برلن حملہ: پناہ کا متلاشی پاکستانی رہائی کے بعد کہاں ہے؟
22 دسمبر 2016جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ پولیس نے پیر کے ہولناک حملے کے بعد تئیس سالہ نوید بلوچ کو حراست میں لے لیا تھا لیکن یہ کہ پوچھ گچھ کے بعد اور یہ ثابت ہونے کے بعد کہ اُس کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں ہے، اُسے رہا کیا جا چکا ہے۔
پاکستان میں نوید بلوچ کے اہلِ خانہ اور برلن میں اُس کے ساتھ پناہ گزینوں کے رہائشی مرکز میں مقیم ساتھیوں کا کہنا ہے کہ نوید پولیس کے پاس سے واپس نہیں لوٹا اور یہ کہ پولیس نے ابھی تک اُسے غالباً اِس ڈر سے اپنی ’حفاظتی تحویل‘ میں رکھا ہوا ہے کہ مسلمان مخالف یا پھر مہاجرین سے نفرت کرنے والے گروپ کہیں اُسے کسی حملے کا نشانہ نہ بنائیں۔
برلن سے نوید بلوچ کے ایک قریبی عزیز وحید بلوچ نے ڈی پی اے سے باتیں کرتے ہوئے بتایا کہ ’وہ خیریت سے ہے اور تندرست ہے لیکن ابھی تک حفاظت کے نقطہٴ نظر سے پولیس ہی کے پاس ہے۔ ممکن ہے کہ پولیس آج ہمیں اُس سے ملاقات کرنے یا اُس کے ساتھ فون پر بات کرنے کی اجازت دے دے۔‘‘ وحید بلوچ کے مطابق جرمن حکام نے ایک روز قبل اُس کے استفسار پر اُسے یہی کچھ بتایا تھا۔
نوید اور وحید بلوچ تقریباً ایک سال پہلے الگ الگ جرمنی پہنچے تھے اور تب سے ساتھ ساتھ ہی تھے گو برلن میں دو الگ الگ رہائشی مراکز میں مقیم تھے۔ دونوں نے جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواست دے رکھی ہے، جس پر ابھی تک کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا ہے۔
شورش زدہ پاکستانی صوبے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک سیاسی کارکن واجد بلوچ نے فرینکفرٹ سے ٹیلیفون پر ڈی پی اے کو بتایا کہ جرمن حکام اُنہیں تسلسل کے ساتھ نوید بلوچ کی خیریت سے آگاہ کر رہے ہیں:’’ہم نے واپس وطن میں اُس کے والدین کو اطلاع دے دی ہے کہ وہ خیریت سے ہے۔‘‘
برلن میں موجود ڈی ڈبلیو اردو کے عرفان آفتاب نے کارلسروہے میں دفترِ استغاثہ کے ایک ترجمان کے ساتھ ٹیلیفون پر نوید بلوچ کی خیریت دریافت کرنا چاہی تو اُنہیں بتایا گیا کہ اُسے رہا کر دیا گیا ہے۔ بار بار کے استفسار کے باوجود ترجمان کا کہنا تھا کہ وہ فقط اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ جس پاکستانی کو حملے کے بعد حراست میں لیا گیا تھا، اُسے یقینی طور پر چھوڑا جا چکا ہے لیکن وہ نہ تو کسی مقام کا نام لے سکتے ہیں (جہاں وہ اس وقت ممکنہ طور پر موجود ہو سکتا ہے) اور نہ ہی اُس کی شناخت کے بارے میں کچھ کہہ سکتے ہیں کیونکہ اس طرح اُس کی نجی معلومات کے تحفظ کے حقوق متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔