برلن دہشت گردی: بلا تحقیق ایک پاکستانی کی گرفتاری پر افسوس
21 دسمبر 2016برلن میں پیر اُنیس دسمبر کو نامعلوم افراد نے ایک تیز رفتار ٹرک ایک کرسمس مارکیٹ میں لگے اسٹالز اور وہاں شاپنگ کرنے والے افراد پر چڑھا دیا تھا، جس کے نتیجے میں بارہ افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے۔ جائے وقوعہ سے پولیس نے ایک نوجوان کو حراست میں لیا اور زیر حراست نوجوان نوید کی شناخت میڈیا میں بطور ایک پاکستانی شہری بتائی گئی لیکن تفتیش کے بعد جرمن پولیس کو نوید کے خلاف ایسا کوئی ثبوت نہ مل سکا، جس کی بنیاد پر اُسے ایک دہشت گرد قرار دیا جا سکتا، لہٰذا جرمن حکام نے معذرت کے بعد نوید کو رہا کر دیا۔
پاکستانی دفتر خارجہ نے برلن واقعے پر فوری اظہار افسوس اور مذمت کیا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے بھی اظہار افسوس کیا اور عام شہری بھی اس معاملے پر متاثرہ افراد سے اظہار افسوس ہی کر رہے تھے تاہم جرمن میڈیا کی جانب سے ایک پاکستانی شہری کو حملے میں ملوث قرار دینے پر تجزیہ کاروں اور عام شہریوں نے خفگی کا اظہار کرتے ہوئے جرمن پولیس کے رویے کو مغرب کی متعصبانہ پالیسی کا تسلسل قرار دیا ہے۔
سینیئر تجزیہ کار اکرام سہگل نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دنیا نے پاکستان کا نام اپنی آنکھوں میں ایک دہشت گرد ملک کے طور پر بسا لیا ہے:’’معاملہ افغانستان کا ہو یا حقانی نیٹ ورک کا یا پھر دہشت گردی کے حوالے سے، امریکا اور یورپ کی گردان صرف ڈو مور ہوتی ہے۔ برلن معاملے میں پہلے تفتیش ہونے چاہیے تھی لیکن انتہائی عجلت میں ایک بے گناہ پاکستانی کو ملوث قرار دینے کی کوشش کی گئی۔‘‘
بین الاقوامی امور کے ماہر پروفیسر حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ جرمن میڈیا کا رویہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ تھا:’’امریکا ہو یا یورپ، پاکستانی شہریوں کو کسی بھی واقعے میں ملوث کر دینا بہت آسان ہے لیکن یہ مسئلہ تاثر کا ہے، جس میں کہیں نہ کہیں پاکستان بھی قصور وار ہے۔ بدقسمتی سے مغرب کا مائنڈ سیٹ یہی ہے۔‘‘
سابق سفارت کار شاہد امین کہتے ہیں کہ برلن کے واقعے نے ہمیں پھر یاد دلایا ہے کہ ہمیں اپنا امیج بہتر کرنا ہو گا:’’خرابیاں ہمارے اندر بھی ہیں، جن کے باعث دنیا بھر میں یہ تاثر مستحکم ہو چکا ہے کہ پاکستان ایک خطرناک ملک ہے اور اس تاثر کو زائل کرنے کے لیے اچھی سفارت کاری، میڈیا کا کردار اور سب سے بڑھ کر دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن کا تسلسل ضروری ہے۔‘‘
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی سے وابستہ سینیئر صحافی اشرف خان نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں مغربی دنیا خصوصاً امریکا میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں کہیں نہ کہیں پاکستانیوں کا تعلق سامنے آیا، جس کے باعث پاکستان کے خلاف اس تاثر کو تقویت ملی لیکن برلن واقعے کے بعد جرمن حکام نے معاملے کو بہتر انداز میں حل کیا، تفتیش کی اور بے گناہ ثابت ہونے پر پاکستانی شہری کو رہائی بھی مل گئی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اس طرح کے واقعات سے ایک بار پھر خوف کی فضا قائم ہونے کا خدشہ ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ مغربی دنیا پاکستان سمیت دیگر متاثرہ ممالک کےساتھ مل کر کوئی مشترکہ لائحہ عمل بنائے، جو مستقبل میں ایسے واقعات کی صورت میں کارآمد ثابت ہو سکے۔