برطانیہ یورپی مذاکرات سے اخراج پر تیار، وزیر خارجہ
15 نومبر 2014
برطانوی وزیر خارجہ نے یہ بات لندن سے شائع ہونے والے اخبار ڈیلی ٹیلیگراف کے ساتھ بات چیت میں کہی۔ ان کے اس بیان کے بعد ان حقیقی امکانات میں قدرے اضافہ ہو گیا ہے کہ برطانیہ یورپی یونین کو خیرباد کہتے ہوئے اس بلاک سے اپنے اخراج کا فیصلہ بھی کر سکتا ہے۔
فیلپ ہیمنڈ نے ڈیلی ٹیلیگراف کو بتایا کہ اگر برسلز کی طرف سے یونین میں ’ٹھوس اور بامعنی اصلاحات‘ متعارف نہ کرائی گئیں تو برطانوی رائے دہندگان مستقبل میں ہونے والے ریفرنڈم میں یہ فیصلہ بھی دے سکتے ہیں کہ یورپی یونین میں برطانوی رکنیت ہی ختم کر دی جائے۔
وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے یہ وعدہ کر رکھا ہے کہ اگر ان کی قدامت پسند ٹوری پارٹی اگلے برس ہونے والے پارلیمانی انتخابات ایک بار پھر جیت گئی تو 2017ء میں برطانیہ میں ایک ایسا عوامی ریفرنڈم کرایا جائے گا، جس میں برٹش ووٹر یہ فیصلہ کر سکیں گے کہ لندن کو یورپی یونین میں آئندہ بھی شامل رہنا چاہیے یا برطانیہ کو اس بلاک سے نکل جانا چاہیے۔
کیمرون اس سلسلے میں ابھی تک اپنے ساتھی یورپی رہنماؤں کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ یورپی یونین سرحدی امور اور امیگریشن سے متعلق جامع اصلاحات متعارف کرائے۔
جرمن ذرائع ابلاغ کی ایک رپورٹ کے مطابق جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ابھی گزشتہ ہفتے ہی اپنے برطانوی ہم منصب کیمرون کو خبردار کیا تھا کہ وہ امیگریشن اصلاحات سے متعلق اپنی تجاویز کے باعث یورپی یونین کے ساتھ اشتراک عمل کے حوالے سے ایک ایسے مقام کے قریب ہوتے جا رہے ہیں جہاں سے ’واپسی ممکن نہیں‘ ہو گی۔
اس پس منظر میں وزیر خارجہ فیلپ ہیمنڈ نے جمعہ 14 نومبر کے روز برطانوی موقف پر زور دیتے ہوئے کہا کہ لندن حکومت جو کچھ کہہ رہی ہے، اس سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔ ہیمنڈ نے کہا، ’’اگر برطانیہ کی تجاویز پر غور نہ کیا گیا تو لندن اس فیصلے پر بھی تیار ہو گا کہ اٹھے اور مذاکرات کی میز کو خیرباد کہہ دے۔‘‘
فیلپ ہیمنڈ کے برطانوی روزنامے ڈیلی ٹیلیگراف کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے بیان کے مطابق، ’’ہمیں اس کے لیے تیار رہنا ہو گا۔ ایسی صورت میں یہ ہمارا فیصلہ نہیں ہو گا، کیونکہ اس عمل کی تکمیل پر برطانیہ میں ایک ریفرنڈم کا انعقاد بھی ہو گا۔‘‘
وزیر خارجہ ہیمنڈ نے اس بات کو خارج از امکان قرار دیا کہ لندن حکومت برسلز کے ساتھ ایسی کوئی بات چیت کرے گی، جس کا مقصد اس بارے میں کسی کوٹے کا تعین ہو کہ یورپی یونین کے رکن دیگر ملکوں سے کتنے تارکین وطن رہائش اور روزگار کے لیے برطانیہ جا سکتے ہیں۔