برطانیہ نے جرمنی سے مویشیوں کی درآمد پر پابندی لگا دی
14 جنوری 2025
برطانیہ نے جرمنی سے مویشیوں کی درآمد پر پابندی لگا دی ہے، جس کا مقصد مویشیوں میں منہ کھر کی بیماری کو برطانیہ پہنچ کر وہاں پھیلنے سے روکنا ہے۔ جرمنی میں اس بیماری کا ایک واقعہ گزشتہ ہفتے برلن کے نواح میں سامنے آیا تھا۔
برلن کے مضافات میں گزشتہ جمعے کے روز منہ کھر کی بیماری کے ایک کیس کی تصدیق کے بعد ویٹرنری ہیلتھ کے ماہرین فوراً موقع پر پہنچ گئے تھےتصویر: Sebastian Gollnow/dpa/picture alliance
اشتہار
برطانوی دارالحکومت لندن سے منگل 14 جنوری کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق اس پابندی کے بعد جرمنی سے مویشی، سؤر اور بھیڑیں برطانیہ درآمد نہیں کیے جا سکیں گے، تاکہ یورپی یونین کے رکن اس ملک سے، جہاں ابھی گزشتہ ہفتے ہی مویشیوں میں منہ کھر کی بیماری کے ایک کیس کی تصدیق ہو گئی تھی، یہ بیماری برطانیہ نہ پہنچے۔
لندن حکومت نے کہا ہے کہ اس وقت برطانیہ میں مویشیوں اور بھیڑوں میں اس بیماری کا کوئی ایک بھی کیس موجود نہیں اور یہ پابندی اس لیے لگائی گئی ہے کہ برطانوی کسانوں، ان کے ذرائع آمدنی اور ان کے مال مویشیوں سب کا تحفظ کیا جا سکے۔
جرمنی میں تقریباﹰ چالیس سال بعد اس بیماری کا پہلا کیس
جرمن دارالحکومت برلن کے مضافات میں گزشتہ جمعے کے روز حکام نے تصدیق کر دی تھی کہ ایک فارم پر گوشت کے لیے پالی جانے والی بھینسوں کے ایک ریوڑ میں منہ کھر کی بیما ری کی موجودگی ثابت ہو گئی تھی۔
جرمنی میں منہ کھر کی بیماری کے باعث تلف کر دی گئی ایک بھینس کو ٹریکٹر کے ذریعے متاثرہ فارم کے اندر ہی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جا رہا ہےتصویر: ODD ANDERSEN/AFP via Getty Images
یہ جرمنی میں مویشیوں میں اس بیماری کا گزشتہ تقریباﹰ 40 برسوں میں سامنے آنے والا پہلا واقعہ تھا۔
مویشیوں میں یہ بیماری ایک وائرس سے لگنے والا مرض ہے، جو بہت تیزی سے پھیلتا ہے اور جس کا نشانہ کھروں والے ایسے جانور بنتے ہیں، جن میں مویشی، سؤر، بھیڑیں اور بکریاں سبھی شامل ہوتے ہیں۔
اس بیماری کا شکار ہونے والے جانوروں کے منہ اور کھر گلنا شروع ہو جاتے ہیں۔
انسانوں کو اس بیماری سے کوئی خطرہ نہیں
کھروں والے جانوروں میں یہ بیماری انسانوں کے لیے یا ان کے غذائی تحفظ کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہوتی۔ برطانیہ میں پچھلی مرتبہ اس بیماری کی بہت زیادہ پھیل جانے والی وبا 2001ء میں دیکھنے میں آئی تھی۔
جرمنی میں امراض حیوانات کا ایک ماہر ایک گائے کے منہ کا معائنہ کرتے ہوئےتصویر: Harald Tittel/dpa/picture alliance
تب مجموعی طور پر وہاں چھ ملین سے زائد جانور تلف کرنا پڑ گئے تھے، جس کی وجہ سے ہزاروں برطانوی کسانوں کو شدید مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
برطانیہ کی چیف ویٹرنری آفیسر کرسٹین مڈل مس نے ایک بیان میں کہا، ''ہم نے برطانیہ میں اس بیماری کے ممکنہ پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے اقدامات کرتے ہوئے اور کسانوں اور عوام کے فوڈ سکیورٹی سے متعلق مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے ایک جامع منصوبہ تیار کر لیا ہے، تاکہ مویشیوں کے لیے تباہ کن ثابت ہونے والا یہ وبائی مرض نہ برطانیہ پہنچے اور نہ ہی کسانوں اور ان کے جانوروں کے لیے کوئی خطرہ پیدا ہو۔‘‘
کرسٹین مڈل مس نے برطانوی کسانوں سے زور دے کر کہا کہ وہ خود بھی اپنے جانوروں میں اس بیماری کی ممکنہ ابتدائی علامات کے سامنے آنے کے حوالے سے بہت محتاط رہیں۔
م م / ک م (روئٹرز، ڈی پی اے)
جرمن زرعی شعبے کو درپیش مشکلات
جرمن کسان ملکی منڈی میں اپنی مصنوعات کی کم قیمت کی وجہ سے مسائل کا شکار ہیں۔ ان کسانوں کو ماحول اور جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی تنقید بھی سننا پڑتی ہے۔ جرمنی میں زرعی شعبے میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Schulze
دودھ کی وافر پیداوار لیکن خریدار کم
یورپی یونین کی جانب سے دودھ کا کوٹہ ختم کیے جانے کے بعد سے دودھ کا کاروبار کرنے والی کمپنیوں کے مابین ایک مقابلہ جاری ہے۔ گوالے نئی منڈیوں تک رسائی کی امید لگائے ہوئے ہیں۔ روس کے خلاف عائد پابندیاں اور چینی معیشت میں سست روی ان کے خواب پورا نہیں ہونے دے رہے۔ آج کل دودھ اور اس سے تیار کردہ مصنوعات کی رسد ان کی طلب سے زیادہ ہے۔ ااس صورتحال میں یورپی یونین کو گوالوں کی مالی مدد کرنا پڑ رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Büttner
وجود کو خطرہ
جرمنی میں کسانوں کی تنظیم ’ ڈی بی وی‘ کے صدر یوآخم رکوائڈ کے مطابق زرعی شعبے کا ایک بڑا حصہ اپنی بقا کے خطرے سے دوچار ہے۔ وہ کہتے ہیں 2003ء سے 2013ء کے دوران جرمنی میں مختلف فارموں یا کھیتوں میں 32 فیصد تک کی کمی ہوئی ہے۔ ان کے مطابق، ’’خاص طور پر چھوٹے پیمانے پر کھیتی باڑی کرنے والے کسان اقتصادی مسائل کا شکار ہیں۔‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Zucchi
ایک اہم آجر
جرمنی میں زرعی شعبے سے کوئی چھ لاکھ افراد منسلک ہیں۔ کسانوں کی تنظیم ’ڈی بی وی‘ کے مطابق یہ جرمنی کا ایک بہت اہم آجر شعبہ ہے۔ اس سلسلے میں رواں برس ہینوور میں ہونے والے کسانوں کے ملکی کنوینشن کا موٹو ہے، ’’مضبوط زراعت، اچھے مستقبل کی ضمانت۔‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Büttner
تصورات اور خیالات
سر سبز مرغزار، ان میں گھومتے ہوئے صحت مند مویشی اور دلکش کھیت۔ کسی بھی شخص سے اگر کھیتی باڑی کی بات کی جائے تو اس کے ذہن میں کچھ ایسی ہی تصویر بنتی ہے۔ 2013ء میں کرائے گئے ایک جائزے کے مطابق 80 فیصد جرمن شہری ملکی زراعت کو جرمنی اور جرمن روایات کا لازمی حصہ سمجھتے ہیں۔
زرعی شعبے میں کئی حقائق عمومی تصورات سے مختلف ہیں۔ مثلاﹰ آج کل زرعی شعبے میں بھی صنعتی پیمانے پر مصنوعات کی پیداوار دیکھنے میں آتی ہے۔ اس کے علاوہ کیڑے مار ادویات کے بے پناہ استعمال کی وجہ سےبھی عام کسانوں کی پیداواری مصنوعات کی مانگ کم ہو رہی ہے۔
تصویر: Reuters
کھیتی باڑی ماحول کے لیے نقصان دہ بھی
تحفظ ماحول کی تنظیموں کے مطابق کھیتی باڑی بھی ضرر رساں گیسوں کے اخراج کا سبب بنتی ہے۔ زمین کو نرم کرنے کے لیے استعمال کیے جانے والے کیمیکل سے’لافنگ گیس‘ پیدا ہوتی ہے اور یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ سے بھی 300 گنا زیادہ نقصان دہ ہے۔ اس کے علاوہ جرمنی میں 43 لاکھ دودھ دینے والی گائیں میتھین گیس خارج کرتی ہیں۔ 2014ء میں جرمنی میں ضرر رساں گیسوں کے اخراج کی دوسری سب سے بڑی وجہ ملکی زرعی شعبہ تھا۔
تصویر: picture alliance/F. May
گوشت کی مانگ میں اضافہ
جرمنی کو یورپ کا مذبحہ خانہ کہا جا سکتا ہے۔ جرمنی میں 2015ء کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران 30 ملین سؤر، 1.7 ملین گائیں اور 325 ملین مرغیاں گوشت کے لیے استعمال کی گئیں۔ اس کے علاوہ بھی لوگ چھپ کر جانوروں کو ذبح کرتے ہیں۔ پھر اس خدشے کے پیش نظر کہ جانور کہیں ایک دوسرے کو زخمی نہ کر دیں، خنزیروں اور گائیوں کی دمیں کاٹ دی جاتی ہیں جبکہ مرغیوں کے چوزوں کی چونچیں بھی آگے سے تراش دی جاتی ہیں۔
تصویر: Getty Images
یورپی یونین کی جانب سے اعانت
ابھی کچھ سال پہلے تک یورپی یونین کی جانب سے زرعی شعبے کے کارکنوں اور اداروں کو دی جانے والی مالی اعانتیں بےضبط انداز میں تقسیم کی جاتی تھیں۔ مثال کے طور پر جتنا بڑا کھیت یا فارم ہو گا،اتنی ہی زیادہ رقم ملے گی۔ اس پالیسی کی وجہ سے چھوٹے کاشتکار مسابقت کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
پالیسی میں تبدیلی
2014ء میں یورپی یونین نے اپنی زرعی پالیسی میں اصلاحات متعارف کرائیں۔ اب مالی اعانت کے حق دار صرف ماحول دوست کاشتکار قرار پاتے ہیں۔ اس طرح عام کسانوں نے کھیتی باڑی کے دوران کیمیائی مادوں کا استعمال کم کر دیا ہے اور مویشیوں کی دیکھ بھال کا طریقہ کار بھی تبدیل کر دیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Gollnow
بائیو مصنوعات کی بڑھتی ہوئی مانگ
جرمنی میں گزشتہ دہائی کے دوران بائیو یا تحفظ ماحول کا خیال رکھتے ہوئے کی جانے والی کاشتکاری میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق بائیو فارمز کی تعداد ان دس سالوں میں پہلے کے مقابلے میں ایک تہائی بڑھی ہے۔ جرمنی میں کل زرعی رقبے کا چھ فیصد حصہ بائیو فارمنگ کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے جبکہ آسٹریا میں یہ شرح بیس فیصد ہے۔