محقیقین نے دنیا بھر کے عجائب گھروں اور نجی افراد کے پاس موجود Yeti یا ’برفانی انسانوں‘ کی باقیات کا جائزہ لینے کے بعد کہا ہے کہ ان میں زیادہ تر محض ریچھ تھے۔
اشتہار
بدھ انتیس نومبر کے روز شائع ہونے والے ایک تحقیقی مقالے میں بتایا گیا ہے کہ Yeti، جنہیں برفیلے انسان یا پہاڑی انسان بھی کہا جاتا ہے، در حقیقت محض ریچھ تھے۔ سلسلہ کوہ ہمالیہ میں نیپال، بھوٹان اور تبت کے کئی علاقوں کے مکین ’پہاڑی انسانوں‘ کو ایک حقیقت سمجھتے ہیں تاہم سائنسدانوں کے نزدیک ان کی حقیقت محض افسانوی ہے۔
حال ہی میں سائنسدانوں نے دنیا کے مختلف عجائب گھروں اور نجی ملکیت میں موجود نو ایسے ہی ’برفانی انسانوں‘ کی باقیات کی ہڈیوں، دانتوں، پنجوں اور بالوں کے نمونے حاصل کر کے ان کا مفصل جائزہ لیا۔ اس تحقیق کے نتائج کے مطابق یہ باقیات زیادہ تر ریچھوں کی ایک نسل اور ایک کتے کی ہیں۔
سائنسی تحقیق کرنے والے گروپ کی سربراہ اور یونیورسٹی آف بفیلو کالج آف آرٹس اینڈ سائنس سے وابستہ ایسوسی ایٹ پرفیسر شارلٹ لُنڈکویسٹ کا کہنا تھا، ’’ہماری تحقیق اس بات کا عندیہ دیتی ہے کہ ’برفانی انسان‘ کے اس افسانوی کردار کا حیاتیاتی ماخذ در حقیقت مقامی ریچھوں میں پایا جاتا ہے۔‘‘
ان باقیات کا جائزہ لیے جانے کے بعد بتایا گیا ہے کہ جن باقیات کو ’برفانی یا پہاڑی انسان‘ سے منسوب کیا جا رہا ہے وہ در اصل کالے ایشیائی ریچھ، تبت کے بھورے ریچھ اور ہمالیہ میں پائے جانے والے بھورے ریچھ کی ہیں۔
رائل سوسائٹی جنرل کے ’پروسیڈنگز بی‘ میں شائع ہونے والا یہ تحقیقی مقالہ اب تک اس موضوع پر کی گئی تحقیق میں سب سے جامع ہے جس میں تبت، بھارت اور نیپال سے کالے، بھورے اور برفانی ریچھوں کے ڈی این اے کے نمونے بھی حاصل کیے گئے تھے۔
یٹی یا پہاڑی انسان کو سلسلہ کوہ ہمالیہ کے کئی ممالک کے باسی ایک حقیقت سمجھتے ہیں اور کئی افراد اور گروہ ان افسانوی جانور نما انسانوں کے قدموں کے نشانات دیکھنے کا دعویٰ بھی کر چکے ہیں۔
زمین پر ہی مریخ کے دورے
مریخ پر جانے کے لیے پرعزم سائنسدانوں کا خواب پورا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ لیکن ان کی پہلی منزل زمین ہی ہو گی۔
تصویر: R. Dückerhoff
شاندار نظارہ
ہوائی کے جزیرے پر آتش فشاں ماؤنا لوآ کی سنگلاخ چٹانوں پر مریخ کا ایک ’مصنوعی تجرباتی سفر‘ کرنے کی تیاری کی گئی ہے۔ اٹھائیس اگست سے شروع ہونے والے اس غیر حقیقی سفر میں ایک سال کے دوران چھ مختلف افراد تجربات کریں گے۔ یہ سائنسدان ایک ایسے گنبد نما خیمے میں رہیں گے، جس کے ارد گرد پتھروں کے علاوہ کچھ نہیں ہو گا۔
تصویر: R. Dückerhoff
مریخ پر قیام
اس مصنوعی مشن HI-SEAS 4 میں جرمن خاتون سائنسدان کرسٹیانے ہائینِکے بھی خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔ امریکی خلائی ادارے ناسا کی مالی معاونت سے تیار کردہ اس مشن میں متعدد خلا باز مختلف قسم کی سرگرمیاں مکمل کریں گے۔ اس مشن کا مقصد یہ جاننا ہے کہ مستقبل میں مریخ پر جانے والے خلا بازوں کے مشترکہ مسائل کی وجہ سے ان کا مشن کس حد تک متاثر ہو سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Schmidt
آرام دہ رہائش
پانچ امریکی اور یورپی سائنسدانوں کے ہمراہ جرمن سائنسدان کرسٹیانے ہائینِکے بھی اس خیمے میں وقت گزاریں گی۔ اس آرام دہ رہائش گاہ کا قطر گیارہ میٹر ہے۔ ہفتے میں دو مرتبہ یہ سائنسدان اپنا خلائی لباس پہن کر مصنوعی حالات میں اپنے خیمے سے باہر نکل کر تجربات کریں گے۔ باقی تمام وقت یہ اسی خیمے میں ہی گزاریں گے۔ یہ باہر کی دنیا سے صرف ریکارڈ شدہ پیغامات اور ای میل کے ذریعے ہی رابطہ کر سکیں گے۔
تصویر: R. Dückerhoff
سرخ سیارہ، بے جان سیارہ
ہوائی یونیورسٹی کے سائنسدانوں کے مطابق آتش فشاں ماؤنا لوآ مریخ کے اس خیالی مشن کے لیے ایک بہترین مقام ہے۔ ان دونوں مقامات پر نباتات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جنگلی حیات بھی موجود نہیں اور آپ کہیں پانی بھی نہیں دیکھ سکتے۔
تصویر: NASA/JPL-Caltech/MSSS
خطرناک سفر
حقیقی مشن کے دوران سرخ سیارے پر پہنچنے کے لیے ہی آٹھ ماہ درکار ہوں گے۔ سائنسدان ایسے کسی مشن سے پہلے بھرپور تیاری کے علاوہ یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ یہ طویل سفر خلا بازوں پر کس طرح کے ممکنہ اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ خلا باز تنہائی کا مقابلہ کیسے کریں گے؟ کوئی باہمی تنازعہ پیدا ہوا تو کیا کریں گے؟ سائنسدانوں کو تحفظات کا سامنا ہے کہ اس طویل مشن سے خلا بازوں میں ڈپریشن اور سستی بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔
تصویر: imago/United Archives
مریخ 500
’مارس 500‘ نامی ایک اسٹڈی ماسکو میں کی گئی تھی۔ 2010ء اور 2011ء کے دوران کیے گئے اس مطالعے میں بھی مریخ کا ایک مصنوعی مشن مکمل کیا گیا تھا۔ 520 دنوں کے اس طویل مشن میں مریخ سے واپسی کی تصوراتی پرواز بھی شامل تھی۔ خلا بازوں کی تنہائی کے حوالے سے یہ طویل ترین مطالعہ تھا۔ نتائج کے مطابق چند خلا باز مصنوعی حالات کی وجہ سے کچھ ڈپریشن کا شکار ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ESA
اونچے گلیشیئر پر
گلیشیئر پر مصنوعی تجرباتی مریخ مشن Amadee-15 کے دوران نتائج کچھ مختلف رہے۔ اس مشن کے دوران خلا بازوں نے آسٹریا میں ایلپس کے پہاڑی سلسلے میں انتہائی اونچائی پر واقع برفانی تودوں میں وقت گزارا۔ دو ہفتے طویل اس مصنوعی مشن کو موسم سرما میں مکمل کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Röder
صحرا میں
خلائی امور کے حوالے سے آگاہی کے منصوبے چلانے والی ’مارس سوسائٹی‘ نامی غیر سرکاری تنظیم نے تجربات کے لیے تین سینٹرز بنائے ہیں۔ ان میں سے ایک صحرائی تحقیقی مرکز امریکا کی ریاست یُوٹاہ کے صحرائی علاقوں میں بھی بنایا گیا ہے۔ ایسا ہی ایک چوتھا سینٹر آسٹریلیا کے شمالی ایڈیلڈ علاقے میں قائم کرنے کا منصوبہ بھی بنایا جا رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Frey
دنیا کا سب سے الگ تھلگ علاقہ
مریخ کو بے جان، سرد اور انتہائی الگ تھلگ سیارہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہی خصوصیات انٹارکٹیکا کی بھی ہیں۔ اسی لیے مریخ کے سفر کی تیاریوں کے سلسلے میں اس براعظم پر بھی ایک سینٹر بنایا گیا ہے۔ وہاں زندگی انتہائی مشکل ہے، بالخصوص تاریخ موسم سرما کے دوران۔ سائنسدان وہاں قائم تجربہ گاہ میں خلا بازوں پر تنہائی کے اثرات کے علاوہ نفسیاتی دباؤ کی کیفیت اور نیند کے اوقات میں خلل کا معائنہ بھی کرتے ہیں۔
ٹیکنالوجی کے بغیر کوئی انسان نہ تو مریخ پر رہ سکتا ہے اور نہ ہی پانی میں۔ اسی لیے سائنسدانوں نے سمندر کی گہرائیوں میں بھی تجربہ گاہیں قائم کی ہیں، جہاں نہ روشنی ہے اور نہ ہی ہوا۔ ناسا نے فلوریڈا میں کی لارگو نامی جزیرے سے منسلک پانیوں میں 62 فٹ کی گہرائی میں ایک تجرباتی اسٹیشن قائم کیا ہے۔ وہاں تین ہفتوں کے لیے مختلف افراد کو بھیجا جاتا ہے اور ان پر مصنوعی ماحول کا اثر جانچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/NASA
ہر شے کا تجربہ ضروری
مریخ کے سفر پر تجربات کے علاوہ محققین یہ جاننے کی کوشش میں بھی ہیں کہ اس سرخ سیارے پر قیام کے دوران انسانوں پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ جرمن ایئر سپیس سینٹر میں Envihab نامی ایک ایسی طبی تجربہ گاہ بھی بنائی گئی ہے جہاں یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کسی دوسرے سیارے کا ماحول انسان پر کیا کیا اثرات مرتب کر سکتا ہے۔
تصویر: DW/F. Schmidt
خوراک کا انتظام
مریخ پر کاشت کاری ممکن نہیں ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر انسان اس بے جان سیارے پر طویل قیام کرتے ہیں تو وہ کیا کھائیں گے؟ Envihab میں سرگرم سائنسدان اپنے تجربات میں یہ جاننے کی کوشش میں ہیں کہ وہ ایسا کون سا پودا ہے، جو گلاس کے مرتبان میں نشو ونما پا سکتا ہے، تاکہ مریخ پر قیام کرنے والوں کو تازہ خوراک فراہم ہو سکے۔
تصویر: DW/F.Schmidt
مریخ پر جانے کی بے قراری
ترقی یافتہ ممالک مریخ مشن کو عملی جامہ پہننانے کے حوالے سے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ شاید 2030ء یا 2035ء تک مریخ پر جانا ممکن ہو سکتا ہے۔ تاہم فی الحال انسانوں کو اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لیے زمین پر ہی تجربات جاری رکھنا ہوں گے۔
تصویر: Reuters/S. Audette
13 تصاویر1 | 13
پروفیسر لُنڈکویسٹ کے مطابق دوران تحقیق اپنی بقا کے خطرے سے دوچار اس جانور کے بارے میں کئی اہم معلومات بھی سامنے آئی ہیں۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا، ’’تبت کے سطح مرتفع پر پائے جانے والے بھورے ریچھ اور مغربی ہمالیہ کے پہاڑوں میں رہنے والے بھورے ریچھوں کی نسلیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔‘‘
اس مطالعے سے حاصل کردہ نتائج کی بنیاد پر خاتون پروفیسر نے بتایا کہ ریچھوں کی یہ دو مختلف اقسام ساڑھے چھ لاکھ برس قبل گلیشیئر پگھلنے کے عمل کے باعث ایک دوسرے سے جدا ہو گئی تھیں۔
نقطہء انجماد سے 55 درجے نیچے اور سال کا طویل حصہ اندھیرے میں۔ انٹارکٹیک خطے میں تحقیق کرنے والوں کے لیے چیلنجز بے شمار ہوتے ہیں۔ مگر بہت سی مثبت چیزیں بھی ان کے سامنے ہوتی ہیں۔
تصویر: British Antarctic Survey
آگے بڑھتی سائنس
جب ہیلی ششم پہلی بار انٹارکٹک پہنچایا گیا، تو یہ یہاں دنیا کی پہلی تجربہ گاہ تھا۔ یہاں رہائش کی بہتر سہولیات اور بہترین تجربہ گاہوں کے قیام اپنی جگہ، مگر یہ بڑی بڑی تنصیبات اپنی جگہ چھوڑنے میں دیر نہیں لگاتیں۔
تصویر: British Antarctic Survey
تبدیلی کے واضح اشارے
ہیلی ششم برف میں پڑنے والی بڑی دراڑ کی وجہ سے جگہ تبدیل کرنے پر مجبور ہے۔ یہ دراڑ مسلسل بڑی ہو رہی ہے۔ فی الحال اس اڈے کو خطرہ نہیں، مگر خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ یہ برفیلی چٹان مزید ٹوٹے گی۔
تصویر: British Antarctic Survey
خلائی موسمیاتی اسٹیشن
انٹارکٹیک میں ہیلی ششم کا کام مختلف انواع کی معلومات فراہم کرنا ہے، جن میں اوزون کی تہہ کا معاملہ، قطبی ماحول کی کیمسٹری اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا معاملہ شامل ہے۔ یہ پہلی تحقیق گاہ ہے، جس نے اوزون کی تہہ میں سوراخوں کا پتا چلایا تھا۔
اس تجربہ گاہ کے بیچوں بیچ یہ بڑا سرخ کنٹینر سائنس دانوں کی بیٹھک ہے۔ یہاں موسم گرما میں قریب 70 جب کہ موسم سرما میں قریب 16 محقق موجود ہوتے ہیں۔ دنیا کے اس دور افتادہ مقام پر یہ جگہ ان سائنس دانوں کو کام ایک طرف رکھ کر مل بیٹھ کر گفت گو کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
تصویر: British Antarctic Survey
تنصیب کی بہترین نشستیں
سال میں 105 دن ایسے ہوتے ہیں، جب یہاں مکمل اندھیرا ہوتا ہے، جب کہ ہیلی ششم اس وقت بھی 24 گھنٹے کام کرتا ہے۔ دنیا سے بالکل الگ تھلگ ہونے کے باوجود ایسا نہیں کہ یہاں زندگی کی چہل قدمی سنائی نہیں دیتی۔
تصویر: British Antarctic Survey
مربوط سرگرمیاں
یہ تجربہ گاہ آٹھ حصوں پر مبنی ہے۔ یہ تمام حصے خصوصی ہائیڈرولک ٹانگوں پر کھڑے ہیں۔ جب اسے تنصیب کو حرکت دینا ہو، تو ہر حصے کو الگ الگ کھینچا جا سکتا ہے۔ اس طرح باآسانی یہ تجربہ گاہ براعظم بھر میں کھسکائی جا سکتی ہے۔
تصویر: British Antarctic Survey
انتہائی سرد موسم
خوب صورت نظارے اور دلچسپ تحقیق ایک طرف مگر یہاں کا ماحول انسانی زندگی کے لیے انتہائی خطرناک بھی ہے۔ موسم سرما میں یہاں عمومی درجہ حرارت منفی بیس ہوتا ہے اور کبھی کبھی منفی 55 تک پہنچا جاتا ہے، جب کہ آس پاس کا سمندر منجمد ہو جاتا ہے۔