1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برلن: انتہا پسند مسلم تنظیموں پر پابندی عائد

25 فروری 2021

جرمن دارالحکومت برلن اور اس کے مضافاتی علاقے برانڈنبرگ میں پولیس نے جمعرات کو انتہا پسند مسلمانوں کی ایک انجمن کے خلاف ایک بڑی چھاپہ مار کارروائی کی اور اس گروپ پر فوری طور سے پابندی عائد کر دی گئی۔

Deutschland Berlin | Razzia, Zusammenhang Verbot der Jihad-salafistischen Vereinigung Jama'atu
تصویر: Paul Zinken/dpa/picture alliance

اس شدت پسند گروہ کا نام 'جماعة برلن‘ بتایا گیا ہے۔ اس گروپ کے اراکین پر الزام ہے کہ یہ جرمن آئینی احکامات کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ مقامی اخبار ٹاگس اشپیگل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ گروہ شدت پسند تنظیم داعش کا حامی ہے اور یہودیوں کے قتل کا مطالبہ بھی کرتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس گروہ کے ممبران کی آپس میں واقفیت ایک ایسی مسجد میں ہوئی جو اب بند ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ برلن کے برائٹ شائڈٹ پلاٹز پر سن 2016 میں دہشت گردانہ  حملہ کرنے والے انیس عامری کی بھی اسی مسجد سے وابستگی کی اطلاعات ہیں۔

برلن میں انتہا پسند سلفی مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ

برلن کے داخلہ امور کے سینیٹر اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی کے سیاستدان آندریاز گائزل نے ایک بیان میں کہا کہ شدت پسند گروہ 'جماعة برلن‘ اور 'توحید برلن‘ دونوں انتہائی بنیاد پرست جہادی سلفییوں کی ایسوسی ایشن ہے اور یہ کچھ عرصہ پہلے ہی وجود میں آئی ہے۔ اس کا نظریہ بین الاقوامی نظریہ تفہیم سے متصادم ہے اور اس کے اراکین جرمن آئین کے قواعد کے خلاف کام کرتے ہیں۔

برلن اور برنڈنبرگ میں متعدد مقامات پر چھاپے۔تصویر: Paul Zinken/dpa/picture alliance

ان تنظیموں کی پابندی کی آئینی حیثیت ہے۔ داخلہ ریاستی انتظامیہ کے مطابق  یہ پابندی آئین کے آرٹیکل 9 کے تحت لگائی گئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق انتہا پسند مسلمانوں کی تنظیموں کے ٹھکانوں پر چھاپے مار کر کُل 26 ایسی اشیا برآمد کی گئی ہیں جن کی مدد سے ان تنظیموں کے اثاثوں اور ان کی ممنوعہ سرگرمیوں کی کھوج لگائی جا سکے گی۔ ان اثاثوں کو ضبط کر لیا گیا ہے۔

’جرمن مسلم تنظیمیں بھی اسلام پسندانہ دہشت گردی پر نظر رکھیں‘

جمعرات کی صبح سویرے کی جانے والی اس چھاپہ مار کارروائی میں 850 پولیس اہلکار شامل تھے۔ برلن اور برانڈنبرگ کی پولیس کے ساتھ ساتھ وفاقی پولیس کو بھی اس آپریشن میں شامل کیا گیا تھا۔ برلن کے داخلہ امور کے سینیٹر آندریاز گائزل  نے ایک بیان میں کہا، ''ان تنظیموں پر عائد کی جانے والی پابندی تمام دیگر انتہا پسند عناصر کے لیے ایک واضح اشارہ ہے کہ ہم کسی بھی صورت میں انتہا پسندی کو برداشت نہیں کریں گے۔ دہشت گرد تنظیم 'اسلامک اسٹیٹ‘ کے پرچار اور دہشت گردی کے پروپگینڈا کی کوئی گنجائش نہیں دی جائے گی۔‘‘ ساتھ ہی جرمن سیاستدان نے اس امر پر زور دیا کہ مسلم انتہا پسندی کے خطرات ہنوز کافی زیادہ پائے جاتے ہیں۔ اس طرح کی تنظیموں پر پابندی عائد کرنا انتہا پسندانہ تشدد  کے خلاف جنگ کا ایک بنیادی ستون ہے۔

850 سے زائد پولیس اہلکار اس آپریشن میں شامل۔تصویر: Paul Zinken/dpa/picture alliance

 

اسینیٹ انتظامیہ کی جانب سے ایک اعلامیہ جاری کیا گیا ہے جس میں مذکورہ تنظیموں کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے دفاع میں یہ دلیل پیش کی گئی ہے کہ 'جماعة برلن‘ اور 'توحید برلن‘ اپنی دیگر انتہا پسندانہ خصوصیات کے علاوہ جہاد اور شہریوں پر دہشت گردانہ حملے کی وکالت کرتی ہیں۔ اس سے قتل اور دہشت گردی کو ترغیب دی جاتی ہے اور اس طرح 'اسلامک اسٹیٹ‘ کے نظریات کی تشہیر ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ یہ عناصر جرمنی کے بنیادی قوانین اور جمہوری قوانین کی حکمرانی کو ماننے سے انکار کرتی ہیں۔

ک م / ع ا / ڈی پی اے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں