برطانیہ میں نسلی قتل کے الزام میں دو دہائیوں بعد ملزمان کو سزا
4 جنوری 2012
آج بدھ کو جج نے 36 سالہ گیری ڈوبسن اور 35 سالہ ڈیوڈ نورس کو سزا سناتے ہوئے کہا کہ یہ ایک گھناؤنا جرم تھا جس کا ارتکاب نسلی نفرت کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔ ڈوبسن کو پندرہ سال دو ماہ جبکہ نورس کو چودہ سال اور تین ماہ قید کی سزائیں سنائی گئیں۔ چونکہ جرم کے وقت یہ دونوں نو عمر تھے لہٰذا ان کی سزائیں بالغوں کے مقابلے میں کم رکھی گئی ہیں۔ مقدمے میں نامزد باقی تین ملزم تاحال مفرور ہیں۔
وقوعے کی رات اسٹیفن لارنس اپنے ایک دوست کے ہمراہ بس اسٹاپ پر کھڑا بس کا انتظار کر رہا تھا کہ نوجوانوں کے ایک گروہ نے اس پر حملہ کر دیا۔ لارنس پر چاقو سے دو وار کیے گئے اور وہ زیادہ خون بہنے کے باعث دم توڑ گیا۔
یہ مقدمہ برطانیہ کی عدالتی تاریخ میں کئی حوالوں سے مشہور اور متنازع رہا۔ اس مقدمے میں اسکاٹ لینڈ یارڈ کی کارکردگی کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تحقیقات سے پتہ چلا کہ ادارے کے اندر نسلی تعصب موجود ہے اور اس نے اہم شواہد ضائع کر دیے تھے۔
سب سے پہلے تو ملزمان کی گرفتاری ہی وقوعے کے دو ہفتے بعد عمل میں آئی۔ پھر 1996ء میں تین ملزمان کو بری کر دیا گیا۔
لارنس کے خاندان کی ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی ان تھک مہم اور 1997ء میں حکومت کی تبدیلی کے بعد اس مقدمے میں نئے سرے سے جان پڑ گئی۔ بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی لیبر پارٹی کی حکومت نے اس قتل اور پولیس کی تفتیش کے بارے میں تحقیقات کا حکم دیا۔
تحقیقات پر مبنی میک فیرسن رپورٹ میں کہا گیا کہ پولیس کے ادارے میں نسل پرستی موجود ہے اور لارنس کے قتل کی تحقیقات میں اس لیے لاپروائی کا مظاہرہ کیا گیا کیونکہ وہ سیاہ فام تھا۔
میک فیرسن رپورٹ کے نتیجے میں برطانیہ میں نسلی تعلقات کی دنیا میں بہت بڑی تبدیلیاں آئیں۔ پہلی بار ملک کے Double Jeopardy قانون میں ترمیم کی گئی جس کے تحت کسی جرم کے الزام میں بری ہو جانے والے شخص پر دوبارہ اسی الزام میں مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا تھا۔
سن 2004 میں استغاثہ نے کہا تھا کہ قتل کے مقدمے میں کسی کے خلاف کارروائی کے لحاظ سے ثبوت ناکافی ہیں۔ تاہم 2007 ء میں نئے فورنزک شواہد سے اس مقدمے میں مدد ملی۔ فورنزک ماہرین نے لارنس کے جسم کے ایک بال اور عام انسانی آنکھ سے اوجھل ایک ننھے سے خون کے داغ کی مدد سے مجرمان کا سراغ لگا لیا۔
2011 ء میں لندن کی مرکزی فوجداری عدالت میں نیا مقدمہ شروع کیا گیا اور یوں مجرمان کو بالآخر انصاف کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑا۔
برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے منگل کو امید ظاہر کی تھی کہ ملزمان کو قصور وار ٹھہرانے سے لارنس کے اہل خانہ کو کئی سال کی جدوجہد کے بعد کچھ سکون ملے گا۔
ادھر لارنس کے والد کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت ہی سکون کا سانس لیں گے جب مقدمے میں نامزد تمام ملزمان کو گرفتار کر کے سزا دی جائے گی۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: امجد علی