1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تعليمبرطانیہ

برطانیہ میں نجی اسکولوں کی فیسوں پر ٹیکس، والدین پریشان

1 ستمبر 2024

برطانیہ میں لیبر پارٹی کی حکومت نے سرکاری اسکولوں میں تعلیم کے فروغ اور تدریسی اسٹاف کی ہزاروں نئی آسامیاں پیدا کرنے کے لیے نجی اسکولوں پر ویلیو ایڈڈ ٹیکس لگانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔

ہیڈ ٹیچر باربرا جونز کومب میں چرچ آف انگلینڈ پرائمری سکول کے ایک کلاس روم میں ایک طالبہ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے
اس اقدام سے 1.6 بلین پاؤنڈ جمع ہوسکیں گے جو سرکاری اسکولوں میں 6500 نئے اساتذہ کی بھرتیوں کے لیے استعمال کیے جائیں گےتصویر: picture-alliance/dpa/dpaweb

اسی سال چار جولائی کے انتخابات کے بعد اپنا عہدہ سنبھالنے والے وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کے مطابق سرکاری سیکنڈری اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں کے لیے اساتذہ کی کمی ان کے مستقبل پر دیرپا منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے۔

کئی سالوں تک مالی وسائل کے محدود استعمال اور بڑھتی ہوئے عدم مساوات کے بعد لندن حکومت نے گزشتہ ماہ اشارہ دیا تھا کہ وہ نجی اسکولوں کی فیس پر اضافی ٹیکس کی چھوٹ کو ختم کر دے گی۔

توقع کی جا رہی ہے کہ اس اقدام سے 1.6 بلین پاؤنڈ جمع ہو سکیں گے، جو سرکاری تعلیمی اداروں میں 6500 نئے اساتذہ کی بھرتیوں کے لیے استعمال کیے جائیں گے۔

برطانیہ میں اب نجی اسکولوں کو یکم جنوری سے انہیں ادا کی گئی فیسوں پر 20 فیصد ویلیو ایڈڈ ٹیکس (وی اے ٹی) ادا کرنا ہو گا، جس سے ان اسکولوں کے طلبا و طالبات کے والدین پر مالی بوجھ میں اضافہ ہو جائے گا۔

والدین فیسوں میں آئندہ اضافے پر شدید پریشان ہیں اور دو دو نوکریاں کرنے کا سوچ رہے ہیںتصویر: Kevin Coombs/REUTERS

اس فیصلے کے نتیجے میں ایسے والدین، جو مالی طور پر کمزور ہیں، ویلیو ایڈڈ ٹیکس کے باعث فیسوں میں آئندہ اضافے پر شدید پریشانی کا شکار ہیں۔

45 سالہ مالیاتی تجزیہ کار اماکا نوابیوزے اپنے تین بچوں کی کفالت اور دیکھ بھال خود ہی کرتی ہیں۔ انہوں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ اب وہ کوئی دوسری نوکری شروع کرنے پر غور کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ''میری زندگی پہلے سے ہی بہت مصروف ہے، اس لیے مجھے ہفتے کے آخر میں دوسری نوکری کرنا پڑ سکتی ہے، جس کا مطلب یہ ہو گا کہ میں اپنے بچوں کو بمشکل ہی دیکھوں گی۔‘‘

اماکا نوابیوزے کے دو بچے پہلے ہی ایک سرکاری اسکول میں منتقل ہوچکے ہیں جن میں داخلہ لینے کے لیے امتحان میں کامیابی لازمی ہوتی ہے۔ تاہم ان کا سب سے چھوٹا بیٹا داخلہ امتحان میں کامیاب نہیں ہو سکا تھا۔ اسے ایک اور اسکول سے داخلے کی پیشکش ہوئی لیکن ان کی والدہ کے مطابق وہ لندن کا 'بدترین‘ اسکول تھا۔

اماکا کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی سالانہ فیس میں چار ہزار پاونڈ تک کے اضافے کا امکان دیکھ رہی ہیں، جو ان کا بلڈ پریشر بڑھا رہا ہے۔

برطانیہ میں عموماً سمجھا یہ جاتا ہے کہ نجی اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے والدین کافی دولت مند ہوتے ہیںتصویر: picture alliance/imagestate/Impact Photos

شمال مغربی انگلینڈ کے شہر اولڈہیم میں واقع ہلمے اسکول کے ہیڈ ماسٹر ٹونی آؤلٹن کے تعلیمی ادارے میں دو سال سے 18 سال تک کی عمر کے 730 طالب علم ہیں۔

حکومتی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ اقدام ان غلط مفروضوں پر مبنی ہے کہ نجی اسکولوں میں پڑھنے والے تمام بچوں کے والدین دولت مند ہوتے ہیں اور وہ فیسوں میں ویلیو ایڈڈ ٹیکس کے اضافے کو برداشت کر سکتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے اسکول میں زیادہ تر بچوں کے والدین محنت کش اور نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان میں سے اکثر فیسوں کی ادائیگی کے لیے دو دو ملازمتیں کر رہے ہوتے ہیں۔

ٹیکس اصلاحات کے مخالفین کی رائے ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر کی ناکامی کی صورت میں سرکاری اسکولوں میں داخلے بڑھ جائیں گے جو کہ حکومتی اخراجات میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔

قدامت پسند پارٹی کے چودہ سالہ دور حکومت میں نجی اور سرکاری اسکولوں کے مابین تفاوت میں تیزی سے اضافہ ہواتصویر: Getty Images/AFP/A. Buchanan

لیکن کئی مطالعاتی جائزے اس موقف سے متصادم بھی ہیں۔ برطانیہ کے مالیاتی اور اقتصادی امور پر تحقیق کرنے والے ادارے آئی ایف سی کے مطابق ملکی آبادی میں متوقع کمی کے باعث 2030 تک سرکاری اسکولوں میں بچوں کی تعداد میں کمی واقع ہو گی۔

کئی تحقیقی ادارے یہ بھی بتاتے ہیں کہ ملک میں کچھ عرصہ پہلے تک قائم رہنے والی 14 سالہ قدامت پسند حکومت کے دور میں نجی اور سرکاری اسکولوں کے مابین تفاوت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔

برطانیہ میں عوامی پالیسی اور سماجی مسائل پر تحقیق کرنے والے ادارے آئی پی پی آر کے عبوری ڈائریکٹر ہیری کوئلٹر پنر کہتے ہیں، ''نجی اسکولوں میں فیسوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جبکہ سرکاری اسکولوں کے لیے مالی مدد گزشتہ سال تک کم تھی۔‘‘

ح ف / ص ز  (اے ایف پی)

خود بچوں کے پاس جانے والا موبائل اسکول

01:58

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں