برطانیہ کا تحریری آئین نہ ہونے کی وجہ میگنا کارٹا
15 جون 2015
میگنا کارٹا کے معاہدے کو انسانی تاریخ کی ایک اہم قانونی دستاویز سمجھا جاتا ہے۔ برطانوی بادشاہ جان اونلینڈ کو پندرہ جولائی 1215ء کے روز یہ معاہدہ کرنے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ عوام اور اشرافیہ نے بادشاہ کے خلاف بغاوت کر دی تھی، جس کے نتیجے میں جان اونلینڈ نے مانا کہ وہ قانون سے بالاتر نہیں تھے اور پھر میگنا کارٹا کی دستاویز پر دستخط کیے گئے تھے۔
میگنا کارٹا لاطینی زبان کے دو الفاظ پر مشتمل ایک اصطلاح ہے، جس کا مطلب ہے، ’عظیم چارٹر‘۔ معنوی حوالے سے اس کا مطلب ’آزادی کا عظیم چارٹر‘ ہے۔ اصل میں یہ معاہدہ بادشاہ اور اس کے خلاف بغاوت کرنے والوں کے درمیان طے پانے والا ’امن معاہدہ‘ تھا لیکن اس کے اثرات صدیوں بعد بھی محسوس کیے جاتے ہیں۔ اس معاہدے میں طے پایا تھا کہ بادشاہ اب ’خدا کے فضل‘ سے حکومت نہیں کرے گا بلکہ وہ عوام اور اشرافیہ کے مفادات کے لیے کام کرنے کی کوشش کرے گا۔
یہ معاہدہ قوانین کا ایک مجموعہ ہے اور اس کے مواد کو آج تک ماڈل قرار دیا جاتا ہے۔ امریکی آئین، انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ اور انسانی حقوق سے متعلق یورپی کنونشن جیسی اہم دستاویزات میگنا کارٹا کے قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی تشکیل دی گئی تھیں۔ میگنا کارٹا معاہدے کے آٹھ سو برس بعد دنیا بھر میں اس کی صرف چار اصلی کاپیاں موجود ہیں۔
غیر تحریری آئین
میگنا کارٹا کا معاہدہ، ظالمانہ بادشاہت کے خلاف، اینگلو سیکسن قانونی نظام اور جدید جمہوریت کی بانی دستاویز ہے لیکن اس کے باوجود برطانیہ کا شمار دنیا کی ان تین جمہوریتوں میں ہوتا ہے، جن کا کوئی تحریری آئین موجود نہیں ہے۔ برطانیہ کے علاوہ اسرائیل اور نیوزی لینڈ میں بھی کوئی تحریری آئین موجود نہیں۔
اس وقت انگلینڈ، اسکاٹ لینڈ، ویلز اور شمالی آئرلینڈ پر مشتمل ملک برطانیہ میں صرف ایک غیر تحریر شدہ آئین ہے۔ میگنا کارٹا کی اصل تریسٹھ شقوں میں سے آج کے انگلینڈ اور ویلز میں صرف تین قوانین رائج ہیں۔ ان تین قوانین کے مطابق ہر کسی کو انصاف اور منصفانہ عدالتی کارروائی کا حق حاصل ہے۔ اس کے علاوہ چرچ کی آزادی اور ’لندن شہر کی تاریخی آزادیاں‘ ہر حال میں برقرار رکھی جائیں گی۔
کیا برطانیہ میں تحریری آئین ہونا چاہیے؟
برطانیہ کا بھی اپنا ایک تحریری آئین ہونا چاہیے، اس بارے میں برطانوی سیاست خاموش ہے۔ شمالی انگلینڈ میں واقع لیڈز یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات سے وابستہ وکٹوریہ ہنی مین کہتی ہیں کہ اگر تحریری آئین کی بات کی گئی تو چار ملکوں کے الحاق والے ملک برطانیہ کے لیے مزید مسائل پیدا ہوں گے۔ وہ کہتی ہیں کہ اسکاٹ لینڈ کے سن 2014ء میں ہونے والے ریفرنڈم میں اسکاٹ لینڈ کے آئندہ بھی برطانیہ سے ملحق رہنے کا فیصلہ سامنے آیا تھا لیکن اگر تحریری آئین کی کوشش کی گئی، تو یہ ملک اپنا آئین بنانے کی کوشش کر سکتا ہے۔ اسی طرح ویلز اور شمالی آئرلینڈ بھی اسکاٹ لینڈ کی پیروی کر سکتے ہیں اور موجودہ برطانوی ریاست میں دراڑیں پڑ سکتی ہیں۔
پروفیسر وکٹوریہ ہنی مین کہتی ہیں کہ تحریری آئین کی صورت میں فیصلوں کی آزادی خود بخود محدود ہو جائے گی اور اس طرح مختلف مسائل پر سمجھوتے کرنے کا اختیار کم ہو کر رہ جائے گا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ایک نرم قوانین والا آئین تشکیل دیا جائے لیکن اس کی حیثیت ایک خالی کاغذ جیسی ہو گی۔
آئین کی تشکیل کی وجہ مشکل حالات
اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو آئین کی تشکیل کی وجہ ہمیشہ جنگیں، انقلابات یا سیاسی تغیرات بنے ہیں۔ موجودہ حالات میں برطانیہ کے لیے ایک تحریری آئین کی تشکیل ایک انتظامی مسئلہ بھی ہو گا اور سوال یہ ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کون تیار ہو گا؟ پروفیسر ہنی مین کے مطابق اگر آپ دنیا کی بڑی جمہوریتوں میں تحریری آئین تشکیل دینے والوں پر نظر ڈالیں تو ان میں سے زیادہ تر جنگی رہنما تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ فی الحال برطانیہ میں ایسا کوئی ایک بھی رہنما نہیں ہے، جو تحریری آئین کی تیاری کے لیے کوشش کرے۔