1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہبرطانیہ

بورس جانسن کو ایک نئے بحران کا سامنا، دو سینیئر وزراء مستعفی

6 جولائی 2022

وزیر خزانہ رشی سونک اور وزیر صحت ساجد جاوید کے استعفی سے وزیر اعظم بورس جانسن ایک نئے بحران میں پھنس گئے ہیں۔ کچھ دیر قبل ہی انہوں نے پارٹی کے ایک سینیئر رکن کی نامعقول حرکات کے لیے معافی مانگی تھی۔

Kombobild Rishi Sunak und Sajid Javid

سب سے پہلے وزیر صحت ساجد جاوید نے استعفی دیا۔ انہوں نے اپنی ٹوئٹر پر لکھا،"ان کا ضمیر اب اس حکومت میں کام کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔"  اس کے فوراً بعد وزیر خزانہ رشی سونک نے بھی اپنے عہدے سے استعفی دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا،"عوام حکومت سے یہ بالکل درست توقع رکھتی ہے کہ وہ پوری اہلیت، سنجیدگی اور احسن اندازمیں کام کرے۔"

یہ استعفے حکمراں کنزرویٹیو پارٹی کے رکن پارلیمان اور سابق وہپ کرس پنچر کے خلاف ایک حکومتی اہلکار کی جانب سے جنسی نامعقول حرکت کے الزامات پر وزیر اعظم جانسن کی طرف سے معافی مانگنے کے چند منٹ بعد سامنے آئے۔ جانسن نے اپنے بیان میں کہا تھا،"بادی النظر میں یہ ایک غلط کام تھا۔ میں اس کی وجہ سے متاثر ہونے والے تمام افراد سے معذرت طلب کرتا ہوں۔"

 بورس جانسن پر کئی طرح کی انتظامی بدعنوانی نیز کووڈ انیس کے ضابطوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سرکاری رہائش گاہ پر تقریبات منعقد کرنے کے الزامات کے باوجود جاوید اور سونک دونوں ہی ماضی میں ان کی حمایت کرتے رہے تھے۔

دونوں وزراء کے استعفوں پر وزیر اعظم نے کہا کہ "انہیں ان استعفوں پر افسوس ہے"۔ انہوں نے جاوید کی جگہ اپنے چیف آف اسٹاف اسٹیون بارکلے کو وزیر صحت اور عراقی نژاد وزیر تعلیم ناظم زہاوی کو نیا وزیر خزانہ بنانے کا اعلان کیا۔

وزراء نے کیا کہا؟

ٹوئٹر پر پوسٹ کیے گئے اپنے استعفی نامے میں جاوید نے جانسن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا،"آپ جن قدروں کی ترجمانی کرتے ہیں وہ آپ کے ساتھیوں میں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ اور حالیہ اسکینڈلز کی روشنی میں عوام اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ آپ کی پارٹی نہ تو اہل ہے اور نہ ہی قومی مفاد میں کام کررہی ہے۔"

سابق وزیر صحت نے وزیر اعظم جانسن پر معمولی ووٹوں کے فرق سے تحریک عدم اعتماد میں کامیاب ہونے کے باوجود "انکساری" کا مظاہرہ نہ کرنے کے لیے بھی نکتہ چینی کی۔ انہوں نے لکھا،"یہ واضح ہے کہ آپ کی قیادت میں صورت حال میں کوئی تبدیلی ہونے والی نہیں ہے اس لیے آپ نے میرا اعتماد بھی کھو دیا ہے۔"

سونک نے اپنے استعفی نامے میں لکھا، "عوام کی یہ توقعات بالکل درست ہیں کہ حکومت سنجیدگی، اہلیت اور احسن انداز میں کام کرے۔ مجھے حکومت چھوڑنے پر دکھ ہے لیکن میں اس نتیجے پر خاصی ہچکچاہٹ کے بعد پہنچا ہوں کہ اب ہم مزید ساتھ نہیں چل سکتے۔ اس لیے میں استعفی دے رہا ہوں۔"

اپوزیشن لیبر پارٹی کے رہنما کیئر اسٹارمر نے کہا کہ جن لوگوں نے جانسن کی حمایت کی تھی انہیں بھی اب اندازہ ہوگیا ہے کہ وزیر اعظم نے اپنی ذمہ داریاں بخوبی انجام نہیں دیں۔ انہوں نے کہا،"بالآخر تمام گھٹیاپن، تمام اسکینڈلز اور تمام ناکامیوں کے بعد اب یہ بالکل واضح ہے کہ یہ حکومت اب منہدم ہونے کو ہے۔"

بورس جانسن مسلسل تنازعات سے دوچار

وزیر اعظم بورس جانسن کو گزشتہ چند ماہ کے دوران متعدد تنازعات کا سامنا رہا ہے جس کے باعث اپوزیشن کے علاوہ خود ان کی اپنی جماعت کے بعض اراکین نے استعفی کا مطالبہ کیاتھا۔ حالانکہ گزشتہ ماہ اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کی وجہ سے انہیں اگلے سال جون تک کسی عدم اعتماد کی تحریک کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

کورونا پروٹوکول کی خلاف ورزی کرنے پر انہیں جرمانہ ادا کرنا پڑا تھا اور وہ برطانیہ کے پہلے ایسے وزیر اعظم بن گئے تھے جنہیں قانون شکنی پر سزا دی گئی ہو۔ بورس جانسن نے پنچر کو ڈپٹی چیف کے عہدے پر فائز کرنے پر اپنی غلطی کا اعتراف بھی کیا تھا۔ انہوں نے ایک برطانوی نشریاتی ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں کہا،"اگر میں پیچھے مڑ کر دیکھوں تو یہ ایک غلط فیصلہ تھا، میں ان تمام افراد سے معذرت کرتا ہوں جو اس فیصلے سے متاثر ہوئے۔"

برطانیہ میں یوں تو اگلے عام انتخابات سن 2024میں ہوں گے تاہم وزیر اعظم اپنے خصوصی اختیارات کے تحت قبل از وقت بھی انتخابات کرواسکتے ہیں۔ اپوزیشن رہنما اسٹارمر کا کہنا تھا کہ وہ فوری انتخابات کو خوش آمدید کہیں گے اور یہ کہ ملک میں حکومت کی تبدیلی بہت ضروری ہے۔

ج ا/ص ز(اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں