مطابق یونین میں شمولیت کے باعث مہاجرت بڑھی اور معاشی مسائل میں اضافہ ہوا۔ ریفرنڈم کے بعد سے جاری سیاسی بحران اور یورپی یونین کے ساتھ کوئی ڈیل طے نہ ہونے کے باعث ابھی تک یہ علیحدگی نہیں ہو پائی اور اب نئی حتمی تاریخ اکتیس اکتوبر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R.Peters
10 تصاویر1 | 10
افراط زر کی بہت اونچی شرح
برطانیہ کو اس وقت اپنے ہاں گزشتہ چار عشروں کے دوران نظر آنے والی افراط زر کی سب سے اونچی شرح کا سامنا ہے، جو 10 فیصد بنتی ہے۔ ملک میں توانائی اور اشیائے خوراک کی قیمتیں بہت زیادہ ہو چکی ہیں۔
اسی بہت زیادہ افراط زر اور روزمرہ زندگی کے لازمی اخراجات ہوش ربا حد تک بڑھ جانے کے باعث برطانیہ میں کئی شعبوں میں پبلک سیکٹر ملازمین حال ہی میں ہڑتالیں کر بھی چکے ہیں۔ ان میں صحت عامہ، ٹرانسپورٹ اور پوسٹل سروس جیسے شعبوں کے کارکن شامل تھے۔
اس کے علاوہ ہیلتھ کیئر، نرسنگ، ایمبولینس، پیرا میڈیکل اور ایمرجنسی سروسز جیسے طبی شعبوں کے ہزارہا کارکنوں کی طرف سے بھی اگلے ہفتے ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا جا چکا ہے۔
م م / ش ر (روئٹرز، اے ایف پی)
لندن جانے کی دس وجوہات
بریگزٹ کے معاملے پر برطانوی پارلیمان میں رائے شماری پر پوری دنیا کی نگاہیں ہیں۔ مگر لندن کے مرکزِ نگاہ ہونے کی اور بھی وجوہات ہیں۔ یہ یورپ میں سیر کے لیے جانے والوں کا سب سے بڑا مرکز ہے، مگر کیوں؟
تصویر: picture-alliance/Daniel Kalker
دریائے ٹیمز
لندن میں سیاحت کے لیے سب سے زیادہ مشہور جگہیں دریائے ٹیمز کے کنارے ہیں۔ لندن میں اس دریا کے جنوبی کنارے پر ’لندن آئی‘، برطانوی پارلیمان کا حامل ویسٹ منسٹر محل اور مشہورِ زمانہ بگ بین ٹاور دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/robertharding/M. Simoni
پُل
دریائے ٹیمز پر کئی پل ہیں، مگر ٹاور برج جیسی شہرت کسی دوسرے پل کی نہیں۔ سیاح اس پل کے انجن روم میں جا سکتے ہیں، جہاں کوئلے کے اصل برنر اور بھاپ کے انجن موجود ہیں، جو کسی دور میں کشتیوں کے گزرنے کے لیے پل کو اوپر اٹھانے کا کام سرانجام دیتے تھے۔ وہ افراد جو اونچائی سے ڈرتے نہیں، وہ اس پل پر شیشے کی بنی 42 میٹر اونچی ’اسکائی واک‘ پر چل سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/robertharding/A. Copson
عجائب گھر
لندن میں وکٹوریہ اور البرٹ میوزم اور برٹش میوزم کو دنیا بھر میں بہترین عجائب گھر قرار دیا جاتا ہے۔ ٹیٹ ماڈرن میوزم میں جدید فنی تخلیقات موجود ہیں، جب کہ یہ ماضی میں ایک بجلی گھر ہوا کرتا تھا۔ بہت سے دیگر عجائب گھروں کی طرح اس میوزم میں داخلے کی بھی کوئی فیس نہیں۔
تصویر: Switch House, Tate Modern/Iwan Baan
موسیقی
کانسرٹس، کانسرٹس اور کانسرٹس۔ موسیقی کے دل دادہ افراد کو لندن ضرور جانا چاہیے۔ اس شہر میں کسی چھوٹے سے پب سے لے کر موسیقی کی بڑی تقریبات تک، ہر جگہ موسیقی کی بہار ہے۔ خصوصاﹰ موسم گرما میں ہائیڈ پارک لندن میں تو جیسے میلہ لگا ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance7Photoshot/PYMCA
محلات
بکنگھم پیلس ملکہ برطانیہ کی سرکاری رہائش گاہ ہے۔ اس محل کے متعدد کمرے جولائی تا اکتوبر عام افراد کے دیکھنے کے لیے کھول دیے جاتے ہیں، کیوں کہ اس وقت ملکہ اسکاٹ لینڈ میں ہوتی ہیں۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ شاہی خاندان کے دیگر بہت سے محل بھی آپ دیکھ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/DPA/M. Skolimowska
پارک
لندن میں بہت سے قابل دید پارک، باغات اور باغیچے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی دوسرے بڑے شہر کے مقابلے میں سب سے زیادہ سبزہ لندن کا خاصا ہے۔ لندن کے ریجنٹ پارک کی پریمروز پہاڑی سے پورا شہر آپ کی نگاہوں کے سامنے ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Design Pics/Axiom
دکانیں
لندن میں ہر طرح کے بجٹ کے لیے اور ہر دلچسپی کا سامان موجود ہے۔ چھوٹے بوتیک سے لے کر بڑے بڑے ڈیپارٹمنٹل اسٹورز تک، حتیٰ کہ سیکنڈ ہینڈ سامان کی دکانیں بھی۔ اختتام ہفتہ پر لندن میں جگہ جگہ مارکیٹیں لگی نظر آتی ہیں۔ اس تصویر میں کیمڈن مارکیٹ کا منظر ہے۔ یہ مارکیٹ نوجوانوں میں بے حد مقبول ہے۔
تصویر: picture-alliance/Eibner
گرجا گھر
ویسٹ منسٹر ایبے کے ساتھ سینٹ پال کا کیتھیڈرل لندن کا مشہور زمانہ گرجا گھر ہے، مگر لندن میں بہت سے دیگر کیتھیڈرلز بھی ہیں، جو سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتے ہیں۔ ویسٹ منسٹر ایبے سن 1066ء سے شاہی خاندان کے انتقال کر جانے والے افراد کی آخری آرام گاہ ہے۔ اس میں مشہور زمانہ سائنس دانوں کی قبریں بھی ہیں، جن میں ڈارون اور جے جے تھامسن سے لے کر اسٹیفن ہاکنگ تک کئی شخصیات شامل ہیں۔
دریائے ٹیمز کے جنوبی کنارے پر ’شارڈ‘ سے لندن شہر پر ایک طائرانہ نگاہ۔ 244 میٹر اونچائی سے جیسے کوئی پورا شہر آپ کے سامنے رکھ دے۔ شیشے اور اسٹیل سے بنی یہ عمارت مغربی یورپ کی سب سے بلند عمارت ہے، اسے اسٹار آرکیٹکٹ رینزو پیانو نے ڈیزائن کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/robertharding/M. Ertman
مے خانے
لندن کی تاریخ ہی مکمل نہیں ہوتی اگر اس شہر سے یہ مے خانے نکال دیے جائیں۔ مقامی طور پر انہیں ’پب‘ کہا جاتا ہے اور یہاں آپ کو ہر طرح کی بیئر اور الکوحل والے دیگر مشروبات کی بہتات ملتی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں لوگ گپ شپ بھی کرتے ہیں اور کھاتے پیتے شامیں گزارتے ہیں۔