1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستبرطانیہ

برطانیہ: کشمیر کانفرنس میں بھارت اور پاکستان پر تنقید

28 نومبر 2024

برطانوی پارلیمانی اراکین اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے پاکستان اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پہ تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے برطانیہ کو مؤثر کردار ادا کرنا چاہیے۔

سری نگر، جموں اور کشمیر میں بھارتی فوج کا سخت پہرہ
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سکیورٹی ہائی الرٹتصویر: Basit Zargar/ZUMAPRESS.com/picture alliance

پاکستان اور بھارت دونوں کے زیر  انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال کے بارے میں برطانیہ کے دارالعوام کی کمیٹی نمبر 10 کے زیر اہتمام منگل کو ایک کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں  مقررین نے خطاب کرتے ہوئے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ تقریب کا انعقاد یونائٹڈ کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی اور لیبر پارٹی کے رکن دارالعوام رچرڈ برگون نے کیا تھا۔

 

  کشمیر میں انصاف کی حمایت

کانفرنس کا انعقاد ایک ایسے موقع پر کیا گیا جب بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی اسمبلی نے حال ہی میں ایک قرارداد  پاس کرکے نئی دہلی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ متنازع علاقے کی خصوصی حیثیت کو بحال کرے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس بحالی کے حوالے سے بھارتی حکومت پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کیونکہ کانگریس اور دوسری جماعتوں نے بھی بحالی کی حمایت کی ہے۔

دوسری جانب پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں بھی حکومت کی طرف سے کئی ایسی اقدامات کیے جا رہے ہیں جن پر انسانی حقوق کے کارکن اور کشمیری سیاستدان کھل کر تنقید کر رہے ہیں۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے لیڈز سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمنٹ فابیان ہیملٹن نے کہا کہ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود بھی مسئلہ کشمیر ابھی بھی موجود ہے۔ انہوں نے تقریب کے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ''آپ کی جدوجہد انصاف کے لیے ہے اور یہاں پر اراکین اسمبلی کی موجودگی اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ آپ کے ساتھ ہیں۔‘‘

جموں کشمیر میں بڑھتے ہوئے حملے، امن کے بھارتی دعووں کی نفی

فابیان ہیملٹن کا کہنا تھا کہ جب تک دنیا میں کوئی ایک بھی مظلوم باقی ہے یا دنیا میں کوئی ایک بھی انسان آزاد نہیں ہے اس وقت تک یہ دنیا آزاد نہیں ہے۔

لیڈز سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمنٹ فابیان ہیملٹن تصویر: Raja Sarfraz/DW

برطانیہ کی تاریخی ذمہ داری

برطانیہ کے علاقے مڈلز برا سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمنٹ اینڈی میک ڈونلڈ کا کہنا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ ان کے علاقے کے رائے دہندگان کے لیے ایک بہت اہم مسئلہ ہے۔ ''مجھے معلوم ہے کہ اس مسئلے کی وجہ سے لوگوں کی بنیادی آزادیاں اور حقوق متاثر ہو رہے ہیں۔ ہماری ایک تاریخی ذمہ داری ہے کہ ہم اس مسئلے کے حل میں اپنا کردار ادا کریں۔‘‘

برمنگم سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمان محمد ایوب کا کہنا تھا کہ کشمیر کا موازنہ فلسطین کے مسئلے سے کیا جا سکتا ہے۔ '' کشمیر ایک ملٹرائیزڈ یا عسکریت پسندی سے متاثرہ علاقہ ہے جہاں سیاسی کارکنوں کو قید کیا جاتا ہے اور عوام کے حقوق کو چھینا جاتا ہے۔‘‘

محمد ایوب نے برطانیہ کو یاد دلایا کہ دنیا ان کو امید کی کرن سمجھتی ہے۔ وہ کہتے ہیں، '' برطانوی پارلیمنٹ کو روشنی کا مینارہ تصور کیا جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو صرف منظور نہیں کیا جائے بلکہ ان پر مؤثر انداز میں عمل درامد کیا جائے۔‘‘

محمد ایوب کے مطابق اس کے علاوہ مظلوم اقوام کی مدد کے لیے  عالمی عدالت انصاف کے فیصلوں پر بھی سختی سے عمل درآمد کیا جائے۔

مودی کی فتح پر مظفر آباد میں کشمیریوں کا احتجاج

اس برطانوی ایم پی نے حاضرین کو یقین دہانی کرائی کہ برطانوی پارلیمنٹ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے جو کچھ  کر سکتی ہے وہ کرے گی۔

مڈلز برا سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمنٹ اینڈی میک ڈونلڈتصویر: Raja Sarfraz/DW

’کشمیر علاقائی مسئلہ نہیں‘

ڈیوز بری سے تعلق رکھنے والے آزاد رکن پارلیمنٹ اقبال محمد کا کہنا تھا کہ ان کے رائے دہندگان میں سے کئی کا تعلق بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے ہے، جہاں ان کے بقول نا انصافیوں اور ظلمتوں کا ارتکاب کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا، ''لیکن برطانوی حکومت نے اس مسئلے کے حل کے لیے اتنا مؤثر کردار ادا نہیں کیا جتنا کہ اسے کرنا چاہیے تھا۔‘‘

اقبال محمد کے مطابق اس مسئلے کے حوالے سے برطانیہ یہ کہہ کر اپنی جان نہیں چھڑا سکتا کہ یہ ایک علاقائی مسئلہ ہے۔ '' انہوں نے کہا، '' یہ ایک بین الاقوامی ایشو ہے۔ کشمیر میں انصاف کے حوالے سے میں جو کچھ بھی کر سکتا ہوں میں کروں گا۔‘‘

نئی دہلی اور اسلام آباد تنقید کی زد میں

اس موقع پہ خطاب کرتے ہوئے یونائٹڈ کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی کے چیئرمین شوکت علی کشمیری نے کہا کہ ان کی پارٹی بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی اسمبلی میں منظور ہونے والی قرارداد کی حمایت کرتی ہے۔ انہوں نے کہا، ''ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ کشمیر کے سارے حصوں کو متحد کیا جائے۔ اس کی خصوصی حیثیت کو بحال کیا جائے۔‘‘

انہوں نے الزام لگایا کہ پاکستان نے اسلام آباد کے زیر انتظام کشمیر میں آزادی اظہار رائے اور انسانی حقوق کو دبانے کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں اور عسکریت پسندی کو فروغ دیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ''جبکہ بھارت نے بھی حالیہ انتخابات میں سابقہ جنگجوؤں کو رہا کر کے کشمیر کے سیکولر جمہوری سیاست دانوں کو کمزور کرنے کی کوشش کی، جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں طرف کی حکومتیں انتہا پسندوں کو اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔‘‘

کیا پاکستان مخالف بیان بازی بھارت کے انتخابات کو متاثر کرے گی؟

ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے عسکری امور کے ماہر جنید قریشی کا کہنا تھا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بھارت نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سنگین غلطیاں کی ہیں۔ ''وہ کہتے ہیں، ''لیکن یہ بات نہیں بھولنا چاہیے کہ بھارت کو متنازع علاقے میں آنے کی دعوت وہاں کے حکمرانوں نے دی تھی جبکہ پاکستان نے کشمیر کے کچھ حصوں پر قبضہ کیا۔‘‘

برطانیہ میں ہونے والی کشمیر کانفرنس میں انسانی حقوق کے کارکنان، کشمیری سیاستدان اور ماہرین کی شوکتتصویر: Raja Sarfraz/DW

یو کے پی این پی

یونائٹڈ کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی کے حوالے سے پاکستان میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ایک بھارت نواز کشمیری تنظیم ہے۔ تاہم اس کے رہنما اس بات کی سختی سے تردید کرتے ہیں اور ان کا یہ دعوی ہے کہ وہ متنازع علاقے کے تمام حصوں کو متحد کر کے ایک آزاد و خود مختار کشمیر بنانا چاہتے ہیں جس کے پاکستان اور بھارت دونوں سے اچھے تعلقات ہوں۔

بھارت: غیر مسلم بھی یکساں سول کوڈ کے مخالف کیوں؟

اس جماعت نے حال ہی میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں نہ صرف یہ کہ اپنے کنونشن کا انعقاد کیا ہے بلکہ اپنے طلبہ ونگ کی بھی تنظیم سازی کی ہے جس میں سینکڑوں لوگوں نے شرکت کی۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے سابق وزیراعظم سردار عتیق احمد خان نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یونائٹڈ کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی کی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کوئی انتخابی حیثیت نہیں ہے۔ انہوں نے حال ہی میں اپنے طلبہ اور جماعت کی تنظیم سازی کی ہے اور عوامی ایکشن کمیٹی کے مظاہروں میں حصہ لیا ہے۔‘‘

بھارت: کشمیری رہنما پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے حامی کیوں؟

06:30

This browser does not support the video element.

سردار عتیق احمد خان کے مطابق کشمیر کے سارے علاقوں کو متحد کرنے کے نقطہ نظر کی وہ حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جہاں تک خود مختار کشمیر کی بات ہے، تواس کا تذکرہ نہ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں اور نہ جون 1947 کے پلان میں ہے۔‘‘

سردار عتیق احمد خان کے مطابق یہ ایک خواہش تو ہو سکتی ہے۔ '' لیکن عملی طور پر اس پر عمل درآمد کرنا نسبتاً مشکل ہے۔‘‘

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں