برطانیہ میں میڈیا کے نگراں ادارے آفکام نے ایک چینی ٹی وی چینل پر نشریاتی قوانین کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا ہے۔
اشتہار
برطانیہ میں میڈیا کے نگراں ادارے آفکام نے پیر آٹھ مارچ کو چین کے سرکاری ٹی وی چینل 'سی جی ٹی این' پر تقریباً سوا چار لاکھ امریکی ڈالر کا جرمانہ عائد کر دیا۔ ایک ماہ قبل ہی آفکام نے اس چینل کا لائسنس منسوخ کر دیا تھا۔
چین کے اس ٹی وی چینل نے پیٹر ہمفیری سے متعلق ایک پروگرام میں یہ دکھایا تھا کہ انہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کر لیا تھا اور اسی کے خلاف پیٹر نے نشریات سے متعلق ادارے آفکام سے شکایت کی تھی جس کی بنیاد پر ادارے نے ٹی وی چینل پر ملک کے نشریاتی قوانین کی خلاف ورزی کرنے کے لیے ایک لاکھ دس ہزار یورو بطور جرمانہ عائد کیا۔
سن 2014 میں شنگھائی کی ایک عدالت نے بدعنوانی سے متعلق ایک کیس میں پیٹر ہمفیری کو دو برس سے زیادہ کی سزا سنائی تھی۔ اس کیس کا تعلق دوا ساز کمپنی گلیکسو سمتھ کلائن سے تھا اور اسی سے متعلق پروگرام میں پیٹر کو اپنے جرائم کا اعتراف کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
پیٹر کا کہنا ہے کہ اعتراف جرم کا یہ بیان دوران حراست کا ہے اور اسی لیے وہ چینل کے خلاف شکایت کرنے پر مجبور ہوئے۔ اس پر جرمانہ عائد کرتے ہوئے آفکام نے کہا کہ چینی ٹیلی ویزن نیٹ ورک کو یہ بات اچھی طرح سے معلوم ہونا چاہیے تھی کہ مسٹر پیٹر ہمفیری، ''کے اعتراف جرم میں شکوک شبہات کی معقول وجوہات تھیں، اس سے آگاہ کرنا ضروری تھا۔''
ہانگ کانگ پر غیر جانبدار رپورٹنگ
برطانیہ میں اس چینی نشریاتی ادارے کی ملکیت 'اسٹار چائنا میڈیا لمٹیڈ، کمپنی کے پاس ہے اور اس ادارے نے متنازعہ رپورٹ نشر کرنے کا یہ کہہ کر دفاع کیا کہ یہ پروگرام عوام کے مفاد میں تھا۔
اشتہار
آفکام نے اس ٹی وی چینل پر 2019 میں ہانگ کانگ میں جمہوریت کے حق میں ہونے والے مظاہروں سے متعلق غلط رپورٹنگ کے لیے بھی ڈیڑھ لاکھ یورو کا جرمانہ عائد کیا ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ اس رپورٹنگ کے دوران، ''غیر جانبداری برقرار رکھنے میں نا کام رہا۔''
مبصرین کا کہنا ہے کہ انگریزی زبان کا یہ سیٹلائٹ چینل اپنی رپورٹوں میں صرف چینی حکومت کے موقف کا پروپیگنڈہ کرتا ہے۔
آفکام نے نشریاتی قوانین کی خلاف ورزیوں کے لیے اس چینل کا لائسنس گزشتہ ماہ ہی منسوخ کر دیا تھا تاہم اصول کے مطابق خلاف ورزی ہونے پر وہ ماضی کے نشر شدہ پروگراموں پر بھی جرمانہ عائد کرنے کا حق رکھتا ہے۔ جرمنی میں اس چینل کو مختصر وقت کے لیے معطل کر دیا گیا تھا تاہم اب یہ پھر سے نشر ہو رہا ہے۔
پابندی کا کلچر ختم ہونا چاہیے، منال خان
03:09
بی بی سی پر پابندی
گزشتہ ماہ چین نے معروف برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی ورلڈ نیوز پر یہ کہتے ہوئے پابندی عائد کر دی تھی کہ اس نے چینی نشریاتی اصول و ضوابط کی سنگین خلاف ورزیاں کیں۔ ایغور مسلمانوں کے حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں بی بی سی نے بیجنگ کے سخت رویے کاانکشاف کیا تھا اور اسی کے بعد چین نے اس پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا تھا۔
باور کیا جا تا ہے کہ آفکام کے فیصلے کے رد عمل میں ہی چین نے بی بی سی ورلڈ نیوز پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ص ز/ ج ا(اے ایف پی، روئٹرز)
’میڈیا وائی بلیٹی‘، سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟
سولہ ڈیجیٹل میڈیا اسٹارٹ اپ گروپس ’میڈیا وائی بلیٹی‘ کے لیے کوشاں ہیں۔ میڈیا اداروں کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرنے اور ’کوالٹی جرنلزم‘ کے لیے انہیں کس طرح کے چیلنجز درپیش ہیں؟ آئیے جانتے ہیں، انہیں کی زب
تصویر: DW Akademie
ڈیجیٹل میڈیا کے بانی
سولہ ڈیجیٹل میڈیا اسٹارٹ اپ گروپس ’میڈیا وائی بلیٹی‘ کے لیے کوشاں ہیں۔ میڈیا اداروں کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرنے اور ’کوالٹی جرنلزم‘ کے لیے انہیں کس طرح کے چیلنجز درپیش ہیں؟ آئیے جانتے ہیں، انہیں کی زبانی۔
تصویر: DW Akademie
لیکا آنٹڈاز، جورجیا
میڈیا پلیٹ فارم ’چائے خانہ‘ کی بانی لیکا آٹنڈاز کے بقول سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ غیرجانبدار اور منصفانہ رہا جائے، اور ساتھ ہی ان کا میڈیا ادارہ طویل المدتی بنیادوں پر پائیدار مالی مسائل سے بے فکر ہو جائے تاکہ توجہ وفادار صارفین یا آڈئینس بنانے پر صرف کی جائے۔
تصویر: DW Akademie
تانیا مونٹالوو، میکسیکو
’اینیمل پولیٹیک‘ سے وابستہ تانیا منٹالوو کا کہنا ہے کہ ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج آزادی اور بلا روک ٹوک معیاری صحافت کرنا ہے۔ ہر وقت یہ ذہن میں ہونا چاہیے کہ وہ اپنے قارئین کے لیے ایسی کہانیاں موضوع سخن بنائیں، جو ان سے متعلق ہیں یا ان کی زندگیوں پر فرق ڈالتی ہیں۔
تصویر: DW Akademie
ٹیڈیانے ہاماڈو، سینیگال
ڈیجیٹل میڈیا ادارے ’اویسٹف نیوز‘ سے منسلک ٹیڈیانے ہاماڈو کا اصرار ہے کہ اس بات کا یقینی بنانا ضروری ہے کہ عوام کو علم ہو کہ آزاد میڈیا ان کے لیے کیا کر سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مسئلہ یہ ہے کہ سینیگال میں میڈٰیا پراجیکٹس میں تعاون فراہم کیے جانے کی روایت نہیں ہے۔
تصویر: DW Akademie
پنگ جن تھم، سنگاپور
’نیو ناراتف‘ نامی ڈیجیٹل میڈٰیا پلیٹ فارم کے لیے فعال پنگ جن تھم سمجھتے ہیں کہ جنوب مشرقی ایشیائی خطے میں میڈیا فریڈم کی صورتحال انتہائی ابتر ہے۔ ان کے نزدیک بڑے مسائل میں حکومتوں کی طرف سے میڈٰیا مخالف قانون سازی اور میڈیا مالکان کا حکومت کے ساتھ ساز باز ہے۔
تصویر: DW Akademie
لوسیا مینینڈز، گوئٹے مالا
’نوماڈا گوئٹے مالا‘ نامی ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارم کی روح رواں لوسیا مینینڈز کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ملک میں کامیاب ممبر شپ پروگرام کس طرح شروع کیا جائے، کیونکہ ان کے خیال میں گوئٹے مالا کے لوگوں میں ’کوالٹی جرنلزم‘سے کوئی رغبت نہیں ہے۔
تصویر: DW Akademie
کائریلو لوکرنکو، یوکرائن
ہرومڈسکے ریڈیو سے وابستہ کائریلو لوکرنکو اپنے ملک میں میڈیا وائی بلیٹی کے لیے سب سے بڑا چیلنج قانون کی بالا دستی کو قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ میڈیا مارکیٹ اور پبلک میڈیا کے لیے سب سے بڑا چیلنج بنتا جا رہا ہے۔
تصویر: DW Akademie
لوسیا مارٹینیز، ارجنٹائن
ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارم ’چیکیدو‘ کی بانی لوسیا مارٹینیز کا کہنا ہے کہ ایسا آزاد نیوز ادارہ بنانا سب سے بڑا چیلنج ہے، جہاں عوام کو متاثر کرنے والے حقیقی موضوعات پر باقاعدگی سے لکھا جائے۔ ان کے نزدیک اس طرح کی معیاری صحافت کے دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔
تصویر: DW Akademie
ڈیوڈ ہڈالگو ویگا، پیرو
’اوجا پبلکو‘ نامی ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارم کے لیے کام کرنے والے ڈیوڈ ہڈالگوویگا کہتے ہیں کہ لاطینی امریکی ممالک میں سب سے بڑا چیلنج دراصل صحافت کے لیے پائیدار اور اختراعی طریقہ کار اختیار کرنا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہو جائے تو عوامی مفاد میں اچھی جرنلزم بھی ممکن ہو سکتی ہے۔
تصویر: DW Akademie
رومان فلیپو، مالدوا
نوجوان ڈیجیٹل میڈیا ایکپسرٹ رومان فلیپو کے بقول ’خطے بھر میں غیرجابندار اعلیٰ کوالٹی کی پراڈکٹ بنانا ایک چیلنج ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر میڈیا اداروں کے مالکان اشرافیہ سے ملے ہوئے ہیں اور وہ جانبدار ہیں۔
تصویر: DW Akademie
تامارہ قاریئن، اردن
مسلم ملک اردن میں فعال تامارہ نے میڈیا وائی بلیٹی کے لیے اپنا سب سے بڑا چیلنج ، ’’ریونیو، لیڈرشپ اور آرگنائزشنل چیلنجز‘‘۔ کو قرار دیا۔