1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برطانیہ: پناہ کے متلاشی خاندانوں کو ’سنگین‘ حالات کا سامنا

17 ستمبر 2023

انسانی حقوق کی دو تنظیموں نے اپنی ایک مشترکہ رپورٹ میں ان سخت حالات پر روشنی ڈالی ہے، جن کا سامنا برطانیہ میں رہنے والے پناہ گزینوں کو ہے۔ رشی سوناک حکومت کی پناہ گزین کش پالیسیوں کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔

Schiff Bibby Stockholm
پناہ گزینوں کو پانی پر تیرتی اس رہائش گاہ میں رکھنے پر رشی سوناک کی حکومت کی سخت مزمت کی گئی تھیتصویر: UK HOME OFFICE/AFP

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے کہا کہ برطانیہ میں پناہ کے متلاشی خاندانوں کو حکومت کی طرف سے فراہم کردہ عارضی رہائش گاہوں میں قیام کے دوران نامناسب حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس سے ان کی ذہنی و جسمانی صحت اور بچوں کی تعلیم تک رسائی متاثر ہوتی ہے۔

برطانیہ کے انسانی حقوق کے گروپ جسٹ فیئر کے ساتھ اشتراک میں 100 صفحات پر مشتمل ایک نئی رپورٹ جاری کرتے ہوئے ایچ آر  ڈبلیو کا کہنا تھا کہ انہوں نے محسوس کیا کہ زندگی کے یہ سنگین حالات حکومتی پالیسی کی دیرینہ ناکامیوں کا نتیجہ ہیں۔

برطانوی حکومت پر دباؤ ہے کہ وہ تارکین وطن کو چھوٹی کشتیوں میں انگلش چینل پار کرنے کے خطرناک عمل سے روکےتصویر: Gareth Fuller/PA/dpa/picture alliance

انسانی حقوق کی ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس رپورٹ کی تیاری کے سلسلے میں ستائیس بچوں سمیت 50 سے زائد پناہ کے ان متلاشیوں کے انٹرویو کیے، جو انگلینڈ میں رہ رہے تھے یا حال ہی میں عارضی رہائش چھوڑ چکے تھے۔

رپورٹ کے مطابق ان میں سے اکثریت کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے پناہ گزینوں کو انیس دنوں کے اندر طویل المدتی رہائش میں منتقل کرنے کے حکومتی  ہدف کے باوجود ان کے خاندانوں نے مہینوں عارضی رہائش گاہوں میں گزارے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہوٹلوں میں رہائش پذیر لوگوں کو'رہائش کے سنگین مسائل‘ کا سامنا ہے، جن میں جگہ کی کمی، سیلن، ٹوٹے ہوئے یا سرے غائب فرنیچر اور کیڑوں کے حملے شامل ہیں۔

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ پناہ گزین خاندان کھانا پکانے کی سہولیات تک رسائی کے بغیر اپنے بچوں کو مناسب خوراک فراہم کرنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں اور بچوں کو تعلیم تک رسائی میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ مقامی اسکول انہیں فوری طور پر داخلہ لینے کی اجازت نہیں دے سکتے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کی برطانیہ میں ڈائریکٹر یاسمین احمد نے کہا، ''حفاظت کے متلاشی لوگوں کے لیے غیر انسانی اور ناکافی رہائش کبھی بھی قابل قبول نہیں ہے اور یقیناً دنیا کی چھٹی بڑی معیشت میں نہیں۔‘‘

حکومت برطانیہ  ''غیر قانونی‘‘ ہجرت کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جو ملک کا ایک انتہائی متنازعہ سیاسی مسئلہ ہے اور اس پر دباؤ ہے کہ وہ تارکین وطن کو چھوٹی کشتیوں میں انگلش چینل پار کرنے کے خطرناک عمل سے روکے۔

برطانوی حکومت کی غیر قانونی تارکین وطن کو افریقی ملک روانڈا بھجوانے کی پالیسی پر سخت تنقید کی گئی تصویر: Wiktor Szymanowicz/AA/picture alliance

حکومت نے چینل اور دیگر 'غیر قانونی راستوں‘ کے ذریعے برطانیہ  آنے والوں کے سیاسی پناہ کے دعوؤں کو روکنے کے لیے ایک متنازعہ قانون متعارف کرایا ہے۔ اس قانون کے مطابق غیر قانونی تارکین وطن کو برطانیہ پہنچنے پر ان کی افریقی ملک روانڈا جیسے تیسرے ممالک میں منتقلی کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔

 لیکن تارکین وطن کو مشرقی افریقہ بھجوانے کی قانونی حیثیت پر عدالتی چیلنج کے درمیان یہ پالیسی روک دی گئی ہے۔ برطانیہ کی حکومت پناہ کے متلاشیوں کے لیے ہوٹل کی رہائش کے اخراجات کم کرنے کی بھی کوشش کر رہی ہے اور اس کے بجائے بارجز (ایک خاص قسم کی کشتیاں)، غیر استعمال شدہ فوجی اڈوں اور یہاں تک کہ خیمے استعمال کرنا چاہتی ہے۔

پچھلے مہینے برطانیہ نے متنازعہ طور پر جنوب مغربی انگلش ساحل سے دور ''بیبی اسٹاک ہوم‘‘ نامی کشتی پر تارکین وطن بالغ مردوں کو رہائش دینا شروع کی لیکن انہیں چند دنوں کے اندر اس کشتی کے اندر موجود پانی میں لیجیونیلا بیکٹیریا کے پائے جانے کے بعد ایک شرمناک دھچکے کا سامنا کرتے ہوئے اپنا یہ فیصلہ واپس لینا پڑا تھا۔

ش ر⁄ م م (اے ایف پی)

انگلش چینل پار کرنے کے خواہش مند مہاجرین کی حالت زار

02:08

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں