جرمنی میں سات شہروں کے میئرز نے حکومت کے نام ایک مشترکہ مکتوب میں کم عمر پناہ گزینوں کو اپنے شہروں میں پناہ دینے کی اجازت طلب کی ہے۔
اشتہار
جرمنی کے سات شہروں کے میئرز نے وفاقی حکومت کے نام اپنے مشترکہ خط میں لکھا ہے کہ ان کے شہروں کو یونان کے پناہ گزین کیمپوں کے نابالغ تارکین وطن کو اپنانے کی اجازت دی جائے۔ یونان کے پناہ گزیں کیمپوں میں پھنسے کم عمر مہاجرین کو پناہ دینے سے متعلق وفاقی جرمن پارلیمان میں ایک قرارداد مسترد ہونے کے بعد میئرز نے حکومت کے نام یہ خط لکھا ہے۔
اس عرضی نامے پر کولون، ڈوسلڈورف، پوٹسڈام، ہینوور، فرائیبرگ، روٹن برگ اور فرینکفرٹ کے میئرز کے ساتھ ساتھ لوئر سیکسونی کے وزیر داخلہ بورس پسٹوریئسٹ نے بھی دستخط کیے ہیں۔ دو روز قبل ہی جرمنی کے ایوان زیریں میں یونان کے پناہ گزیں کیمپوں میں مقیم نابالغ تارکین وطن کو لینے کے لیے جو قرارداد پیش کی گئی تھی وہ نا منظور ہوگئی تھی۔
ہینوور کے ایک میڈیا ادارے آر این ڈی نے اس مشترکہ مکتوب کے اقتباسات شائع کیے ہیں۔ اس میں کہا گيا ہے، ’’یونان کے جزیرے پر گزشتہ چند روز میں ڈرامائی طور پر صورت حال بدترہوئی ہے۔ خاص طور پر بچوں اور خواتین کے لیے جہاں کیمپوں میں گنجائش سے زیادہ لوگ ہیں، جس میں انتہائی ضروری سہولتیں اور بنیادی طبی سہولیات موجود نہیں اور ماحول ناقابل برداشت ہے۔‘‘
تارکین وطن کی سماجی قبولیت، کن ممالک میں زیادہ؟
’اپسوس پبلک افیئرز‘ نامی ادارے نے اپنے ایک تازہ انڈیکس میں ستائیس ممالک کا جائزہ لے کر بتایا ہے کہ کن ممالک میں غیر ملکیوں کو مرکزی سماجی دھارے میں قبول کرنے کی صلاحیت زیادہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/ dpa
۱۔ کینیڈا
پچپن کے مجموعی اسکور کے ساتھ تارکین وطن کو معاشرتی سطح پر ملک کا ’حقیقی‘ شہری تسلیم کرنے میں کینیڈا سب سے نمایاں ہے۔ کینیڈا میں مختلف مذاہب، جنسی رجحانات اور سیاسی نظریات کے حامل غیر ملکیوں کو مرکزی سماجی دھارے میں شامل کر لیا جاتا ہے۔ ترک وطن پس منظر کے حامل ایسے افراد کو، جو کینیڈا میں پیدا ہوئے، حقیقی کینیڈین شہری کے طور پر قبول کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/N. Denette
۲۔ امریکا
انڈیکس میں امریکا دوسرے نمبر پر ہے جس کا مجموعی اسکور 54 رہا۔ امریکی پاسپورٹ حاصل کرنے والے افراد اور ترک وطن پس منظر رکھنے والوں کو حقیقی امریکی شہری کے طور پر ہی سماجی سطح پر قبول کیا جاتا ہے۔
تصویر: Picture-Alliance/AP Photo/S. Senne
۳۔ جنوبی افریقہ
تارکین وطن کی سماجی قبولیت کے انڈیکس میں 52 کے مجموعی اسکور کے ساتھ جنوبی افریقہ تیسرے نمبر پر ہے۔ مختلف مذاہب کے پیروکار غیر ملکیوں کی سماجی قبولیت کی صورت حال جنوبی افریقہ میں کافی بہتر ہے۔ تاہم 33 کے اسکور کے ساتھ معاشرتی سطح پر شہریت کے حصول کے بعد بھی غیر ملکیوں کو بطور ’حقیقی‘ شہری تسلیم کرنے کا رجحان کم ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Khan
۴۔ فرانس
چوتھے نمبر پر فرانس ہے جہاں سماجی سطح پر غیر ملکی ہم جنس پرست تارکین وطن کی سماجی قبولیت دیگر ممالک کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ تاہم جنوبی افریقہ کی طرح فرانس میں بھی پاسپورٹ حاصل کرنے کے باوجود تارکین وطن کو سماجی طور پر حقیقی فرانسیسی شہری قبول کرنے کے حوالے سے فرانس کا اسکور 27 رہا۔
تصویر: Reuters/Platiau
۵۔ آسٹریلیا
پانچویں نمبر پر آسٹریلیا ہے جس کا مجموعی اسکور 44 ہے۔ سماجی سطح پر اس ملک میں شہریت حاصل کر لینے والے غیر ملکیوں کی بطور آسٹریلین شہری شناخت تسلیم کر لی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں غیر ملکی افراد کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں کو بھی معاشرہ حقیقی آسٹریلوی شہری قبول کرتا ہے۔
تصویر: Reuters
۶۔ چلی
جنوبی افریقی ملک چلی اس فہرست میں بیالیس کے اسکور کے ساتھ چھٹے نمبر پر ہے۔ ہم جنس پرست غیر ملکی تارکین وطن کی سماجی قبولیت کے حوالے سے چلی فرانس کے بعد دوسرا نمایاں ترین ملک بھی ہے۔ تاہم دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو ملکی مرکزی سماجی دھارے کا حصہ سمجھنے کے حوالے سے چلی کا اسکور محض 33 رہا۔
تصویر: Reuters/R. Garrido
۷۔ ارجنٹائن
ارجنٹائن چالیس کے مجموعی اسکور کے ساتھ اس درجہ بندی میں ساتویں نمبر پر ہے۔ تارکین وطن کی دوسری نسل اور ہم جنس پرست افراد کی سماجی سطح پر قبولیت کے حوالے سے اجنٹائن کا اسکور 65 سے زائد رہا۔
تصویر: Reuters/R. Garrido
۸۔ سویڈن
سویڈن کا مجموعی اسکور 38 رہا۔ ہم جنس پرست تارکین وطن کی قبولیت کے حوالے سے سویڈن کو 69 پوائنٹس ملے جب کہ مقامی پاسپورٹ کے حصول کے بعد بھی تارکین وطن کو بطور حقیقی شہری تسلیم کرنے کے سلسلے میں سویڈن کو 26 پوائنٹس دیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
۹۔ سپین
تارکین وطن کی سماجی قبولیت کے لحاظ سے اسپین کا مجموعی اسکور 36 رہا اور وہ اس فہرست میں نویں نمبر پر ہے۔ ہسپانوی شہریت کے حصول کے بعد بھی غیر ملکی افراد کی سماجی قبولیت کے ضمن میں اسپین کا اسکور محض 25 جب کہ تارکین وطن کی دوسری نسل کو حقیقی ہسپانوی شہری تسلیم کرنے کے حوالے سے اسکور 54 رہا۔
تصویر: picture-alliance/Eventpress
۱۰۔ برطانیہ
اس درجہ بندی میں پینتیس کے مجموعی اسکور کے ساتھ برطانیہ دسویں نمبر پر ہے۔ اسپین کی طرح برطانیہ میں بھی تارکین وطن کی دوسری نسل کو برطانوی شہری تصور کرنے کا سماجی رجحان بہتر ہے۔ تاہم برطانوی پاسپورٹ حاصل کرنے کے بعد بھی تارکین وطن کو حقیقی برطانوی شہری تسلیم کرنے کے حوالے سے برطانیہ کا اسکور تیس رہا۔
تصویر: Reuters/H. Nicholls
۱۶۔ جرمنی
جرمنی اس درجہ بندی میں سولہویں نمبر پر ہے۔ جرمنی میں دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی سماجی قبولیت کینیڈا اور امریکا کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ اس حوالے سے جرمنی کا اسکور محض 11 رہا۔ اسی طرح جرمن پاسپورٹ مل جانے کے بعد بھی غیر ملکیوں کو جرمن شہری تسلیم کرنے کے سماجی رجحان میں بھی جرمنی کا اسکور 20 رہا۔
تصویر: Imago/R. Peters
۲۱۔ ترکی
اکیسویں نمبر پر ترکی ہے جس کا مجموعی اسکور منفی چھ رہا۔ ترکی میں دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو سماجی سطح پر ترک شہری تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اس ضمن میں ترکی کو منفی بارہ پوائنٹس دیے گئے۔ جب کہ پاسپورٹ کے حصول کے بعد بھی تارکین وطن کو حقیقی ترک شہری تسلیم کرنے کے حوالے سے ترکی کا اسکور منفی بائیس رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/epa/AFP/A. Altan
12 تصاویر1 | 12
اس خط میں کہا گيا ہے کہ تقریباﹰ 140 جرمن شہر اپنے آپ کو محفوظ بتا کر مزید پناہ گزینوں کی مدد کرنے کی خواہش کا اعلان پہلے ہی کر چکے ہیں۔ میئروں نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان شہروں کو ایسے پناہ گزینوں کو جگہ دینے کے لیے فوری طور پر قانونی راہیں مہیا کرے۔ اس کے مطابق جرمنی میں 130 شہروں اور کمیونیٹیز پر مشتمل اتحاد ’سیف ہیون‘ اور بعض جرمن میونسپلٹیز پہلے ہی اس بات کا اعلان کر چکے ہیں کہ وہ ایمرجنسی پروگرام کے تحت چودہ برس تک کی عمر کے ایسے پانچ سو پناہ گزينوں کو فوری طور پر تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں جو یونان کے جزیرے پر برے حالات میں رہنے پر محبور ہیں۔
اس مکتوب میں مزید کہا گیا کہ متعلقہ شہروں میں پناہ گزینوں کو لینے سے متعلق صلاحیتوں کی جانچ کی گئی ہے اور ایسے شہر بچوں کی رہائش، ان کی تعلیم اور پرورش کے لیے پوری طرح سے تیار ہیں۔ ان شہروں میں پناہ کے لیے ’’ان بچوں کو ترجیح دی جائے گی جن کے والدین اب حیات نہیں ہیں اور جو مہاجر کیمپوں میں تنہا رہنے پر مجبور ہیں۔‘‘
یونانی سرحد پر مہاجرین کا رش
02:22
ترکی نے فروری میں کہا تھا کہ وہ پناہ گزینوں کو اب یوروپی یونین میں داخل ہونے سے نہیں روکےگا جس کے بعد جرمن حکومت نے کہا تھا کہ وہ ترکی اور یونان کی سرحد پر پیدا ہونے والی صورت حالات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ ترکی کے اس اعلان کے نتیجے میں ہزاروں تارکین وطن ہمسایہ یونان اور بلغاریہ کی طرف نکل پڑے ہیں۔ ان دونوں یورپی ممالک نے تارکین وطن کی بڑی تعداد کو روکنے کے لیے ترکی کے ساتھ اپنی سرحدوں پر سکیورٹی فورسز کو تعینات کیا ہے۔
جرمنی میں برسر روزگار غیر ملکیوں کا تعلق کن ممالک سے؟
وفاقی جرمن دفتر روزگار کے مطابق جرمنی میں کام کرنے والے بارہ فیصد افراد غیر ملکی ہیں۔ گزشتہ برس نومبر تک ملک میں چالیس لاکھ اٹھاون ہزار غیر ملکی شہری برسر روزگار تھے۔ ان ممالک پر ایک نظر اس پکچر گیلری میں:
تصویر: picture alliance/dpa/H. Schmidt
1۔ ترکی
جرمنی میں برسر روزگار غیر ملکیوں میں سے سب سے زیادہ افراد کا تعلق ترکی سے ہے۔ ایسے ترک باشندوں کی تعداد 5 لاکھ 47 ہزار بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Nietfeld
2۔ پولینڈ
یورپی ملک پولینڈ سے تعلق رکھنے والے 4 لاکھ 33 ہزار افراد گزشتہ برس نومبر تک کے اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں برسر روزگار تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
3۔ رومانیہ
رومانیہ سے تعلق رکھنے والے 3 لاکھ 66 ہزار افراد جرمنی میں کام کر رہے ہیں۔
تصویر: AP
4۔ اٹلی
یورپی یونین کے رکن ملک اٹلی کے بھی 2 لاکھ 68 ہزار شہری جرمنی میں برسر روزگار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/blickwinkel/McPHOTO
5۔ کروشیا
یورپی ملک کروشیا کے قریب 1 لاکھ 87 ہزار شہری جرمنی میں کام کر رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Gerten
6۔ یونان
یورپی یونین کے رکن ملک یونان کے قریب 1 لاکھ 49 ہزار باشندے جرمنی میں برسر روزگار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Steffen
7۔ بلغاریہ
جرمنی میں ملازمت کرنے والے بلغاریہ کے شہریوں کی تعداد بھی 1 لاکھ 34 ہزار کے قریب ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kalaene
8۔ شام
شامی شہریوں کی بڑی تعداد حالیہ برسوں کے دوران بطور مہاجر جرمنی پہنچی تھی۔ ان میں سے قریب 1 لاکھ 7 ہزار شامی باشندے اب روزگار کی جرمن منڈی تک رسائی حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Kögel
9۔ ہنگری
مہاجرین کے بارے میں سخت موقف رکھنے والے ملک ہنگری کے 1 لاکھ 6 ہزار شہری جرمنی میں کام کر رہے ہیں۔
جرمنی میں کام کرنے والے روسی شہریوں کی تعداد 84 ہزار ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/H. Schmidt
17۔ افغانستان
شامی مہاجرین کے بعد پناہ کی تلاش میں جرمنی کا رخ کرنے والوں میں افغان شہری سب سے نمایاں ہیں۔ جرمنی میں کام کرنے والے افغان شہریوں کی مجموعی تعداد 56 ہزار بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.-U. Koch
19۔ بھارت
بھارتی شہری اس اعتبار سے انیسویں نمبر پر ہیں اور جرمنی میں کام کرنے والے بھارتیوں کی مجموعی تعداد 46 ہزار سے زائد ہے۔
تصویر: Bundesverband Deutsche Startups e.V.
27۔ پاکستان
نومبر 2018 تک کے اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں برسر روزگار پاکستانی شہریوں کی تعداد 22435 بنتی ہے۔ ان پاکستانی شہریوں میں قریب دو ہزار خواتین بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Reinders
13 تصاویر1 | 13
بدھ چار مارچ کو جرمن پارلیمان میں گرین پارٹی نے یونانی پناہ گزیں کیمپوں سے 5000 نابالغوں کو لینے سے متعلق ایک قرارداد کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ اس پر بحث کے دوران جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے تارکین وطن سے متعلق سخت موقف اختیار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یورپی یونین مہاجرین سے متعلق جو موقف اختیار کرے گی جرمنی اسی کے مطابق اقدامات کرے گا۔ سن 2015ء میں تارکین وطن کے بڑے بحران کے دوران پناہ گزینوں کے سب سے مطلوب ترین مقامات میں جرمنی ایک تھا اور اس برس جرمنی نے دس لاکھ سے زیادہ مہاجرین کو پناہ دی تھی۔