برلن منعقدہ شام کانفرنس، مثبت پہلو
29 اکتوبر 2014شامی بحران کے موضوع پر برلن منعقدہ کانفرنس کوئی ڈونرز کانفرنس نہیں تھی اور نہ ہی ٹھوس مالی امداد اس کا مرکزی موضوع تھا۔ یوں اگرچہ یہ اجتماع بغیر کسی طرح کے ٹھوس نتائج کے ختم ہو گیا تاہم اس کا سب سے بڑا مثبت پہلو یہ رہا کہ اس سے شامی مہاجرین کے وہ ابتر حالات ایک بار پھر نمایاں ہو کر دنیا کے سامنے آ گئے، جنہیں عرب خطّے سے باہر کی دنیا تقریباً فراموش کر بیٹھی تھی۔ دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف مسلح جنگ نے دیگر تمام موضوعات کو پس منظر میں دھکیل دیا تھا۔
اسی طرح اس کانفرنس میں یہ بات بھی واضح طور پر تسلیم کی گئی کہ نہ صرف مہاجرین کے حالات دگرگوں ہیں بلکہ اُن ممالک کو بھی فوری مدد اور تعاون کی ضرورت ہے، جنہوں نے پناہ کی تلاش میں نکلنے والے شامی مہاجرین کو اپنے ہاں قبول کیا ہے۔
اس سے پہلے کم ہی کبھی ایسا ہوا تھا کہ شام کے ہمسایہ ملکوں نے اتنے فیصلہ کن اور پُر زور انداز میں عالمی برادری کو اپنی صورتِ حال کی طرف متوجہ کیا ہو۔ لبنان اور اردن کے وُزرائے خارجہ نے متاثر کن انداز میں اپنے حالات کی طرف توجہ دلائی۔ خاص طور پر یہ دونوں ملک قربانی کے بے پناہ جذبے کے تحت شامی شہریوں کی مدد کر رہے ہیں۔
اس کانفرنس سے یہ بھی واضح ہوا کہ عالمی برادری کے زیادہ تر حصے پناہ کے متلاشی شامی شہریوں کے حوالے سے کتنا شرم ناک طرزِ عمل اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اس اجتماع کے نتیجے میں باقی دنیا میں عرب خطے کے اُن ملکوں اور شہروں کی زیادہ سرگرم مدد کے لیے آمادگی دیکھنے میں آئی ہے، جہاں لاکھوں شامی شہری مہاجر کیمپوں میں مقیم ہیں۔ ایسے میں ممکن ہے کہ ان مہاجرین کو پناہ دینے والے قصبوں اور شہروں میں اقتصادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے لیے اتنے زیادہ اقدامات کیے جائیں کہ یہ علاقے خوشحالی میں اپنے خطّے کے دیگر ملکوں سے جلد آگے نکل جائیں۔
لبنان حکومت کی جانب سے یہ سننے میں آ رہا تھا کہ وہ کچھ شامی مہاجرین کو شام کے نسبتاً پُر سکون علاقوں میں واپس بھیجنے کا ارادہ رکھتی ہے تاہم برلن منعقدہ کانفرنس میں لبنان کو اپنے ان ارادوں کے لیے کوئی تائید و حمایت حاصل نہ ہو سکی اور اس امر پر اتفاق کیا گیا کہ شامی مہاجرین کو واپس نہیں بھیجا جائے گا۔
اس کانفرنس میں شامی مہاجرین کے لیے جرمنی کی بھرپور کوششوں کو سراہا گیا۔ واضح رہے کہ جرمنی اب تک اپنے ہاں ستّر ہزار شامی مہاجرین کو پناہ دے چکا ہے ا ور یہ تعداد یورپ کے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
برلن منعقدہ اس اجتماع کے نتیجے میں یورپ کے دیگر ملکوں پر بھی دباؤ بڑھا ہے اور اس بحث کو نئے سرے سے تحریک ملی ہے کہ مختلف یورپی ملکوں میں مہاجرین کو کوٹے کے حساب سے تقسیم کیا جائے اور دستیاب رقوم کو فوری امداد کے لیے جاری کیا جائے۔
اس سلسلے میں پہل کرتے ہوئے جرمنی نے اگلے تین برسوں کے لیے اضافی طور پر پانچ سو ملین یورو دینے کا اعلان کیا۔ یہ رقوم اقتصادی ڈھانچے، ہسپتالوں، فراہمیٴ آب اور شامی بچوں کی تعلیم و تربیت کے منصوبوں پر خرچ کی جائیں گی۔
برلن منعقدہ اجتماع نے دیانتداری کے ساتھ یہ بھی واضح کر دیا کہ ان ملکوں کے پاس شامی بحران کا سرِدست کوئی حل نہیں ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ شام میں خونریزی کا سلسلہ ابھی جاری رہے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ مختلف حلقے تنازعے کو سیاسی طریقے سے حل کرنے کی کوشش میں ہیں تاہم مستقبل قریب میں ایسا کوئی حل نظر نہیں آ رہا ہے۔