برطانیہ کا مشرق وسطیٰ میں انٹرنیٹ کی نگرانی کا پروگرام، اخبار
24 اگست 2013
برطانوی اخبار کے مطابق اس نے ان تازہ ترین انکشافات کے لیے امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے سابق کانٹریکٹر ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے افشا کی گئی خفیہ دستاویزات کو حوالہ بنایا ہے۔ ’دی انڈیپینڈنٹ‘ کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ مشرق وسطیٰ میں انٹرنیٹ اور ٹیلی فون کالز کی نگرانی کا اسٹیشن چلا رہا ہے وہ ایک بلین پاؤنڈز کی لاگت کے ایک بڑے برطانوی منصوبے کا حصہ ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق برطانوی دفتر خارجہ اور انٹیلیجنس اداروں نے اس دعوے پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔
یاد رہے کہ سنوڈن امریکی حکومت کو مطلوب ہیں۔ امریکی انٹیلجنس ادارے این ایس کے خفیہ پروگرام ’’پرزم‘‘ کے راز افشا کرنے کے بعد سنوڈن ہانگ کانگ سے ماسکو فرار ہو گئے تھے جہاں اب وہ عارضی پناہ حاصل کر چکے ہیں۔
خفیہ معلومات تک رسائی اور ’’سلامتی‘‘ کی غرض سے جاسوسی کے امریکی پروگرام’’پرزم‘‘ کے لِیک ہو جانے کے بعد جہاں امریکی حکومت کو تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، وہاں جرمنی سمیت کئی یورپی ممالک کے عوام بھی امریکی خفیہ اداروں کے ساتھ اس ضمن میں اپنی حکومتوں کے مبینہ تعاون پر نالاں ہیں۔
زیرِ سمندر فائبر آپٹک کیبلز
برطانیہ کے اس مؤقر جریدے نے یہ تو نہیں بتایا کہ سنوڈن کی دستاویزات سے اس نے یہ معلومات کس طرح حاصل کیں، تاہم اس کا کہنا ہے کہ برطانیہ نے مشرق وسطیٰ میں انٹرنیٹ مواد کی نگرانی کے لیے اُن زیرِ سمندر فائبر آپٹک کیبلز تک رسائی حاصل کی جو کہ مشرق وسطیٰ کے علاقے سے گزر رہے ہیں۔
اخبار مزید لکھتا ہے کہ مانیٹرنگ اسٹیشن سے ڈیٹا اکھٹا کرنے کے بعد اسے برطانوی انٹیلجنس ادارے ’’جی سی ایچ کیو‘‘ کو پہنچایا جاتا ہے اور اس کے بعد امریکی ادارے این ایس اے کو۔ اخبار نے یہ بتانے سے انکار کیا ہے کہ یہ اسٹیشن کس جگہ قائم ہے۔
نو گیارہ کے بعد کی دنیا
واضح رہے کہ گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد امریکا نے مشرق وسطیٰ سمیت کئی علاقوں میں انٹرنیٹ مواد کی نگرانی کا عمل وسیع اور تیز تر کر دیا تھا تاکہ ممکنہ دہشت گردانہ منصوبوں کو شروع ہونے سے پہلے ہی روک دیا جائے۔ امریکی اور مغربی ممالک کے بہت سے مبصرین اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس عمل کو نجی زندگی میں ریاستی مداخلت قرار دے کر تنقید کرتی رہی ہیں۔
اعتراف
بدھ کے روز امریکی انٹیلیجنس ڈائریکٹر جیمز کلیپر کی جانب سے حاصل کردہ ڈی کلاسیفائیڈ دستاویزات کے مطابق نیشنل سکیورٹی ایجنسی یا این ایس اے نے سن دو ہزار آٹھ سے دو ہزار گیارہ کے درمیان غالباً سالانہ چھپن ہزار ای میلز اکھٹا کی تھیں۔ ان انکشافات کے بعد امریکی حکومت کی جانب سے نگرانی کی غرض سے جاسوسی کے پروگرام پر مزید تنقید کی جا رہی ہے۔
دستاویزات پر لکھا ہے کہ مقامی سطح پر ای میلز اکھٹا کرنے کا عمل غیر دانستہ تھا۔ تاہم فارن انٹیلیجنس سرویلنس کورٹ نے این ایس اے کو حکم دیا کہ وہ اس کے تدارک کے لیے فوری اقدامات کرے۔ این یس اے نے اس حکم کے بعد ڈیٹا کو فلٹر کرنے کے لیے نئی ٹیکنالوجی کا استعمال شروع کیا۔
کلیپر کے مطابق انفارمیشن کو عام کرنے کا مقصد ٹرانسپیرنسی کے عمل کو بہتر اور مؤثر بنانا ہے۔