برطانیہ کا سیاسی انتشار:لیبر پارٹی کا خارجہ امورترجمان برطرف
26 جون 2016بریگزٹ کے لیے منعقد ہونے والے ریفرنڈم کے نتائج کے مطابق 52 فیصد برطانوی عوام نے یورپی یونین چھوڑنے کے حق میں فیصلہ دیا اور اس فیصلے کے منظر عام پر آتے ہے برطانیہ کا سیاسی منظر نامہ تبدیل ہوتا دکھائی دینے لگا اور یہ تبدیلی حکمران قدامت پسند پارٹی اور اپوزیشن لیبر پارٹی دونوں ہی میں لیڈرشپ کی جنگ کا سبب بن گئی۔
لیبر پارٹی کے ایک ترجمان کے مطابق جرمی کوربن نے راتوں رات اپنے خارجہ امور کے ترجمان ہلیری بن کو برطرف کرنے کا فیصلہ اس لیے کیا کہ اُن کا بن پر سے اعتماد اُٹھ چُکا تھا۔ اس برطرفی کے بعد اتوار کو لیبر پارٹی کی شیڈو ہیلتھ منسٹر ہائیڈی الکسانڈر کا استعفیٰ بھی سامنے آ گیا، جن کے ایک بیان میں لیبر پارٹی میں قیادت کی تبدیلی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
دریں اثناء لیبر پارٹی کے قانون سازوں کی ایک بڑی تعداد نے یورپی یونین سے اخراج کی ووٹنگ کے فیصلے کے تناظر میں جرمی کوربن سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ لیبر پارٹی کے چند اراکین کا کہنا ہے کہ کوربن اس ریفرنڈم کے دوران پارٹی کے اُن اراکین کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے، جو روایتی طور پر یورپی یونین میں شامل رہنے کے حق میں تھے۔ اس کے علاوہ کوربن سے پارٹی کے اراکین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ انہیں یورپی یونین کی ممبرشپ کی حمایت زور دار طریقے سے کرنا چاہیے تھی جبکہ انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اسی بحث کے دوران لیبر پارٹی کے دو سیاستدان کوربن کے خلاف عدم اعتماد کی درخواست جمع کرا چُکے ہیں۔ اس بارے میں آئندہ ہفتے مزید بحث ہو گی۔
برطانیہ کی لیبر پارٹی کی صفوں میں عام تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ یورپی یونین میں شامل رہنے کے حق میں پارٹی کی جانب سے چلائی جانے والی مہم میں جرمی کوربن نے ڈھیلا ڈھالا رویہ اختیار کیا، جو مہم کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ بنا۔ اس طرح لیبر پارٹی زیادہ تعداد میں اپنے ووٹروں کو یورپی یونین میں شامل رہنے کے حق میں ووٹ ڈالنے پر آمادہ کرنے میں ناکام رہی۔
برطانوی اخبار’دی آبزرور‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق ہلیری بن، جو کُھلے عام جرمی کوربن سے گزشتہ ستمبر میں شام پر کیے جانے والے فضائی حملوں کے بارے میں اپنے اختلاف رائے کا اظہار کرتے رہے ہیں، کسی ایسے مناسب وقت کی تلاش میں تھے کہ جس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے کوربن کو فارغ کیا جا سکے۔ بن نے اپنے ایک بیان میں کہا، ’’اگر جرمی کوربن لیبر پارٹی کے لیڈر رہے تو آئندہ الیکشن، جس کے قبل از وقت ہونے کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں، میں ہماری کامیابی کے امکانات معدوم نظر آ رہے ہیں۔‘‘
برطانیہ میں 2020ء میں پارلیمانی انتخابات کا انعقاد ہونا ہے۔ اب جو بھی سیاستدان ڈیوڈ کیمرون کی جگہ کنزرویٹیو پارٹی کی قیادت سنبھالے گا، وہ خود بخود ہی برطانیہ کا نیا وزیر اعظم بھی بن جائے گا تاہم ممکنہ طور پر وہ قبل از وقت انتخابات کا اعلان کر سکتا ہے تاکہ اُسے حکومت کرنے کا حق حاصل کرنے کے لیے باقاعدہ طور پر مینڈیٹ مل جائے۔