برطانیہ: ’کورونا وائرس سے ممکنہ ہلاکتوں کی تعداد 40 ہزار تک‘
17 اپریل 2020
برطانوی پارلیمان کو بتایا گیا ہے کہ ملک میں کورونا وائرس کی وبا کے باعث انسانی ہلاکتوں کی تعداد چالیس ہزار تک ہو سکتی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ کووِڈ انیس کی روک تھام کے لیے لندن حکومت کا ردعمل انتہائی سست تھا۔
اشتہار
لندن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق قدامت پسند وزیر اعظم بورس جانسن کی قیادت میں ملکی حکومت کا کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے خلاف اور اس وائرس کی وجہ سے لاحق ہونے والے مرض کووِڈ انیس کی روک تھام کے لیے سرکاری اقدامات کے حوالے سے ردعمل کئی شعبوں میں انتہائی سست رفتار تھا۔ یہ بات برطانیہ میں صحت عامہ کے شعبے کے ایک انتہائی سرکردہ ماہر نے جمعہ سترہ اپریل کو لندن میں ملکی پارلیمان کی ایک کمیٹی کو بتائی۔
صحت اور سماجی تحفظ سے متعلقہ امور کی پارلیمانی کمیٹی کو بتایا گیا، ''ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ ہمارے نظام میں وہ خامیاں اور غلطیاں کہاں کہاں تھیں، جن کی وجہ سے برطانیہ میں اس وائرس کے باعث انسانی ہلاکتوں کی تعداد یورپ میں سب سے زیادہ ہو سکتی ہے۔‘‘
پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں یہ بات پروفیسر اینتھونی کوسٹیلو نے کہی، جو بین الاقوامی سطح پر بچوں کی صحت سے متعلقہ امور کے ایک معروف ماہر اور یونیورسٹی کالج لندن کے گلوبل ہیلتھ انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر بھی ہیں۔
'حقیقت کا سامنا کرنا ہی پڑے گا‘
پروفیسرکوسٹیلو نے کہا، ''برطانیہ میں اس وبا کی وجہ سے انسانی ہلاکتوں کی تعداد چالیس ہزار تک ہو سکتی ہے۔ اور ہمیں اس حقیقت کا سامنا کرنا ہی پڑے گا: کئی معاملات میں ہم نے بہت دیر کر دی تھی۔ لیکن اب اس وبا کے دوسرے مرحلے کے دوران ہم اس بات کو پھر بھی یقینی بنا سکتے ہیں کہ ہمارا ردعمل انتہائی سست رفتار نہ ہو۔‘‘
برطانیہ، یو کے اور انگلینڈ میں فرق کیا ہے؟
دنیا کے ایک بڑے حصے کو اپنی نوآبادی بنانے والے چھوٹے سے جزیرے کو کبھی برطانیہ، کبھی انگلینڈ اور کبھی یو کے لکھ دیا جاتا ہے۔ کیا ان ناموں کو متبادل کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے، اور کیا یہ ایک ہی ملک کا نام ہے؟
تصویر: picture-alliance/dpa/R.Peters
یونائیٹڈ کنگڈم (یو کے)
یو کے در حقیقت مملکت متحدہ برطانیہ عظمی و شمالی آئرلینڈ، یا ’یونائیٹڈ کنگڈم آف گریٹ بریٹن اینڈ ناردرن آئرلینڈ‘ کے مخفف کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی یو کے چار ممالک انگلینڈ، سکاٹ لینڈ، شمالی آئرلینڈ اور ویلز کے سیاسی اتحاد کا نام ہے۔
تصویر: Getty Images/JJ.Mitchell
برطانیہ عظمی (گریٹ بریٹن)
جزائر برطانیہ میں دو بڑے اور سینکڑوں چھوٹے چھوٹے جزائر ہیں۔ سب سے بڑے جزیرے کو برطانیہ عظمی کہا جاتا ہے، جو کہ ایک جغرافیائی اصطلاح ہے۔ اس میں انگلینڈ، سکاٹ لینڈ اور ویلز شامل ہیں۔ انگلینڈ کا دارالحکومت لندن ہے، شمالی آئرلینڈ کا بیلفاسٹ، سکاٹ لینڈ کا ایڈنبرا اور کارڈف ویلز کا دارالحکومت ہے۔
تصویر: Andy Buchanan/AFP/Getty Images
برطانیہ
اردو زبان میں برطانیہ کا لفظ عام طور پر یو کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ برطانیہ رومن لفظ بریتانیا سے نکلا ہے اور اس سے مراد انگلینڈ اور ویلز ہیں، تاہم اب اس لفظ کو ان دنوں ممالک کے لیے کم ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ زیر نظر تصور انگلینڈ اور ویلز کے مابین کھیلے گئے فٹبال کے ایک میچ کی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Rain
انگلینڈ
اکثر انگلینڈ کو برطانیہ (یو کے) کے متبادل کے طور پر استعمال کر دیا جاتا ہے، جو غلط ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ انگلینڈ جزائر برطانیہ کا سب سے بڑا ملک ہے۔ یا پھر اس لیے کہ انگلینڈ اور یو کے کا دارالحکومت لندن ہی ہے۔
تصویر: Reuters/J.-P. Pelissier
جمہوریہ آئرلینڈ اور شمالی آئرلینڈ
جزائر برطانیہ میں دوسرا بڑا جزیرہ آئرلینڈ ہے، جہاں جمہوریہ آئر لینڈ اور شمالی آئرلینڈ واقع ہیں ان میں سے شمالی آئرلینڈ برطانیہ کا حصہ ہے۔
زبان
انگریزی یوں تو جزائر برطانیہ میں سبھی کی زبان ہے لیکن سبھی کے لہجوں میں بہت فرق بھی ہے اور وہ اکثر ایک دوسرے کے بارے میں لطیفے بھی زبان کے فرق کی بنیاد پر بناتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
وجہ شہرت
سکاٹ لینڈ کے لوگ اپنی دنیا بھر میں مشہور اسکاچ پر فخر کرتے ہیں اور بیگ پائپر کی موسیقی بھی سکاٹ لینڈ ہی کی پہچان ہے۔ آئرلینڈ کی وجہ شہرت آئرش وہسکی اور بیئر ہے جب کہ انگلینڈ کے ’فش اینڈ چپس‘ مہشور ہیں۔
تصویر: Getty Images
اختلافات
یو کے یا برطانیہ کے سیاسی اتحاد میں شامل ممالک کے باہمی اختلافات بھی ہیں۔ بریگزٹ کے حوالے سے ریفرنڈم میں سکاٹ لینڈ کے شہری یورپی یونین میں شامل رہنے کے حامی دکھائی دیے تھے اور اب بھی ان کا کہنا ہے کہ بریگزٹ کی صورت میں وہ برطانیہ سے علیحدگی اختیار کر سکتے ہیں۔
تصویر: Andy Buchanan/AFP/Getty Images
یورپی یونین اور برطانیہ
فی الوقت جمہوریہ آئر لینڈ اور برطانیہ، دونوں ہی یورپی یونین کا حصہ ہیں۔ بریگزٹ کے بعد تجارت کے معاملات طے نہ ہونے کی صورت میں سب سے زیادہ مسائل شمالی آئرلینڈ اور جمہوریہ آئرلینڈ کی سرحد پر پیدا ہوں گے۔ برطانیہ کی خواہش ہے کہ وہاں سرحدی چوکیاں نہ بنیں اور آزادانہ نقل و حرکت جاری رہے۔
تصویر: Reuters/T. Melville
بریگزٹ کا فیصلہ کیوں کیا؟
برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی سے متعلق ریفرنڈم میں بریگزٹ کے حامی کامیاب رہے تھے۔ ان لوگوں کے مطابق یونین میں شمولیت کے باعث مہاجرت بڑھی اور معاشی مسائل میں اضافہ ہوا۔ ریفرنڈم کے بعد سے جاری سیاسی بحران اور یورپی یونین کے ساتھ کوئی ڈیل طے نہ ہونے کے باعث ابھی تک یہ علیحدگی نہیں ہو پائی اور اب نئی حتمی تاریخ اکتیس اکتوبر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R.Peters
10 تصاویر1 | 10
پارلیمانی کمیٹی کے اس اجلاس کو برطانیہ کے رائل کالج آف نرسنگ کی چیف ایگزیکٹیو ڈونا کِنیئر کی طرف سے بھی بریفنگ دی گئی۔
انہوں نے کہا کہ برطانیہ میں صحت عامہ کے شعبے میں کام کرنے والے صف اول کے کارکنوں کے کورونا ٹیسٹ کرنے کے حوالے سے بھی ابھی تک مسائل موجود ہیں۔
مریضوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ
برطانیہ میں کورونا وائرس کی وبا کے دوران اب تک ایک لاکھ تین ہزار افراد بیمار اور تیرہ ہزار آٹھ سو کے قریب ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس کے علاوہ وہاں تقریباﹰ سولہ سو مریضوں کی حالت تشویشناک ہے اور انہیں ہسپتالوں میں انتہائی نگہداشت کے شعبوں میں رکھا جا رہا ہے۔
برطانیہ میں اب تک کووِڈ انیس کی وبا کے باعث ملکی سطح پر ہلاکتوں کی شرح دو سو دو افراد فی ایک ملین شہری بنتی ہے۔
یورپی یونین کے اس سابق رکن ملک میں خود وزیر اعظم بورس جانسن بھی کووِڈ انیس کا شکار ہو گئے تھے اور کئی دنوں تک لندن کے ایک ہسپتال میں زیر علاج رہنے کے دوران وہ چند روز انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں بھی رہے۔ وزیر اعظم جانسن اب کافی حد تک صحت یاب اور واپس اپنی سرکاری رہائش گاہ پر منتقل ہو چکے ہیں۔ برطانیہ میں ولی عہد شہزادہ چارلس بھی کورونا وائرس سے متاثر ہو گئے تھے۔
م م / ع آ (روئٹرز، اے پی)
تخلیقی تنہائی: کورونا وائرس میں فن کاروں کی زندگی
آئیگور لیوٹ اور آئی وائی وائی جیسے موجودہ دور کے فنکار ہوں یا انیسویں صدی کے وکٹر ہوگو جیسے نام، تنہائی عرصہ دراز سے فن و تخلیق کو جنم دیتی آئی ہے۔
نئے کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران روسی نژاد جرمن پیانو نواز آئیگور لیوٹ آج کل ہر شام ٹویٹر پر لائیو کانسرٹ نشر کرتے ہیں۔ ان کی یہ کاوش ان کے مداحوں میں خاصی مقبول بھی ہو رہی ہے۔ اپنے وقت کو کارآمد بنانے اور اپنے مداحوں سے رابطے میں رہنے کا یہ لیوٹ کا انوکھا انداز ہے۔
تصویر: Igor Levit
ادب کا ایک نیا باب
کبھی پرندوں کے چہچہانے کی آواز، کبھی صبح کی نم ہوا تو کبھی کسی درخت کے تنے پر نشانات، معروف فرانسیسی مصنفہ لیلی سلیمانی اپنی قرنطینہ ڈائری میں وہ سب لکھ ڈالتی ہیں جو ان کی نگاہ سے گزرتا ہے۔ ان کی یہ ڈائری فرانسیسی اخبار ’لی موندے‘ میں شائع ہو رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Images/T. Camus
کام کیسے کیا؟ یہ بھی ایک آرٹ
کورونا وائرس کی عالمگیر وبا سے قبل انتیس سالہ الیگزینڈر اسکین نے خود کو برلن کی سیکساؤر گیلری میں پچاس دنوں کے لیے قید کر لیا تھا۔ اس دوران وہ ایک پینٹنگ پر کام کر رہے تھے۔ انہوں نے پچاس دنوں تک ہر روز آٹھ گھنٹے تک اپنی سرگرمیوں کو ریکارڈ کیا، جن میں حتی کہ وہ کھاتے اور سوتے ہوئے بھی نظر آئے۔ یہ پینٹنگ اب عالمی وبا کے بعد ہی فروخت ہو سکے گی۔
تصویر: Galerie Sexauer
نظر بندی کا ایک سال
روسی تھیٹر ڈائریکٹر کیریل سیریبرینیکوو خود ساختہ طور پر اٹھارہ ماہ کے لیے نظر بند رہے تاہم وہ اس دوران بہت کچھ کرتے رہے۔ اب وہ ایک ویڈیو میں لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ بندش میں وقت کو کیسے کارآمد بنایا جا سکتا ہے۔ سیریبرینیکوو کی نظر بندی ایک سال قبل ختم ہوئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/V. Vyatkin
بھارت میں مراقبہ
سربین فنکارہ مارینہ ابرامووچ ہر سال کے اختتام پر بھارت چلی جاتی ہیں۔ وہ یہ وقت تنہائی میں مراقبہ کر کے گزارتی ہیں۔ مارینہ کے بقول یہ جسم اور روح کو تروتازہ رکھنے کے لیے لازمی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/Invision/V. Le Caer
حراست میں بھی ہمت نہ ہاری
چینی فنکار آئی وائی وائی کو سن 2009 میں گرفتار کر کے شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اتنا تشدد کہ وہ ’سیریبرل ہیمرج‘کا شکار ہو گئے تھے۔ آئی وائی وائی نے اس وقت بھی اپنا کام جاری رکھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Sommer
آٹھ سال کے لیے نظر بند
شاعر، پینٹر اور فوٹو گرافر لو شیاباؤ کو چینی حکومت نے آٹھ سال کے لیے نظر بند رکھا۔ مگر اس نوبل انعام یافتہ فنکار نے ہمت نہ ہاری اور تخلیق جاری رکھی۔ بعد ازاں ان کے کئی فن پاروں کی نمائش برلن میں بھی ہوئی۔
تصویر: picture-alliance/SvenSimon/V. Essler
دور جدید کا روسی ادب، تنہائی میں تخلیق ہوا
دور جدید کے روسی ادب کے تخلیق کار شاعر الیگزینڈر پشکن سن 1830 میں چند ماہ کے لیے خود ساختہ نظر بندی میں چلے گئے تھے۔ ان کے اس اقدام کا مقصد ہیضے کی وبا سے بچنا تھا۔ اسی دور میں پشکن نے کئی کہانیاں، اشعار اور ناول لکھے۔