برقی گاڑیوں میں 80 روز میں دُنیا کا سفر
1 ستمبر 2010اِس ریس میں چار براعظموں کی پانچ ٹیمیں شرکت کر رہی ہیں، جو اپنے اِس 80 روزہ سفر کے دوران برلن، شنگھائی اور لاس اینجلس سمیت دُنیا کے ایک سو پچاس سے زیادہ شہروں سے ہو کر گزرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ اپنے اِس سفر کے دوران یہ ٹیمیں توانائی کے قابلِ تجدید ذرائع کی تشہیر کریں گی۔
یہ پانچ ٹیمیں تحفظِ ماحول کے ایسے علمبرداروں پر مشتمل ہیں، جو اپنی بجلی سے چلنے والی اور یوں سرے سے کوئی دھواں نہ چھوڑنے والی موٹر گاڑیوں کے ذریعے تیس ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتے ہوئے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ دُنیا کو توانائی کے معدنی ذخائر بتدریج ترک کرتے ہوئے توانائی کے قابلِ تجدید ذرائع اپنانے چاہئیں۔ اس ریس میں سوئٹزرلینڈ، جرمنی، آسٹریلیا اور جنوبی کوریا کی ٹیمیں بھی حصہ لے رہی ہیں۔
’زیرو ریس‘ کہلانے والی یہ ریس منظم کرنے کا سہرا سوئٹزرلینڈ کے ایک اسکول ٹیچر لُوئی پالمر کے سر ہے۔ یہ وہی لُوئی پالمر ہیں، جنہوں نے دو سال پہلے شمسی توانائی سے چلنے والی ایک ٹیکسی میں پوری دُنیا کا سفر کیا تھا۔ ڈیڑھ برس تک جاری رہنے والے اِس دَورے کے دوران کئی مشہور شخصیات نے بھی لُوئی پالمر کی ٹیکسی میں سفر کیا تھا۔
پالمر کے مطابق اِس ریس کے ذریعے وہ یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ اِس دھرتی پر بسنے والے سات ارب انسانوں کو قابلِ تجدید توانائی اور آمدورفت کے صاف ستھرے وسائل کی ضرورت ہے:’’ہر شخص موسمیاتی تبدیلیوں کے مسئلے سے آگاہ ہے۔ معدنی تیل کے وسائل ہمیں ہمیشہ دستیاب نہیں رہیں گے لیکن ہمارے پاس اِن مسائل کے حل ہیں۔ ہمارے پاس برقی گاڑیاں ہیں، جو قابل تجدید توانائیوں سے چلتی ہیں۔ ہم دکھانا چاہتےہیں کہ ایسا ممکن ہے اور ہم اَسی روز کے اندر اندر اِن گاڑیوں پر پوری دُنیا کا سفر بھی کر سکتے ہیں۔‘‘
’زیرو ریس‘ میں شامل موٹر گاڑیاں یورپ، روس، چین، کینیڈا اور امریکہ سے ہوتی ہوئی میکسیکو کے شہر کنکون پہنچیں گی، جہاں سال کے آخر میں عالمی ماحولیاتی سربراہ کانفرنس منعقد ہونے والی ہے۔ وہاں سے یہ موٹر گاڑیاں جنوری 2011ء میں بالآخر واپس جنیوا پہنچ جائیں گی۔ پیٹرول کا ایک بھی قطرہ خرچ کئے بغیر پوری دُنیا کا سفر کرنے والی اِس ریس کو اقوامِ متحدہ کی بھی حمایت حاصل ہے۔
یہ گاڑیاں ساٹھ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر سکتی ہیں اور ایک بار چارج ہونے کے بعد کم از کم 250 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر سکتی ہیں۔ ان گاڑیوں میں جرمنی کا ایک ویکٹرکس سکوٹر اور سوئٹزرلینڈ کی ایک زیرو ٹریسر موٹر بائیک بھی شامل ہے، جس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اُس کی رفتار زیادہ سے زیادہ 240 کلومیٹر فی گھنٹہ تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ ان گاڑیوں کے پیچھے پیچھے اپنی ایک ٹرالی والی وَین میں مرمت کا ساز و سامان لئے سوس اسکول ٹیچر لُوئی پالمر ہوں گے۔
آسٹریلوی ٹیم TREV ایڈلیڈ سے تعلق رکھنے والے ستاون سالہ جیسن جونز اور اُس کے چوبیس سالہ بیٹے نِک پر مشتمل ہے، جو ایک الیکٹریکل انجینئر ہے۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے اِس باپ بیٹے نے بتایا کہ سولہ ممالک کے اِس سفر کے دوران اُن کی تین پہیوں والی اور دو نشستوں کی حامل گاڑی صرف چار سو آسٹریلوی ڈالرز کا ایندھن خرچ کرے گی۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: عدنان اسحاق