برلن کے وزیر داخلہ نے ایک غیر سرکاری دستاویز کے حوالے سے کہا ہے کہ برلن میں کرسمس مارکیٹ پر حملہ کرنے والے شخص کو پہلے ہی گرفتار کیا جا سکتا تھا۔ اس ٹرک حملے کے نتیجے میں بارہ افراد ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہو گئے تھے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے جرمن دارالحکومت برلن کے اعلٰی سکیورٹی سرکاری اہلکار آندریاس گائزل کے حوالے سے بتایا ہے کہ گزشتہ برس انیس دسمبر کی شام برلن کی کرسمس مارکیٹ پر ہونے والے ٹرک حملے سے بچا جا سکتا تھا۔ برلن کے صوبائی وزیر داخلہ نے ایک غیر سرکاری خفیہ دستاویز کے حوالے سے کہا کہ اس حملہ آور کو پہلے ہی گرفتار کیا جانا ممکن تھا۔
صوبائی وزیر داخلہ آندریاس گائزل کے بقول حکام اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ برلن ٹرک حملے کے بعد برلن پولیس کو موصول ہونے والی اطلاعات کو چھپایا گیا یا ان میں ردوبدل کرنے کی کوشش کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ تفتیشی عمل جاری ہے کہ آیا صوبائی تفتیشی محکمے نے ممکنہ طور پر اپنی ناکامی کو چھپانے کی کوشش کی۔ برلن ٹرک حملے کا الزام تیونس کے ایک باشندے انیس عامری پر عائد کیا گیا تھا، جو بعد ازاں اطالوی شہر میلان کے نواح میں پولیس نے دو طرفہ فائرنگ میں ہلاک کر دیا تھا۔
برلن، کرسمس مارکیٹ پر ٹرک چڑھ دوڑا
جرمن دارالحکومت برلن میں پیر اُنیس دسمبر کی شام ایک ٹرک نے ایک کرسمس مارکیٹ روند ڈالی۔ اس واقعے میں کم از کم نو افراد ہلاک اور پچاس زخمی ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Zinken
اس واققعے کے بعد پولیس نے وسطی برلن کی بُوڈا پیسٹر سٹریٹ اور اُس کے نواحی علاقے کو گھیرے میں لے لیا ہے
تصویر: Google Earth
امددی ٹیمیں فوری طور پر جائے حادثہ پہنچ گئیں اور زخمیوں کو طبی مراکز منتقل کر دیا گیا۔
تصویر: REUTERS/P. Kopczynski
پولیس نے علاقے میں موجود لوگوں سے کہا ہے کہ وہ فیس بک پر اپنے محفوظ ہونے کا بتا دیں، تاکہ ان کے پیاروں کو معلوم ہو کہ وہ خیریت سے ہیں۔
تصویر: REUTERS/P. Kopczynski
پولیس کی جانب سے اس حملے کی بابت اطلاعات ٹوئٹر پیغامات کی صورت میں دی جا رہی ہیں۔ پولیس نے عوام سے کہا ہے کہ اس واقعے سے متعلق ویڈیوز کو شیئر کرنے سے اجتناب برتا جائے، کیوں کہ اس سے مختلف افراد کی ’پرائیویسی‘ پر حرف آ سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/P. Kopczynski
جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر نے کہا ہے کہ وہ اس سلسلے میں سکیورٹی حکام سے مسلسل رابطے میں ہیں، تاہم انہوں نے اس بارے میں تفصیلات نہیں بتائیں کہ آیا یہ واقعہ کوئی حملہ تھا یا نہیں۔
تصویر: Reuters/P. Kopczynski
جرمن وزیر برائے انصاف ہائیکو ماس نے کہا ہے کہ اس معاملے کی تحقیقات دہشت گردی کے مقدمات کرنے والے پراسیکیوٹرز کے سپرد کر دی گئیں ہیں۔ ماس نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں برلن میں کرسمس مارکیٹ پر ٹرک کی چڑھائی کو ’لرزہ خیز‘ واقعہ قرار دیا۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
برلن پولیس کے مطابق کرسمس مارکیٹ میں لگے اسٹالوں پر چڑھ دوڑنے والے ٹرک کا ایک مسافر موقع پر ہی ہلاک ہو گیا۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس واقعے میں ملوث ایک دوسرے مشتبہ شخص کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ یہ تفتیش کی جا رہی ہے کہ آیا حراست میں لیا جانے والا شخص واقعی ٹرک کا ڈرائیور تھا یا نہیں۔
تصویر: REUTERS/F. Bensch
جرمن دارالحکومت برلن میں پیر اُنیس دسمبر کی شام ایک ٹرک نے ایک کرسمس مارکیٹ روند ڈالی۔ اس واقعے میں کم از کم نو افراد ہلاک اور پچاس زخمی ہو گئے۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Zinken
پولیس نے وسطی برلن کی بُوڈا پیسٹر سٹریٹ اور اُس کے نواحی علاقے کو گھیرے میں لے لیا ہے اور ابتدائی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ سرِ دست یہ بات واضح نہیں ہے کہ آیا یہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ کی جانے والی کوئی دہشت گردانہ کارروائی تھی، کوئی حادثہ تھا یا حملہ آور کے کچھ اور محرکات تھے۔
تصویر: REUTERS/F. Bensch
ابھی پولیس کی جانب سے باقاعدہ کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے تاہم عوام سے اپنے گھروں میں رہنے، پُر سکون رہنے اور قیاس آرائیوں سے گریز کرنے کے لیے کہا ہے۔
تصویر: REUTERS/P. Kopczynski
جرمن دارالحکومت برلن کے مرکزی علاقے میں واقع قیصر ولہیلم یادگاری چرچ کے قریب واقع اس کرسمس مارکیٹ کا ہزاروں لوگ رخ کرتے ہیں۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
12 تصاویر1 | 12
یہ امر اہم ہے کہ ایک غیر سرکاری دستاویز سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جرمنی میں جرائم کی تحقیقات کرنے والے وفاقی ادارے کی برلن میں صوبائی شاخ کی طرف سے عسکریت پسند انیس عامری کے بارے میں تفتیش کے نتائج کو ممکنہ طور پر چھپایا اور کسی حد تک دانستہ بدلا گیا تھا۔
اس دستاویز کے مطابق برلن میں کرسمس مارکیٹ پر دہشت گردانہ حملہ کرنے والے عامری پر گزشتہ برس نومبر میں ہی یہ الزامات لگائے گئے تھے کہ وہ منشیات کی تجارت میں ملوث تھا۔ یوں عامری کو دسمبر میں کیے گئے ہلاکت خیز حملے سے پہلے ہی گرفتار ہو جانا چاہیے تھا۔
گائزل نے اس دستاویز کے حوالے سے کہا ہے کہ ماہرین کے رائے میں عامری کے بارے میں ایسی قابل اعتبار معلومات فراہم کی جا چکی تھیں، جس کے تحت اسے برلن ٹرک حملے سے قبل ہی گرفتار کر لیا جانا چاہیے تھے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ متعلقہ حکام اس بارے میں تحقیقات کر رہے ہیں اور کسی نتیجے پر پہنچنے سے قبل تمام تر پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے گا۔
انیس عامری سن دو ہزار پندرہ کے وسط میں بطور مہاجر جرمنی پہنچا تھا تاہم اس کی پناہ کی درخواست مسترد کر دی گئی تھی۔ تیونس کے اس شہری نے ایک درجن سے زیادہ مختلف ناموں کے ساتھ شناختی دستاویزات بنا رکھی تھیں اور اگرچہ حکام اُسے جبری طور پر اُس کے وطن واپس بھیجنا چاہتے تھے لیکن اُس کے پاس ایسی دستاویزات تھیں، جن کے تحت اُسے مزید اٹھارہ ماہ تک جرمنی میں قیام کی اجازت حاصل تھی۔