برقعے سے متعلق متنازعہ بیان: بورس جانسن کے خلاف چھان بین
9 اگست 2018
برطانوی میڈیا کے مطابق سابق وزیر خارجہ بورس جانسن کے خلاف تحقیقات کی جائیں گی کہ آیا وہ پارٹی ضوابط کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ انہیں برقعہ پوش مسلم خواتین سے متعلق ایک متنازعہ بیان پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔
تصویر: Getty Images/F. Usyan
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے ایوننگ سٹینڈرڈ نیوز پیپر کے حوالے سے بتایا ہے کہ برطانیہ کی حکمران قدامت پسند سیاسی جماعت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ سابق وزیر خارجہ بورس جانسن کے خلاف تحقیقات کرے گی۔ جانسن نے اپنے ایک حالیہ بیان میں برقعہ پہننے والی مسلم خواتین کے بارے میں متنازعہ الفاظ کہے تھے۔
اس تناظر میں جمعرات کے دن پارٹی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا کہ یہ جاننے کی کوشش کی جائے گی کہ آیا اس بیان سے جانسن نے پارٹی کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی تو نہیں کی۔ تاہم اس مجوزہ تحقیقاتی عمل کے حوالے سے حکمران پارٹی کی طرف سے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔
قبل ازیں برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے نے منگل کو کہا تھا کہ بورس جانسن کو اپنے اس بیان پر معافی مانگنا چاہیے تاہم جانسن نے اپنے ناقدین کی طرف سے تنقید کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔
مے کے مطابق جانسن کے اس بیان نے ’واضح طور پر تکلیف پہنچائی ہے‘ اور وہ پارٹی چیئرمین برینڈن لوئیس سے اتفاق کرتی ہیں کہ اس پر سابق وزیر خارجہ کو معافی مانگنا چاہیے۔
بورس جانسن کے اس بیان پر انہیں برطانیہ بھر میں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہےتصویر: picture-alliance/empics/PA Wire
برطانوی وزیر اعظم مے نے کہا، ’’اہم بات یہ ہے کہ کیا ہم یقین رکھتے ہیں کہ لوگوں کو اپنے مذہبی عقائد پر عمل کرنے کی اجازت ہونا چاہیے۔‘‘ گزشتہ پیر کے دن بورس جانسن نے ڈیلی ٹیلیگراف میں لکھے گئے اپنے ایک آرٹیکل میں کہا تھا کہ ایسی خواتین جو اپنا پورا چہرہ چھپانے کی خاطر برقعہ پہنتی ہیں، وہ یا تو ’بینک لوٹنے والوں‘ کی طرح نظر آتی ہیں یا پھر کسی ’لیٹر باکس‘ کی طرح۔ ان کے اس بیان کو اسلاموفوبیا سے منسلک کیا جا رہا ہے۔
تاہم اس سابق برطانوی وزیر نے، جو ماضی میں بھی اپنے بیانات کی وجہ سے کئی تنازعات کا باعث بن چکے ہیں، اپنے اس بیان کو واپس لینے سے انکار کر دیا ہے۔ گزشتہ ماہ بریگزٹ پلان کے بارے میں وزیر اعظم ٹریزا مے سے اختلافات کے باعث وزیر خارجہ کے عہدے سے مستعفی ہونے والے جانسن نے کہا ہے کہ ’یہ مضحکہ خیز ہے کہ ان کے موقف پر حملہ کیا جا رہا ہے‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ مناسب نہیں کہ مشکل موضوعات پر بات کرنے سے منع کر دیا جائے‘۔
بورس جانسن نے مزید لکھا، ’’اگر ہم لبرل اقدار کے لیے آواز اٹھانے میں ناکام ہوئے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم انتہا پسندوں اور رجعت پسندوں کو پنپنے کا موقع دے رہے ہیں۔‘‘ اس آرٹیکل میں جانسن نے کہا تھا کہ وہ مکمل چہرے کے نقاب پر پابندی کے خلاف ہیں لیکن ’یہ بھی مضحکہ خیز ہو گا کہ خواتین ایسے لباس میں گھومیں، جس میں وہ لیٹر باکس کی طرح دکھائی دیں‘۔
جانسن کے اس بیان پر انہیں برطانیہ بھر میں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ تاہم کچھ لوگ اس بیان کا دفاع بھی کر رہے ہیں۔ قدامت پسند رکن پارلیمان ناڈین ڈورس کے بقول بورس جانسن کا بیان اتنا شدید نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، ’’لبرل اور ترقی پسند معاشروں میں خواتین کو ایسے لباس پہننے پر مجبور نہیں کیا جانا چاہیے، جن سے ان کی خوبصورتی اور زخم چھپ جائیں۔‘‘
ع ب / م م / خبر رساں ادارے
برقعہ اور نقاب کن یورپی اور مسلم ممالک میں ممنوع ہے؟
ہالینڈ میں یکم اگست سے چہرے کے مکمل نقاب پر پابندی پر عملدرآمد شروع ہو گیا ہے۔ کچھ دیگر یورپی ممالک پہلے ہی اسی طرح کے اقدامات اٹھا چکے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ کچھ مسلم ممالک نے بھی برقع پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Kelly
چودہ برسوں کی طویل بحث
چودہ برسوں کی طویل بحث کے بعد آخر کار یکم اگست سن دو ہزار انیس سے ہالینڈ میں خواتین کے برقعے یا چہرے کے مکمل نقاب پر پابندی کے متنازعہ قانون پر عملدرآمد شروع ہو گیا۔ گزشتہ جون میں ڈچ قانون سازوں نے اس قانون کی منظوری دی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Lampen
فرانس، نقاب پر پابندی لگانے والا پہلا ملک
فرانس وہ پہلا یورپی ملک ہے جس نے عوامی مقامات پر خواتین کے برقعہ پہننے اور نقاب کرنے پر پابندی عائد کی تھی۔ پیرس حکومت نے یہ بین اپریل سن 2011 سے لگا رکھا ہے۔ اس پابندی سے پردہ کرنے والی قریب دو ہزار مسلم خواتین متاثر ہوئی تھیں۔
تصویر: dapd
بیلجیم میں بھی پردہ ممنوع
فرانس کے نقاب اور برقعے کی ممانعت کے صرف تین ماہ بعد جولائی سن 2011 میں بیلجیم نے بھی پردے کے ذریعے چہرہ چھپانے پر پابندی لگا دی۔ بیلجیم کے قانون میں چہرہ چھپانے والی خواتین کو نقد جرمانے سمیت سات دن تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
آسٹریا میں نقاب پر پابندی کے قانون کی منظوری
خواتین کے نقاب پر پابندی کا قانون آسٹریا میں سن 2017 اکتوبر میں منظور کیا گیا۔ اس قانون کی رُو سے عوامی مقامات میں چہرے کو واضح طور پر نظر آنا چاہیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
پردے پر پابندی بلغاریہ میں بھی لیکن استثنا کے ساتھ
ہالینڈ کی طرح بلغاریہ نے بھی چہرہ چھپانے پر پابندی سن 2016 میں عائد کی تھی۔ خلاف ورزی کرنے والی خاتون کو ساڑھے سات سو یورو تک کا جرمانہ بھرنا پڑ سکتا ہے۔ تاہم عبادت گاہوں، کھیل کے مقامات اور دفاتر میں اس پابندی سے استثنا حاصل ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Sabawoon
ڈنمارک بھی
ڈنمارک میں چہرہ چھپانے اور برقعے پر پابندی یکم اگست سن 2018 سے نافذالعمل ہوئی۔ گزشتہ برس مئی میں ڈینش پارلیمان نے اس قانون کو اکثریت سے منظور کیا تھا۔ اس قانونی مسودے کی منظوری کے بعد ڈینش حکومت کی طرف سے کہا گیا تھا کہ اس پابندی کا ہدف کوئی مذہب نہیں ہے۔
تصویر: Grips Theater/David Balzer
شمالی افریقی ملک مراکش میں پابندی
مراکش نے2017 میں برقع یا چہرے کو مکمل طور پر ڈھانپنے والے ملبوسات کی پروڈکشن پر پابندی عائد کی تھی۔ اس مسلم اکثریتی ملک میں بھی اس پابندی کی وجہ سکیورٹی تحفظات بتائے گئے تھے۔ تب حکومت کا کہنا تھا کہ ڈاکو اپنی مجرمانہ کارروائیوں کے لیے پردے کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ مقامی میڈیا نے رپورٹ کیا تھا کہ اس لباس پر بھی پابندی عائد کر دی گئی تھی لیکن حکومت کی طرف سے اس کی تصدیق نہیں کی گئی تھی۔
تصویر: picture alliance/blickwinkel/W. G. Allgoewer
چاڈ میں برقع پر پابندی
افریقی ملک چاڈ میں جون سن دو ہزار پندرہ میں ہوئے دوہرے خود کش حملوں کے بعد مکمل چہرے کے پردے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ تب حکومت نے کہا تھا کہ شدت پسند تنظیم بوکو حرام کے جنگجوؤں نے ان حملوں کو کامیاب بنانے کے لیے پردے کو بہانہ بنایا تھا۔ اس ملک کی پچاس فیصد سے زائد آبادی مسلمان ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
تیونس میں سکیورٹی تحفظات
تیونس میں جون سن دو ہزار انیس میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں کے بعد ملکی صدر نے چہرے کو مکمل طور پر ڈھاانپنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس مسلم ملک میں اس پابندی کی وجہ سکیورٹی تحفظات بنے تھے۔
تصویر: Taieb Kadri
تاجکستان، کچھ چھپانے کی ضرورت نہیں
وسطی ایشیائی ملک تاجکستان میں ستمبر سن دو ہزار سترہ میں پہلے سے موجود ایک قانون میں ترمیم کے ذریعے مقامی ملبوسات کو فروغ دینے پر زور دیا گیا تھا۔ اس مسلم اکثریتی ملک میں اس قانون کے تحت چہرے کا مکمل پردہ یا برقع ممنوع قرار دے دیا گیا تھا۔ تاہم اس قانون کی خلاف ورزی پر کوئی سزا یا جرمانہ نہیں رکھا گیا تھا۔