’برلن میں بے گھر افراد کی خالی عمارتوں پر قبضے کی کوشش‘
21 مئی 2018
برلن میں پراپرٹی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اتوار کے دن درجنوں بے گھر افراد نے متعدد خالی عمارتوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تاہم پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے ان مظاہرین کو ان عمارتوں سے نکال دیا۔
اشتہار
جرمن حکام نے بتایا ہے کہ اتوار کے دن درجنوں مظاہرین برلن کے مختلف علاقوں میں واقع ایسی متعدد عمارتوں میں گھس گئے، جو خالی ہیں۔ یہ مظاہرین برلن میں سستی رہائش کی کمی اور بے گھر افراد کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کر رہے تھے۔
حالیہ برسوں کے دوران برلن میں پراپرٹی کی قیمتوں اور کرایوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق سن دو ہزار سترہ میں دنیا بھر میں کسی بھی شہر میں ایسا اضافہ نہیں ہوا، جو برلن میں نوٹ کیا گیا ہے۔
پولیس نے بتایا ہے کہ اتوار کے دن ان مظاہرین نے حکومت کی ایک خالی عمارت پر بھی قبضہ کر لیا۔ بتایا گیا ہے کہ 80 مظاہرین اس عمارت میں داخل ہوئے جبکہ سو کے قریب اس عمارت کے باہر نعرے بازی کرتے رہے۔
مقامی میڈیا نے ان مظاہروں کو برلن میں رہائش کی مناسب اور سستی سہولیات کی کمی اور کرایوں میں ہوشربا اضافے کے خلاف ایک علامتی مظاہرہ قرار دیا ہے۔
ان مظاہرین کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ برلن کے ہزاروں شہری بے گھر ہیں جبکہ جن کے پاس گھر ہیں وہ اپنی کمائی کا ایک بڑا حصہ کرایوں پر خرچ کر رہے ہیں۔
مزید کہا گیا کہ ’یہ غیرقانونی ہے کہ گھر صرف اس لیے کرائے پر نہ دیے جائیں اور خالی رکھیں جائیں کہ وہاں صرف زیادہ کمانے والے اور کرائے ادا کرنے والے افراد کو ہی رہائش مل سکے۔
اس صورتحال میں لیفٹ پارٹی کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق ’برلن میں ایک سستا اپارٹمنٹ تلاش کرنا انتہائی مشکل کام ہے‘۔ اس سیاسی جماعت نے زور دیا ہے کہ شہریوں کو بنیادی ضروریات زندگی کی دستیابی کے لیے ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔
ادھر گرین پارٹی نے کہا ہے کہ حکومت کی ہاؤسنگ پالیسی بتاتی ہے کہ برلن کی خالی عمارتوں پر قبضہ کرنے والے ’درست اور ٹھیک‘ تھے۔
اس حوالے سے جرمنی کی بزنس نواز سیاسی پارٹی ایف ڈی پی کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ’قبضہ کرنے والوں نے ایک مرتبہ پھر اپنے مجرمانہ محرکات اور اعمال کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی ہے‘۔
اس پارٹی کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’مجرموں کے ساتھ مذاکرات‘ نہیں ہونا چاہئیں۔ جرمن دارالحکومت برلن میں ماضی میں بھی ایسے بے گھر افراد کی طرف سے خالی مکانات اور عمارتوں پر قبضے کی کوشش کی جا چکی ہے۔
ع ب / ص ح / خبر رساں ادارے
خوش آمدید: جرمنی میں مہاجرین کے لیے منفرد رہائش گاہیں
مہاجرین کی رہائش کے لیے روایتی طور پر خیمے، کنٹینرز اور متروکہ ہارڈ ویئر اسٹورز استعمال کیے جاتے ہیں۔ تاہم جرمنی میں مہاجرین کی رہائش کے لیے اچھوتے منصوبوں پر غور جاری ہے تاکہ وہ جرمنی میں آرام دہ زندگی بسر کر سکیں۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
چھتوں کے اوپر
جرمن شہر ہینوور کی یونیورسٹی میں آرکیٹیکچر کے طالب علموں نے ایک منصوبے کے تحت مہاجرین کی رہائش کے لیے متعدد ماڈل تیار کیے ہیں۔ اس منصوبے کا مقصد شہر میں ایسی رہائش گاہیں تعمیر کرنا ہے، جہاں کھلا ماحول دستیاب ہو۔ تصویر میں نظر آنے والے اس ماڈل میں عمارتوں کے اوپر رہائش گاہیں تعمیر کرنے کا خیال پیش کیا گیا ہے، جس پر عملدرآمد کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ دیگر ماڈل فی الوقت خیالی قرار دیے جا رہے ہیں۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
تیرتے ہوئے گھر
جرمنی میں تقریباﹰ 870 بڑے کارگو بحری جہاز استعمال میں نہیں لائے جا رہے۔ انہیں مہاجرین کی پناہ گاہوں میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ دریاؤں کا پانی فلٹر کرنے کے بعد ان جہازوں میں بنے مکانات کے آئندہ رہائشیوں کے لیے استعمال میں لایا جا سکتا ہے جبکہ مکینوں کے لیے بجلی کا انتظام شمسی توانائی اور ہوا کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
رہائش کا شاندار خیال
ہینوور شہر میں واقع ڈچ پویلین، جہاں ایکسپو 2000ء نامی عالمی نمائش منعقد کی گئی تھی، اب خالی پڑی ہے۔ ممکنہ طور پر اس کو بھی مہاجر کیمپ بنایا جا سکتا ہے۔ اس عمارت کی تیسری منزل پر ایک بڑا گارڈن بھی ہے، جو مہاجرین کی رہائش اور آپس میں میل ملاپ کی خاطر ایک سینٹر کے طور پر اچھا متبادل ثابت ہو سکتا ہے۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
بنے بنائے گھر
لکڑی کے بنے بنائے گھروں کے ماڈل کسی بھی خالی مقام پر نصب کیے جا سکتے ہیں۔ بالخصوص دو عمارتوں کے درمیان واقع خالی جگہوں میں ان گھروں کو ضرورت کے مطابق کاٹ کر تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ ایسے مکانات محض دو تین دنوں میں تعمیر کیے جا سکتے ہیں اور ضرورت پوری ہونے پر انہیں سہولت کے ساتھ وہاں سے کہیں بھی منتقل کیا جا سکتا ہے۔ یہ گھر آسانی سے دفاتر میں بھی تبدیل کیے جا سکتے ہیں۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
باغوں میں تعمیر کردہ گھر
جرمنی میں کئی چھوٹے چھوٹے مکانات باغیوں میں بھی تعمیر کیے گئے ہیں۔ ان کے مالکان انہیں باغبانی سے دلچسپی رکھنے والے افراد کو کرائے پر بھی دیتے ہیں۔ ان گھروں میں بنیادی ضروریات کی تمام چیزیں ہوتی ہیں۔ لائپزگ یونیورسٹی کے طالب علموں نے تجویز کیا ہے کہ ایسے گھروں کو مہاجرین کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔ خوبصورت باغیچوں میں قائم یہ رہائش گاہیں بے گھر افراد کی اداسی دور کرنے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
کار پارکنگ کی عمارتوں میں رہائش
جرمن شہروں میں پبلک پارکنگ کے کئی ایسے مقامات بھی ہیں، جو مکمل طور پر استعمال میں نہیں لائے جا رہے۔ شہروں کے وسط میں قائم کردہ پارکنگ کے لیے بنائی گئی یہ عمارتیں مہاجرین کے سینٹرز میں تبدیل کی جا سکتی ہیں۔ زیر زمین واقع ان عمارتوں کی کچھ منزلوں کو مہاجر سینٹر بنا دینے کے باوجود انتہائی نچلی منزلوں کو پھر بھی پارکنگ کے لیے استعمال میں لایا جا سکے گا۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
منفرد طرز کے موبائل گھر
ہینوور کے شمال میں واقع ایک پرانا کارگو اسٹیشن کئی برسوں سے بند پڑا ہے۔ وہاں بھی مہاجروں کے قیام اور آرام کے لیے عارضی رہائش گاہیں بنائی جا سکتی ہے۔ آرکیٹیکچر کے طالب علموں نے اس اسٹیشن پر استعمال میں نہ لائی جانے والی بوگیوں کی مدد سے گھروں کا ڈیزائن تیار کیا ہے۔ جرمنی کے تقریباﹰ ہر شہر میں ایسے پرانے بے آباد اسٹیشن اب بھی قائم ہیں، جنہیں مہاجرین کی رہائش گاہوں کے طور پر کارآمد بنایا جا سکتا ہے۔