امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ لندن میں آج برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے سے ملاقات کرنے جا رہے ہیں۔ توقع ہے کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان تجارت اور عالمی ماحول کے تحفظ پر بات چیت ہو گی۔
اشتہار
برطانوی وزیر اعظم عنقريب اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے والی ہیں اس لیے ان ملاقاتوں سے کسی بڑی پیش رفت کے امکانات کم ہی ہیں۔
امریکی صدر کے اس دورے کے موقع پر برطانیہ کے کئی شہروں میں ٹرمپ مخالف مظاہروں کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔ لندن میں ٹرافیلگر اسکوائر پر ہونے والے احتجاج میں ہزاروں لوگوں کی شرکت متوقع ہے، جن میں نسلی تعصب کے خلاف کام کرنے والی تنظیمیں، حقوق نسواں اور ماحولیات کے تحفظ کے لیے سرگرم ادارے حصہ لیں گے۔
اس مظاہرے سے حزب اختلاف کے رہنما اور لیبر پارٹی کے سربراہ، جیرامی کوربن بھی خطاب کریں گے۔ انہوں نے آج کے اس احتجاج کو ”مزاحمت کا میلہ،، قرار دیا ہے۔ خیال ہے کہ لندن ہونے والا یہ مظاہرہ برطانیہ کے سرکاری دورے پر آئے کسی رہنما کے خلاف ایک بہت بڑا مظاہرہ ہوگا۔
صدر ٹرمپ نے گذشتہ روز بکنگھم پيلس ميں ملکہ ايلزبتھ سميت برطانوی شاہی خاندان کے ديگر ارکان کے ساتھ عشائیے میں شرکت کی۔ لیکن حزب اختلاف کی لیبر پارٹی اور لبرل ڈیموکریٹ پارٹی کے سربراہان سمیت کئی ارکان پارلیمان نے اس عشائیے کا بائیکاٹ کیا۔ صدر ٹرمپ کے بعض حمایتوں نے برطانوی سیاستدانوں کی طرف سے اپنے سب سے بڑے حلیف ملک کے سربراہ کے ساتھ اس رویے کو تضحیک آمیز قرار دیا ہے۔
خود ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ان تمام ترمظاہروں کے باوجود انہیں برطانیہ سے لگاؤ ہے اور انہیں بڑی محبت سے دیکھا جاتا ہے۔ صدر ٹرمپ کے بقول اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کی والدہ اسکاٹش نژاد اور وہ خود برطانیہ میں دو گالف کورسز کے مالک ہیں۔
امریکی صدر پیر کے دن تين روزہ دورے پر برطانیہ پہنچے۔ دورے کے آغاز پر ہی صدر ٹرمپ اور لندن کے میئر صادق خان کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔ صادق خان نے برطانوی اخبار آبزرور میں اپنے ایک تازہ کالم میں مسٹرٹرمپ کی بیانات کو”بیسویں صدی کے فاشسٹوں،، کی زبان سے تشبیہ دی۔ اپنی ایک جوابی ٹوئیٹ میں ٹرمپ نے لندن کے میئر کو ایک 'شکست خوردہ' شخص قرار دے ڈالا۔
صدر ٹرمپ کل يعنی بدھ کے روز جنوبی شہر پورٹسمتھ ميں دوسری عالمی جنگ کے دوران 'ڈی ڈے‘ کی يادگاری تقريب ميں شرکت کريں گے۔
ش ج/ ک م / خبر رساں ادارے
ٹرمپ دنيا بھر ميں کس کس سے ناراضی مول لیے بيٹھے ہيں!
مسائل داخلی ہوں يا بين الاقوامی امريکی صدر ٹرمپ کے ان سے نمٹنے کے انداز کو متنازعہ خیال کیا جاتا ہے۔ يہی وجہ ہے کہ روايتی حريف روس اور چين ہی نہيں بلکہ يورپی يونين جيسے قريبی اتحادی بھی ٹرمپ سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Kamm
پاکستان اور امريکا، ايک پيچيدہ رشتہ
ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں سال کے آغاز پر اپنی ٹوئيٹس ميں پاکستان پر شديد تنقيد کی۔ انتظاميہ چاہتی ہے کہ اسلام آباد حکومت ملک ميں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خلاف زيادہ موثر کارروائی کرے۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے حلیفوں پاکستان اور امريکا کے بيچ فاصلے بڑھتے جا رہے ہيں۔ ستمبر 2018ء ميں امريکی وزير خارجہ کے دورے سے بھی زيادہ فرق نہيں پڑا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
اقتصادی جنگ ميں چين اور امريکا ميں مقابل
روسی ہتھياروں کی خريداری پر امريکا نے چينی فوج پر ستمبر 2018ء ميں تازہ پابندياں عائد کيں۔ جواباً چين نے دھمکی دی کہ پابندياں خنم کی جائيں يا پھر امريکا اس کا خميازہ بھگتنے کے ليے تيار رہے۔ چين اور امريکا کے مابين يہ واحد تنازعہ نہيں، دنيا کی ان دو سب سے بڑی اقتصادی قوتوں کے مابين تجارتی جنگ بھی جاری ہے۔ دونوں ممالک ايک دوسرے کی درآمدات پر اضافی محصولات عائد کرتے آئے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/newscom/S. Shaver
روس کے ساتھ بھی چپقلش
ادھر روس نے کہا ہے کہ ’امريکا آگ سے کھيل رہا ہے‘ اور اس سے عالمی امن و استحکام کو خطرہ لاحق ہے۔ يہ بيان روس کے خلاف امريکی پابنديوں کے تناظر ميں سامنے آيا۔ امريکا اور روس کے مابين ان دنوں شام، يوکرائن، امريکی صدارتی انتخابات ميں مبينہ مداخلت، سائبر جنگ اور کئی ديگر اہم امور پر سنگين نوعيت کے اختلافات پائے جاتے ہيں۔ کئی ماہرين کے خیال میں اس وقت ’ايک نئی سرد جنگ‘ جاری ہے۔
اسرائيل اور فلسطين کے مابين تنازعے ميں بھی ٹرمپ کے کردار پر سواليہ نشان لگايا جاتا ہے۔ پچھلے سال کے اواخر ميں جب ٹرمپ انتظاميہ نے يروشلم کو اسرائيل کا دارالحکومت تسليم کيا، تو اس کا عالمی سطح پر رد عمل سامنے آيا اور خطہ اس کے نتائج آج تک بھگت رہا ہے۔ يورپی رياستيں اس پرانے مسئلے کے ليے دو رياستی حل پر زور ديتی ہيں، ليکن ٹرمپ کے دور ميں دو رياستی حل کی اميد تقريباً ختم ہو گئی ہے۔
تصویر: Imago/ZumaPress
اتحاديوں ميں بڑھتے ہوئے فاصلے
ٹرمپ کے دور ميں واشنگٹن اور يورپی يونين کے تعلقات بھی کافی حد تک بگڑ چکے ہيں۔ معاملہ چاہے تجارت کا ہو يا ايران کے خلاف پابنديوں کی بحالی کا، برسلز اور واشنگٹن کے نقطہ نظر مختلف ہوتے ہيں۔ امريکی صدر مہاجرين کے بحران، بريگزٹ، يورپی يونين ميں سلامتی کی صورتحال، يورپ ميں دائيں بازو کی قوتوں ميں اضافہ و مغربی دفاعی اتحاد نيٹو کے بجٹ جيسے معاملات پر يورپی قيادت کو کافی سخت تنقيد کا نشانہ بنا چکے ہيں۔
جی سيون بھی تنازعے کی زد ميں
اس سال جون ميں کينيڈا ميں منعقد ہونے والی جی سيون سمٹ تنقيد، متنازعہ بيانات اور الزام تراشی کا مرکز بنی رہی۔ ٹرمپ نے اس اجلاس کے اختتام پر مشترکہ اعلاميے پر دستخط کرنے سے انکار کر ديا، جس پر تقريباً تمام ہی اتحادی ممالک کے رہنماؤں نے ٹرمپ کے اس رويے کی مذمت کی۔ کيوبک ميں ہونے والی جی سيون سمٹ کے بعد ميزبان ملک کے وزير اعظم جسٹن ٹروڈو اور ٹرمپ کے مابين لفظوں کی ايک جنگ بھی شروع ہو گئی تھی۔