برطانیہ نے چین کی طرف سے ہانگ کانگ میں ایک نئے سکیورٹی قانون نافذ کرنے کے خلاف ہانگ کانگ کے ساتھ اپنے حوالگی معاہدے کو 'فوری طور پر اور غیر معینہ مدت کے لیے‘ ملتوی کردیا ہے۔
اشتہار
دوسری طرف چین نے اس فیصلے پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ برطانیہ 'غلط راستے‘ پر جا رہا ہے۔
نیم خودمختار ہانگ کانگ کے ساتھ حوالگی معاہدے کو معطل کرنے والابرطانیہ چوتھا ملک بن گیا ہے۔ اس سے قبل کینیڈا، آسٹریلیا اور امریکا نے ہانگ کانگ کے ساتھ اپنے حوالگی معاہدے معطل کر دیے تھے۔
برطانوی وزیر خارجہ ڈومنک راب نے پیر کے روز ہانگ کانگ کے ساتھ حوالگی قانون کو معطل کرنے کی اطلاع برطانوی پارلیمان کودیتے ہوئے کہا کہ برطانیہ چین کے ساتھ مثبت تعلقات چاہتا ہے لیکن اس کی طرف سے ہانگ کانگ میں نافذ کیا جانے والا نیا سکیورٹی قانون، اس برطانیہ چین مشترکہ اعلامیہ کی 'صریحا اور واضح خلاف ورزی‘ ہے جس کے تحت 1997میں ہانگ کانگ کو برطانیہ سے چین کو منتقل کیا گیا تھا۔
ڈومنک راب کا کہنا تھا کہ اس نئے قومی سکیورٹی قانون نے ہانگ کانگ کے ساتھ ہمارے حوالگی معاہدے کے متعلق تصورات کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے اور انہیں سب سے زیادہ تشویش اس بات پر ہے کہ نئے قانون کے تحت ہانگ کانگ چینی قوانین کے دائرہ اختیارمیں آگیا ہے اور اس نیم خود مختار شہر میں ہونے والے کیسز چینی عدالتوں میں چلائے جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا”قومی سکیورٹی قانون ایسے کیسز کے سلسلے میں کسی طرح کا قانونی یاعدالتی تحفظ فراہم نہیں کرتا اور میں اس قانون کے بعض التزامات کی عملداری سے باہر رسائی کے تئیں بھی فکر مند ہوں۔"
برطانوی وزیر خارجہ نے زور دے کر کہا کہ”برطانیہ چین کے ساتھ مثبت تعلقات چاہتا ہے لیکن ہم اپنے اہم مفادات کا تحفظ کریں گے۔ ہم اپنی قدروں کا دفاع کریں گے اور چین کو اس کی بین الاقوامی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے کہیں گے۔"
اس سے قبل برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے بھی کہا تھا کہ برطانیہ چین کے حوالے سے 'سخت‘ رویہ اختیار کرے گا لیکن وہ اس کے ساتھ اپنی خارجہ پالیسی تعلقات کو ختم نہیں کرے گا۔
وزیر اعظم جانسن کا کہنا تھا''ہم نے توازن برقراررکھا ہے۔ ہم کوئی ایسا موقف اختیار نہیں کررہے ہیں جس سے کوئی یہ کہہ سکتا ہو کہ ہم چین مخالف ہیں۔ لیکن بہر حال بعض امور پر ہمیں سخت فکر لاحق ہے۔" انہوں نے کہا کہ حوالگی معاہدے کے حوالے سے جو فیصلہ کیا گیا ہے وہ ہانگ کانگ میں سکیورٹی قانون کے تئیں ہماری تشویش کو اجاگر کرتا ہے۔
ادھر چین نے برطانوی اقدام کی نکتہ چینی کی ہے۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بن نے کہا کہ برطانیہ 'غلط راستے‘ پر جارہا ہے اور لندن سے اپیل کی کہ وہ ’چین برطانیہ تعلقات کو مزید بگاڑنے سے گریز کرے۔‘
چین نے اس سے قبل کہا تھا کہ یہ اس کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی ہے اور گر برطانیہ اپنے رویے پر مصر رہا تو جوابی کارروائی کی جائے گی۔
خیال رہے کہ حوالگی قا نون معاہدہ معطل کرنے کے اعلان سے قبل برطانیہ نے چینی کمپنی ہوواوے سے 5 جی میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی کا معاہدہ ختم کردیا تھا۔ برطانوی حکومت کے اس فیصلے کے مطابق ملک کے موبائل پرووائیڈرز پر 31 دسمبر کے بعد سے چینی کمپنی ہوواوئے سے کسی بھی طرح کے آلات کی خریداری پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔
دوسری طرف برطانوی وزیر خارجہ ڈومنک راب نے گزشتہ دنوں چین پر الزام لگایا تھا کہ وہ سنکیانگ صوبے میں رہنے والی اقلیتی ایغور مسلمانوں کے انسانی حقوق کی 'سنگین او ربڑے پیمانے پر‘ خلاف ورزی کررہا ہے اور اس کے لیے ذمہ دار چینی حکام کے خلاف پابندی عائد کرنے سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ برطانیہ ان اقدامات کے ذریعہ چین کو سخت پیغام دینے کی کوشش کررہا ہے۔
ج ا / ص ز (اے پی، روئٹرز)
جمہوریت اور آزادی کے لیے دنیا بھر میں ہونے والے احتجاج
2019ء کے دوران دنیا کے مختلف حصوں میں لوگ بدعنوانی، غربت، معاشرتی عدم مساوات، نسلی امتیاز اور تحفظ ماحول کے لیے سڑکوں پر نکلے۔ تبدیلی لانے کی شدید خواہش دنیا بھر میں لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑ رہی ہے۔
تصویر: Reuters/M. Casarez
ہیٹی: ’ہمارے ساتھ انسانوں جیسا سلوک نہیں کیا جاتا‘
ہیٹی میں گزشتہ کئی مہینوں سے احتجاج کے دوران مظاہرین صدر جوونیل موئیز سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہیٹی کی حکومت کو بدعنوانی کے متعدد الزامات کا سامنا ہے۔ عام شہریوں کو ہسپتالوں اور تعلیم و تربیت تک رسائی نہ ہونے کے ساتھ ساتھ کم خوراکی جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ سیاسی اشرافیہ کے خلاف عوامی غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ہیٹی مغربی کرہ کا غریب ترین ملک ہے۔
تصویر: Reuters/V. Baeriswyl
چلی: ناانصافی کے خلاف مزید برداشت نہیں‘
اکتوبر کے آخر سے چلی میں مظاہرے جاری ہیں۔ مظاہرین اصلاحات اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ ان مظاہروں کے دوران اکثر ہلاکتوں اور انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Silva
بھارت: ’قانون، جو ملک کو تقسیم کر سکتا ہے‘
پھل فروش محمد انس قریشی بھارت میں شہریت کے متنازعہ ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج میں شریک ہیں۔ یہ قانون تین ممالک سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی مہاجرین کی بھارتی شہریت کے حصول کو آسان بناتا ہے۔ تاہم شرط یہ ہے کہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے یہ مہاجرین مسلمان نہ ہوں۔ ان مظاہروں میں اب تک بیس سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
عراق: آخری دم تک ساتھ دینے کا وعدہ‘
عراق میں اکتوبر سے بدعنوانی اور ایران نواز حکومت کے خلاف جاری مظاہروں میں چھیاسٹھ سالہ ام مہدی بھی شریک ہیں۔ اب تک ان مظاہروں میں ساڑھے چار سو سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔ وزیر اعظم عبدل عادل مہدی کا استعفی بھی اس احتجاج کی شدت کو کم نہیں کر سکا۔ مظاہرین سیاسی نظام میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. al-Sudani
ایران: ’اقتصادی صورتحال انتہائی خراب‘
نومبر میں دو ہفتوں تک جاری رہنے والے مظاہروں کے دوران ایران میں کم از کم پندرہ سو افراد کے ہلاک ہونے کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ احتجاج میں شریک یہ شخص اپنی شناخت مخفی رکھتے ہوئے گولیوں کے خول ہاتھ میں لیے ہوئے ہے۔ یہ مظاہرے پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف شروع ہوئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/SalamPix
ہانگ کانگ : ’حکومت ہمارے مطالبے تسلیم کرے‘
ہانگ کانگ میں احتجاج میں شریک یہ دونوں خود کو لبرٹی گرل اور لٹل برادر کہتے ہیں۔ چین کا خصوصی انتظامی علاقہ ہانگ کانگ آج کل شدید ترین سیاسی بحران کا شکار ہے۔ چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف یہ مظاہرےجون سے جاری ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
فرانس: ’صرف امیروں کا تحفظ‘
دیدیئر بیلاک فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کی تجویز کردہ اصلاحات کے خلاف مظاہروں میں شریک ہیں۔ اس احتجاج اور ہڑتال کی وجہ سے ٹرینوں اور میٹرو کی آمد و رفت خاص طور پر متاثر ہوئی ہے۔ ابھی تک اس بحران کا کوئی حل دکھائی نہیں دے رہا۔ گزشتہ برس موسم سرما میں بھی ’زرد جیکٹ‘ نامی احتجاج کے دوران ماکروں کے اصلاحاتی ایجنڈے پر شدید تنقید کی جا چکی ہے۔
تصویر: Reuters/B. Tessier
بولیویا: ’حکومت ہمارے وطن کو فروخت کر رہی ہے‘
ریویرا زمپانو نے مستعفی ہونے والے ملکی صدر ایوو مورالیس کے دیگرحامیوں کے ساتھ مل کر سڑک کی ناکہ بندی کی تھی۔ مورالیس کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال اور دہشت گردی کے الزامات عائد کیے جانے کے خلاف کئی ہفتوں تک مظاہرے کیے گئے تھے۔ تاہم ان مظاہرین کے برعکس زمپانو کا موقف ہے کہ بولیویا کی عبوری حکومت ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔
تصویر: Reuters/M. Bello
کولمبیا:’ انقلاب کے بعد ہی تبدیلی‘
اندریس فیلیپے نے دسمبر کے اوائل میں ملکی سربراہ مملکت ایوان دوکے کے خلاف ہونے میں مظاہروں میں شرکت کی۔ مظاہرین سماجی شعبے میں منصفانہ پالیسیوں، تعلیم و تربیت کے لیے مزید رقم مختص کرنے اور صحت کے بہتر نظام کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے لیے سرگرم افراد کے بہتر تحفظ کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ان کا ایک مطالبہ سابقہ فارک باغیوں کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے پر مکمل طور پر عمل درآمد بھی تھا۔
تصویر: Reuters/L. Gonzalez
لبنان:’ گزشتہ تیس برسوں سے یہ ہمیں لوٹ رہے ہیں‘
اکتوبر سے لبنان میں گاہے بگاہے مظاہرے دیکھے گئے ہیں۔ یہ لوگ بدعنوانی اور غلط اقتصادی پالیسیوں کے خلاف سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہوئے۔ وزیر اعظم سعد الحریری کے مستعفی ہونے کے بعد بھی حبا غوسن جیسے شہری نئے نامزد کردہ حکومتی سربراہ حسن دیاب کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ حسن دیاب کو شیعہ تنظیم حزب اللہ کی حمایت حاصل ہے۔