برقعے پر پابندی: آسٹرین پولیس متذبذب، ’شارک مچھلی‘ پریشان
شمشیر حیدر afp/DW
10 اکتوبر 2017
آسٹریا میں ’برقعے پر پابندی‘ یعنی پورا چہرہ چھپانے کے خلاف بنائے گئے نئے قوانین کے اطلاق کے بعد اس کا پہلا شکار ایک ایسا شخص بنا جو ایک کمپنی کی تشہیری مہم کے لیے شارک مچھلی کا کاسٹیوم پہنے ہوئے تھا۔
اشتہار
تشہیری مقاصد کے لیے کسی خاص کاسٹیوم میں ملبوس افراد کا شاپنگ مالز یں دکھائی دینا آسٹریا میں بھی معمول کی بات ہ۔ لیکن ’برقعے پر پابندی‘ کے نئے آسٹرین قوانین نے اس ملک میں ایک نئی پریشانی پیدا کر دی ہے۔ ایک تازہ واقعے میں ’میک شارک‘ نامی ایک نئے اسٹور کی تشہیر کرنے کے لیے شارک مچھلی کے کاسٹیوم میں ملبوس شخص بھی اس قانون کی زد میں آ گیا۔
اس واقعے کے بعد ملکی دارالحکومت ویانا میں پولیس کے ایک ترجمان نے ایک پبلک ریڈیو کو دیے گئے انٹرویو میں کہا، ’’یہ نیا قانون ہے اور یقینی طور پر اس کے اطلاق سے متعلق غیر واضح امور کی وضاحت ابھی کی جانا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ ماضی میں اس قسم کے کسی قانون کی کوئی مثال نہیں ہے۔ اس لیے بھی اس کے فوری اطلاق میں کچھ باتیں وضاحت طلب ہیں۔‘‘
یہ سال پناہ کے متلاشیوں کا سال رہا
اس سے قبل کبھی بھی اتنی بڑی تعداد میں لوگ پناہ کی تلاش میں نہیں نکلے جتنے سال 2015ء کے دوران۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد نے جرمنی اور یورپ کا رخ کیا۔ سال رواں کے دوران دل ہلا دینے والی کچھ تصاویر۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Licovski
منزل مقصود
یہ شامی نوجوانوں کا ایک گروپ ہے، جو اپنے سفر کا خطرناک ترین مرحلہ عبور کر تے ہوئے یونان پہنچا ہے۔ یورپی یونین میں داخل ہو جانے کے باوجود یہ ابھی اپنی منزل پر نہیں پہنچ سکے ہیں۔ یہ لوگ مغربی یورپی ممالک جانا چاہتے ہیں۔ اس سال کے دوران زیادہ تر افراد نے جرمنی اور سویڈن کا رخ کیا۔
تصویر: Reuters/Y. Behrakis
بحیرہٴ روم کے ذریعے
بحیرہٴ روم کے ذریعے یورپ تک پہنچنا جان جوکھوں میں ڈالنے کے برابر ہے۔ اس سفر کے دوران متعدد کشتیاں غرقاب ہو چکی ہیں۔ یہ شامی باپ اور اس کے بچے خوش قسمت تھے کہ انہیں جزیرے لیسبوس کے پاس یونانی مچھیروں کی ایک کشتی نے ڈوبنے سے بچا لیا۔
تصویر: Reuters/Y. Behrakis
دنیا کو ہلا دینے والی تصویر
تین سالہ ایلان کردی اپنے اس سفر کے دوران دنیا سے ہی ہجرت کر گیا۔ وہ اپنے بھائی اور والدہ کے ساتھ بحیرہٴ ایجیئن میں یونانی جزیرے کوس پہنچنے کی کوشش میں ڈوب گیا۔ اس کی لاش ترک علاقے بودرم کے ایک ساحل سے ملی تھی۔ یہ تصویر کچھ ہی دیر میں پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ پر جاری ہوئی اور اس نے پوری دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
تصویر: Reuters/Stringer
پناہ گزین اور سیاح
پناہ کے متلاشیوں کی ایک بڑی تعداد یونان کے کوس جزیرے پر پہنچتی ہے۔ یہ علاقہ ترکی سے بہت ہی قریب ہے۔ یہاں کے ساحلوں پر عام طور پر سیاح ہوتے ہیں لیکن وقتاً فوقتاً اب مہاجرین کے مختلف گروپ بھی یہاں پہنچتے ہیں، جیسے پاکستانی شہریوں کا یہ گروپ، جسے یونان کی امدادی تنظیموں نے محفوظ طریقے سے ساحل پر پہنچایا ہے۔
تصویر: Reuters/Y. Behrakis
افراتفری
کوس پہنچ کر بہت سارے پناہ گزینوں کی زندگی ایک طرح سے رک سی جاتی ہے۔ یہ لوگ اندراج کے بعد ہی جزیرے سے باہر جا سکتے ہیں۔ موسم گرما میں یہاں حالات اس وقت کشیدہ ہو گئے تھے، جب حکام نے پناہ گزینوں کو ایک اسٹیڈیم میں بند کر دیا تھا۔ اس دوران انہیں رجسٹریشن کے لیے طویل انتظار کرنا پڑا تھا اور شدید گرمی کے باوجود انہیں پانی بھی مہیا نہیں کیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/Y. Behrakis
یورپی مسائل
یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر موجود پولیس کسی کو بھی آگے بڑھنے نہیں دے رہی تھی اور ان مجبور افراد میں اپنے والدین سے بچھڑنے والے بلکتے ہوئے بچے بھی شامل تھے۔ اس تصویر کو یونیسیف کی جانب سے’’سال کی اہم ترین تصویر‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ یہ تصویر مہاجرین کے معاملے میں ایک کشمکش میں مبتلا یورپ کی عکاسی کر رہی ہے
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Licovski
کوئی پرسان حال نہیں
موسم سرما کے دوران ہنگری انتظامیہ پناہ گزینوں کے لیے اقدامات کرنے اور نسلی امتیاز کے واقعات کو روکنے میں مکمل طور پر نا اہل ثابت ہوئی۔ دارالحکومت بوڈاپیسٹ کا ریلوے اسٹیشن پناہ گزینوں کا مسکن بن گیا کیونکہ حکومت نے ان کے آگے سفر کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس کے بعد بہت سے لوگ پیدل ہی جرمنی کی جانب چل پڑے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
جرمنی اور آسٹریا کا اہم اعلان
پانچ ستمبر کی رات جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور آسٹریا کے ان کے ہم منصب ویرنر فیمان کی جانب سے مشترکہ طور پر اپنی اپنی سرحدیں کھولنے کا اعلان سامنے آیا۔ اس کے ساتھ ہی پناہ گزینوں کا پیچیدہ افسر شاہی طریقہٴ کار کے بغیر سفر کرنا آسان ہو گیا۔ ان دنوں کے دوران کئی خصوصی بسین اور ٹرینیں میونخ اور ویانا پہنچتی رہیں۔
تصویر: picture alliance/landov/A. Zavallis
پناہ گزین ’خوش آمدید‘
چانسلر انگیلا میرکل کے اس اعلان کے ساتھ ہی ہزاروں کی تعداد میں پناہ گزین جرمنی پہنچ گئے۔ ستمبر کے پہلے اختتام ہفتہ پر میونخ پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد تقریباً بیس ہزار رہی۔ اس موقع پر میونخ کے ریلوے اسٹیشن پر امدادی کارکنوں نے آنے والے افراد کا پرجوش انداز میں استقبال کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Stollarz
چانسلر میرکل کے ساتھ سیلفی
چانسلر میرکل کو مہاجرین سے متعلق ان کی پالیسی پر تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا تاہم وہ اپنے موقف پر ڈٹی رہیں۔ ان کا ایک بیان ’’ہم اس مسئلے پر قابو پا لیں گے‘‘ ایک نعرہ سا بن گیا۔ جرمنی میں ایک مہاجر کیمپ کے دورے کے موقع پر ایک پناہ گزین کی جانب سے چانسلر کے ساتھ یہ سیلفی تصویر کافی مقبول ہوئی۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
اپنی کہانی تصویر کی زبانی
ستمبر کے آخر میں جرمن پولیس کی جانب سے ایک انتہائی جذباتی تصویر جاری کی گئی۔ یہ ایک پناہ گزین بچی کی تخلیق تھی، جو اس نے پاساؤ نامی شہر کی پولیس کو بطور تحفہ پیش کی تھی۔ اس تصویر میں اس نے اس سفر کے دوران کی مشکلات بیان کی ہیں اور یہ بتایا ہے کہ وہ جرمنی پہنچنے پر کتنی خوش ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Bundespolizei
سلسلہ ابھی جاری ہے
اکتوبر کے آخر تک تقریباً ساڑھے سات لاکھ افراد پناہ کی تلاش میں جرمنی میں داخل ہوئے اور یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔ بلقان ممالک نے اپنی سرحدیں بند کر دی ہیں۔ وہ صرف شامی، عراقی اور افغانی باشندوں کو آگے جانے کی اجازت دے رہے ہیں۔ دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے کچھ پناہ گزینوں نے احتجاج کے طور پر اپنے لب سی لیے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Licovski
12 تصاویر1 | 12
آسٹریا میں عوامی مقامات پر پورا چہرہ چھپانے پر پابندی کے قانون کا اطلاق یکم اکتوبر سے کیا گیا تھا۔ اس قانون کو عوامی سطح پر ’برقعہ بین‘ یا ’برقعے پر پابندی‘ قرار دیا جاتا ہے لیکن ممکنہ طور پر کسی ’امتیازی سلوک‘ کے مقدمے سے بچنے کے لیے حکومت نے اس قانون میں کسی بھی طرح سے مکمل چہرہ چھپانے پر پابندی عائد کی ہے۔ اس پابندی کے مطابق ہسپتالوں میں ڈاکٹروں اور مریضوں کے لیے استعمال ہونے والا ماسک تک بھی صرف ہسپتال کی حدود کے اندر ہی پہنا جا سکتا ہے جب کہ کسی عوامی مقام پر ایسا ماسک پہننا بھی ایک قابل سزا جرم ہے۔
پولیس اہلکاروں کے لیے بھی یہ قانون واضح نہیں ہے۔ ’میک شارک‘ نامی الیکٹرونکس اسٹور کی تشہیر کے لیے شارک کے کاسٹیوم میں ملبوس شخص کو جرمانہ کیے جانے کے علاوہ اطلاعات کے مطابق ایک پولیس اہلکار نے ایک سائیکل سوار لڑکی کو بھی اسی قانون کے تحت روکا، اس لڑکی نے محض اسکارف پہن رکھا تھا۔
آسٹرین وزارت داخلہ کے ترجمان کارل ہائنس گرُنڈبوئک کے مطابق قانون سازی کرتے وقت اس بات کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا کہ کب اسکارف پہنا جا سکتا ہے اور کب نہیں۔ گرُنڈبوئک کے مطابق کوئی مرکزی ریکارڈ نہ ہونے کے سبب یہ بھی معلوم نہیں کہ اب تک اس قانون کے تحت کتنے افراد کو جرمانہ کیا جا چکا ہے۔