1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برطانیہ کا بلَڈ اسکینڈل: وزیر اعظم سونک نے معافی مانگی

21 مئی 2024

ستّر اور اسّی کی دہائی میں جان بوجھ کرآلودہ خون منتقل کرنے کے سبب تیس ہزار سے زیادہ افراد متاثر ہوئے اور تین ہزار موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔ برطانوی وزیر اعظم سونک نے اس 'خوفناک ناانصافی' کے لیے عوام سے معافی مانگی ہے۔

بلڈ اسکینڈل
اس وقت کی برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے نے سن 2017 میں اس بلڈ اسکینڈل کی انکوائری کا حکم دیا تھاتصویر: Rob Todd/Solo Syndication/Daily Mail/picture alliance

برطانیہ کی ایک عوامی انکوائری کمیٹی نے چھ سال کی تفتیش کے بعد پیش کردہ اپنی رپورٹ میں ہولناک انکشافات کیے ہیں۔ اسے 1948 میں شروع ہونے والے برطانوی نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) کا اب تک کا سب سے ہلاکت خیز اسکینڈل قرار دیا جارہا ہے۔

 1970اور 1980کی دہائی میں ہزاروں افراد کو آلودہ خون چڑھایا گیا جس کی وجہ سے ہزاروں افراد ایچ آئی وی یا ہیپاٹائٹس سے متاثر ہوگئے۔ جب کہ متاثرین میں سے بہت سے دیگر عمر بھر کے لیے دوسری بیماریوں میں مبتلا رہے۔

برطانوی ادارہ صحت کی غلطی، اہم ڈیٹا ضائع ہو گیا

برطانوی انتخابات سے قبل نیشنل ہیلتھ سروس کی ساکھ نچلی ترین سطح پر

انکوائری کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ آلودہ خون چڑھانے کی وجہ سے کم از کم تیس ہزار افراد متاثر ہوئے جب کہ لگ بھگ تین ہزار افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔ اسے بلَڈ اسکینڈل کا نام دیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق برطانوی حکام اور پبلک ہیلتھ سروس کے اہلکاروں کو اس بات کا علم تھا کہ یہ خون اور خون کی مصنوعات آلودہ ہیں لیکن اس کے باوجودوہ دہائیوں تک اس حقیقت اور اس سے ہونے والی تباہی کی پردہ پوشی کرتے رہے۔

وزیر اعظم رشی سونک نے پارلیمان کو بتایا،میں اس خوفناک ناانصافی کے لیے پورے دل سے واضح طورپر معافی مانگتا ہوںتصویر: Jessica Taylor/UK Parliament/AFP

یہ برطانیہ کے لیے شرم کا مقام ہے، سونک

وزیر اعظم رشی سونک نے رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد کہا کہ "یہ برطانوی ریاست کے لیے شرم کا مقام ہے۔"

انہوں نے کہا کہ" اس انکوائری کے نتائج سے ہماری قوم کی بنیاد ہل جانی چاہئے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ "وزراء اور ادارے اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں خوفناک اور تباہ کن طور پر ناکام ہوئے ہیں۔"

انہوں نے پارلیمان کو بتایا،"میں اس خوفناک ناانصافی کے لیے پورے دل سے واضح طورپر معافی مانگتا ہوں۔"انہوں نے متاثرین کو مکمل معاوضہ دینے کا بھی وعدہ کیا۔

ڈھائی ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ پیر کے روز شائع ہوئی ہے۔ اسے" متاثرین اور ان کے عزیزوں کے لیے تبا ہ کن نتائج کے ساتھ ناکامیوں کی دستاویز" قرار دیا جارہا ہے۔

انکوائری کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ آلودہ خون چڑھانے کی وجہ سے کم از کم تیس ہزار افراد متاثر ہوئے جب کہ لگ بھگ تین ہزار افراد موت کے منہ میں چلے گئےتصویر: Gavriil Grigorov/Tass/IMAGO

سات سال قبل انکوائری کا آغاز

اس وقت کی برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے نے سن 2017 میں اس بلڈ اسکینڈل کی انکوائری کا حکم دیا تھا۔

رپورٹ تیار کرنے والی ٹیم کے سربراہ جج برائن لینگ اسٹاف نے کہا کہ انہوں نے پایا کہ "اس اسکینڈل کو جان بوجھ کر چھپانے کی کوشش کی گئی، جس کا ثبوت یہ ہے کہ سرکاری اہلکاروں نے 1993میں دستاویزات کو تباہ کردیا تھا۔"

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ سوال پوچھا جارہا تھا کہ کیا این ایچ ایس اور حکومت نے معاملات کو چھپانے کی کوشش کی تھی، تو اس کا جواب یہ ہے "ہاں ایسا ہی کیا گیا۔"

بلڈ ڈس آرڈر یا خون کی بے ترتیبی

"صرف چند ایک لوگ ہی گمراہ کرنے کی ساز ش میں ملوث نہیں تھے بلکہ پوری سمجھ بوجھ اور منظم انداز میں ایسا کیا گیا، کیونکہ اس کے انتہائی خوفناک مضمرات ہوتے۔"  رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "بہت ساری سچائی چھپا دی گئی۔"

متاثرین میں وہ لوگ شامل تھے جنہیں حادثات یا سرجری کے دوران خون کی ضرورت تھی یا جو ہیموفیلیا جیسی خون کی خرابی کی بیماری میں مبتلا تھے۔ انہیں آلودہ خون منتقل کردیا گیا جس کی وجہ سے بہت سے افراد زندگی بھر کے لیے صحت کے مختلف مسائل سے دوچار ہوگئے۔

ج ا  / ص ز (اے ایف پی، روئٹرز)

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں