برلن میں اسرائیل مخالف مظاہرہ، سامیت دشمنی کے خوف میں اضافہ
1 جون 2019
جرمن دارالحکومت برلن میں ایک ہزار کے قریب مظاہرین ایک متنازعہ اسرائیل مخالف ریلی کے لیے جمع ہوئے۔ ان مظاہرین کی ریلی کے خلاف ایک دوسرے مظاہرے کا اہتمام بھی کیا گیا تھا، جو جرمنی میں بڑھتی ہوئی سامیت دشمنی کے خلاف تھا۔
اشتہار
ہفتہ یکم جون کے روز برلن میں اس اسرائیل مخالف ریلی میں تقریباﹰ ایک ہزار شرکاء نے حصہ لیا۔ اس ریلی کا اہتمام ایک ایسے وقت پر کیا گیا تھا جب جرمنی میں یہ خدشات زور پکڑتے جا رہے ہیں کہ یورپی یونین کے رکن اس ملک میں سامیت دشمن جذبات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
اس احتجاجی ریلی کا اہتمام یوم القدس یا یروشلم ڈے کے موقع پر کیا گیا تھا اور باقاعدہ طور پر اس اجتماع کو 'فلسطین میں ایک منصفانہ امن کے لیے‘ کا عنوان دیا گیا تھا۔ یہ ریلی ان تمام مطالبات کے باوجود نکالی گئی، جن میں کہا گہا تھا کہ جرمن حکام کو اس مظاہرے پر پابندی لگا دینا چاہیے تھی۔ ایسے مطالبات کرنے والی اہم ترین شخصیات میں جرمنی میں یہودیوں کی مرکزی کونسل کے صدر یوزیف شُسٹر بھی شامل تھے۔
اس ریلی سے قبل کئی سرکردہ جرمن سیاستدانوں نے، جن میں وفاقی صدر فرانک والٹر شٹائن مائر کے علاوہ خاندانی امور کی وفاقی جرمن وزیر فرانسِسکا گِفّی بھی شامل تھیں، جرمن عوام سے یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ وہ ملک میں بڑھتی ہوئی سامیت دشمنی کے خلاف اپنا کردار ادا کریں۔
اس حوالے سے خاندانی امور کی وفاقی وزیر گِفّی نے برلن سے شائع ہونے والے اخبار 'ٹاگَیس اشپیگل‘ کو بتایا، ''ہم سب کو سامیت دشمن امتیازی رویوں کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے ان کی مخالفت کرنا ہو گی۔ ہمیں سامیت دشمنی کے خلاف بولنا ہو گا، اور یہودی عقیدے کے حامل شہریوں کو بتانا ہو گا: ہم آپ کے ساتھ ہیں، ہم آپ کی حمایت کرتے ہیں۔‘‘
دو باہم متضاد مظاہرے
برلن میں آج یوم القدس کے موقع پر اسرائیل مخالف ریلی کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے مظاہرے میں بھی سینکڑوں شہریوں نے شرکت کی، جو جرمنی میں یہودی برادری کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے تھے۔ اس ریلی کا مقصد یہودیوں کے لیے سماجی تائید و حمایت کا اظہار تھا، جنہیں ایک مذہبی اقلیت کے طور پر ان دنوں سامیت دشمن واقعات کی بڑھتی ہوئی تعداد کا سامنا ہے۔ ڈی ڈبلیو کی رپورٹر چیز ونٹر کے مطابق برلن پولیس نے بتایا کہ اس اسرائیل نواز ریلی کے شرکاء کی تعداد 600 کے قریب تھی، جنہوں نے شہر کی مختلف سڑکوں پر مارچ کیا۔
تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں یہودیوں پر حملوں کے واقعات میں، جن کی تعداد 2017ء میں 1504 رہی تھی، 2018ء میں مزید اضافہ ہوا اور گزشتہ برس ان کی سالانہ تعداد 1646 رہی تھی۔ یہ تعداد تقریباﹰ دس فیصد اضافے کے برابر بنتی ہے۔ دوسری طرف اس طرح کے وہ واقعات، جن کی پولیس کو باقاعدہ اطلاع بھی دی گئی تھی، ان کی تعداد، سرکاری ڈیٹا کے مطابق، 2017ء میں 37 سے بڑھ کر 2018ء میں 62 ہو گئی تھی۔
م م / ع ت / اے ایف پی، ڈی پی اے
یروشلم سن 1967 میں اور اب سن 2017 میں؟
فلسطینی اسرائیلی تنازعے میں یروشلم ایک اہم وجہ اختلاف قرار دیا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سن 1967 کی چھ روزہ جنگ میں یہ شہر کیسا تھا اور اب تقریبا پچاس برس بعد یہ کیسا دکھتا ہے؟
تصویر: Reuters/A. Awad
آج کا ’جبل زیتون‘
’ماؤنٹ آف اولیوَز‘ یا جبل زیتون سے لی گئی اس تصویر میں یروشلم کا منظر نمایاں ہے۔ سنہری رنگت والا ’گنبد الصخرا‘ قدیمی شہر کے مشرق میں واقع ہے۔ اس مقام پر یہودیوں کا قدیمی قبرستان بھی ہے۔ یہاں زیتون کے درخت بہتات میں پائے جاتے تھے، اس مقام کا نام اسی نسبت سے رکھا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’جبل زیتون‘
عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ پانچ سے دس جون تک جاری رہی تھی۔ یہ تصویر سات جون سن 1967 کو لی گئی تھی۔ اگر اس تصویر میں قدیمی شہر واضح نہ ہوتا تو دیکھنے والا شائد سمجھ نہ سکتا کہ یہ کون سا مقام ہے۔
تصویر: Government Press Office/REUTERS
آج کی الاقصیٰ مسجد
یہ مسجد ٹمپل ماؤنٹ میں واقع ہے۔ یہ مقام نہ صرف مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس ہے بلکہ یہودیت میں بھی اسے بہت زیادہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہودی روایات کے مطابق اسی مقام پر دو انتہائی مقدس ٹمپل تھے، جن کا تذکرہ بائیبل میں بھی ملتا ہے۔ مکہ اور مدینہ کے بعد اسلام میں یہ تیسرا سب سے زیادہ مقدس مقام ہے۔ اسی طرح مسیحیت میں بھی ٹمپل ماؤنٹ مذہبی اعتبار سے بہت مقدس ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کی الاقصیٰ مسجد
الاقصیٰ مسجد یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسرائیل نے اس علاقے کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔ تب سے یہاں اسرائیلی حکومت کا سخت کنٹرول ہے۔ تاہم اتفاق کیا گیا تھا کہ یروشلم میں واقع ٹمپل ماؤنٹ کا انتظام ’وقف‘ نامی ایک مسلم مذہبی ٹرسٹ چلائے گی۔
تصویر: Reuters/
آج کا ’باب دمشق‘
یروشلم کا یہ تاریخی دروازہ قدیمی شہر میں داخل ہونے کا ایک انتہائی اہم راستہ ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے اسی علاقے میں فلسطینوں کی طرف سے اسرائیلیوں پر کیے جانے والے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آج کل یہ مقام سکیورٹی کے حوالے سے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’باب دمشق‘
یہ دروازہ جولائی سن 1537 میں عثمانیہ دور کے سلطان سلیمان نے بنوایا تھا۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لے گئی ہے، جس میں یہ دروازہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔ قدیمی شہر میں داخل ہونے کے سات دروازے ہیں، جن میں سے یہ ایک ہے۔
تصویر: Reuters/
آج کا قدیمی شہر
یروشلم کا قدیمی شہر سن انیسو اکیاسی سے یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ مختلف مذاہب کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی مسجد الاقصیٰ اور گنبد الصخرہ کے علاوہ یہودیوں کا ٹمپل ماؤنٹ اور ویسٹرن وال بھی یہیں واقع ہیں جبکہ مسیحیوں کا مقدس ترین مقام ’چرچ آف دی ہولی سپلکر‘ بھی یروشلم میں ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کا قدیمی شہر
یہ مقام ہمیشہ سے ہی انتہائی مصروف رہا ہے، جہاں دکانیں بھی ہیں اور سیاحوں کے لیے دلکش مناظر بھی۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لی گئی تھی۔ پچاس سال بعد بھی یروشلم کے اس قدیمی بازار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ تب بھی انتہائی شاندار تھا اور اب بھی ویسا ہی ہے۔
تصویر: Reuters/Fritz Cohen/Courtesy of Government Press Office
آج کی ’مغربی دیوار‘
ویسٹرن وال (مغربی دیوار) یا دیوار گریہ یہودی مذہب میں بہت زیادہ مقدس تصور کی جاتی ہے۔ یہودی مذہب کے ماننے والے اس دیوار کو چھو کر اور اس کے ساتھ کھڑے ہو کر عبادت بھی کرتے ہیں۔ اس دیوار کی زیارت کی خاطر خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ مقامات تفویص بھی کیے گئے ہیں تاہم یہاں ہر کوئی سکیورٹی چیک کے بعد جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کی ’مغربی دیوار‘
مغربی دیوار (ویسٹرن وال) کو دیوار گریہ بھی کہا جاتا ہے لیکن یہودی مذہب میں اسے حقارت آمیز اصطلاح تصور کیا جاتا ہے اور یہودی اسے اس نام سے نہیں پکارتے۔ یہ تصویر یکم ستمبر سن 1967 میں لی گئی تھی۔