1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سفر و سیاحتجرمنی

برلن سے براستہ برسلز پیرس تک نائٹ ٹرین سروس برسوں بعد بحال

11 دسمبر 2023

جرمن دارالحکومت برلن سے بیلجیم میں برسلز کے راستے فرانسیسی دارالحکومت پیرس تک جانے والی نائٹ ٹرین سروس برسوں کے تعطل کے بعد آج پیر گیارہ دسمبر کی شام سے بحال ہو رہی ہے، جسے چار ممالک کی ریل کمپنیاں مل کر چلائیں گی۔

یہ نائٹ ٹرین آسٹرین ریل کمپنی ÖBB کے نائٹ جیٹ طرز کی ریل گاڑی ہو گی
یہ نائٹ ٹرین آسٹرین ریل کمپنی ÖBB کے نائٹ جیٹ طرز کی ریل گاڑی ہو گیتصویر: Christina Küfner/DW

برلن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق اس روٹ پر رات کو چلنے والی مسافر ٹرینوں کی عوامی مانگ میں گزشتہ کافی عرصے سے خاصا اضافہ ہو چکا ہے اور ماہرین کو امید ہے کہ مغربی یورپ میں مقابلتاﹰ مختصر دورانیے کی فضائی پروازوں کے رجحان میں کمی اور سفر سے متعلق زیادہ ماحول دوست رویوں کی مقبولیت کے باعث اس نائٹ ٹرین سروس کی مقبولیت اور مانگ آئندہ مہینوں اور برسوں میں اور زیادہ ہو جائیں گی۔

جرمنی: ٹرینیں اتنی لیٹ تو پہلے کبھی نہ تھیں

اس ٹرین سروس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ مغربی یورپ کے تین قومی دارالحکومتوں کو شبینہ سفر کے لیے بھی آپس میں جوڑ دے گی۔ جرمنی میں برلن سے چلنے والی یہ ٹرین بیلجیم کے دارالحکومت برسلز سے ہوتی ہوئی فرانسیسی دارالحکومت پیرس تک جایا کرے گی۔

اس کے علاوہ یہ بات بھی اہم ہے کہ برلن سے چلنے والی ایسی نائٹ ٹرینیوں میں سے نصف برسلز میں ہی اپنا سفر ختم کر دیا کریں گی جبکہ باقی نصف کی آخری منزل پیرس ہوا کرے گا۔

اس نائٹ ٹرین میں مسافر برلن سے پیرس تک کے سفر کے دوران سلیپر بوگیوں میں آرام سے سو بھی سکیں گےتصویر: James Arthur Gekiere/Belga/dpa/picture alliance

افتتاح جرمن وزیر ٹرانسپورٹ کریں گے

آج پیر 11 دسمبر کی شام برلن سے پیرس تک ایسی جس اولین ٹرین کی روانگی کا بڑی شدت سے انتظار کیا جا رہا ہے، اس کے عملے اور مسافروں کو الوداع کہنے کے لیے برلن کے مرکزی ریلوے اسٹیشن پر جرمن وزیر ٹرانسپورٹ فولکر وِسِّنگ بھی ذاتی طور پر موجود ہوں گے۔

انڈونیشیا میں جنوب مشرقی ایشیا کی تیز ترین ٹرین کا افتتاح

اس موقع پر جرمنی کی جزوی طور پر سرکاری ملکیت میں کام کرنے والی سب سے بڑی ریل کمپنی ڈوئچے بان کے چیف ایگزیکٹیو رشارڈ لُٹس بھی فولکر وِسِّنگ کے ہمراہ ہوں گے۔

شروع میں یہ نائٹ ٹرین ہفتے میں تین بار چلا کرے گی اور اس سروس میں اب تک کے پروگرام کے مطابق اکتوبر 2024ء میں اضافہ کر دیا جائے گا۔

برلن سے چلنے والی ایسی نائٹ ٹرینیوں میں سے نصف برسلز میں اپنا سفر ختم کیا کریں گی جبکہ باقی نصف کی آخری منزل پیرس ہوا کرے گاتصویر: Lisa Stüve/DW

چار ممالک کی مشترکہ نائٹ ٹرین سروس

جرمن اور فرانسیسی دارالحکومتوں کے مابین چلنے والی اس نائٹ ٹرین سروس کو چار ممالک کے قومی ریلوے ادارے مل کر چلائیں گے۔ اس شبینہ ریل گاڑی کے کاروباری آپریٹرز جرمن ریل کمپنی ڈوئچے بان، آسٹریا کی وفاقی ریل کمپنی ÖBB، فرانس کی سرکاری ریل کمپنی SNCF اور بیلجیم کی سرکاری ریل کمپنی NMBS/SNCB ہوں گے۔

بھارت: دو دہائیوں سے زیادہ عرصے کا بدترین ٹرین حادثہ، سینکڑوں ہلاکتیں

یہ نائٹ ٹرین آسٹرین ریل کمپنی ÖBB کے نائٹ جیٹ برانڈ کی ریل گاڑی ہو گی۔

ڈوئچے بان کے مطابق اپنی پہلی سروس سے قبل ہی اس نائٹ ٹرین کی دسمبر میں کرسمس کی چھٹیوں کے باعث تمام سیٹیں ابھی سے بک ہو چکی ہیں۔

ڈوئچے بان کے ایک ترجمان نے بتایا کہ اس نائٹ ٹرین میں کافی تعداد میں خالی سیٹیں اب نئے سال کے شروع میں چھٹیوں کے موجودہ سیزن کے اختتام کے بعد ہی دستیاب ہو سکیں گی۔

ڈوئچے بان تہتر نئی انتہائی تیز رفتار ٹرینیں خریدے گی

سعودی خواتین تیز رفتار ٹرین چلانے لگیں

04:28

This browser does not support the video element.

ماضی میں اس سروس کی بندش نو سال قبل

جرمنی کی سب سے بڑی ریل کمپنی ڈوئچے بان کی طرف سے برلن سے پیرس تک ایسی نائٹ ٹرین سروس ماضی میں 2014ء تک چلائی جاتی رہی تھی۔ پھر لیکن یہ سروس اس لیے بند کر دی گئی تھی کہ اس میں سفر سے متعلق عوامی طلب کافی کم ہو گئی تھی۔

گزشتہ چند برسوں کے دوران تاہم مغربی یورپ میں اس طرز کی سلیپر بوگیوں والی ریل گاڑیوں کی مانگ میں کافی زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

سرنگیں تنگ، ٹرینیں چوڑی: ہسپانوی وزیر، کمپنی سربراہ مستعفی

اس شبینہ مسافر ریل گاڑی کو دوبارہ چلانے کا فیصلہ ڈوئچے بان کی ان کوششوں کا حصہ ہے، جن کے تحت یہ جرمن کمپنی یورپی مسافروں کے لیے اپنی پیشکش کو زیادہ سے زیادہ پرکشش بنانا چاہتی ہے۔

انہی کوششوں کے تحت ڈوئچے بان مجموعی طور پر متعدد یورپی ممالک میں 13 ایسے شہروں کو کئی نائٹ ٹرین سروسز کے ذریعے جوڑ دینا چاہتی ہے، جن میں سے ہر ایک کی آبادی ایک ملین سے زیادہ ہے۔

م م / ع ت (ڈی پی اے، روئٹرز)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں