جرمنی جوہری معاملے پر نیٹو کو کمزور کر رہا ہے، امریکی الزام
14 مئی 2020
امریکی انٹیلیجنس کے سربراہ اور جرمنی میں امریکی سفیر رچرڈ گرینیل نے کہا ہے کہ برلن اتحادیوں کے ساتھ اپنی وعدوں کا پاس نہیں رکھ رہا۔ ان کا کہنا ہے کہ روس اور چین کی جارحیت کوئی ماضی کے معاملات نہیں ہیں۔
اشتہار
امریکا کی طرف سے گزشتہ برس اپنے جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور ان کی دیکھ بھال پر 35.4 بلین ڈالر خرچ کیے جانے کی ایک رپورٹ کے منظر عام آنے کے محض ایک دن بعد جرمنی میں امریکی سفیر اور امریکی خفیہ ادارے کے حال ہی میں تعینات کردہ سربراہ رچرڈ گرینیل نے جرمن حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ نیٹو کی جوہری صلاحیت کی پالیسی کو جاری رکھنے میں اپنا کردار ادا نہیں کر رہا۔
جرمن روزنامے 'ڈی ویلٹ‘ میں آج جمعرات 14 فروری کو شائع ہونے والے ایک تبصرے میں رچرڈ گرینیل نے خاص طور پر انگیلا میرکل کی اتحادی حکومت میں شامل جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) کو تنقید کا نشانہ بنایا، جو جرمنی سے جوہری ہتھیار ہٹائے جانے کی حامی ہے۔
گرینیل کے بقول اگر صرف سرد جنگ ختم ہو گئی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ یورپ کی سلامتی کو اب کوئی خطرہ نہیں ہے۔
اپنے تبصرے میں انہوں نے مزید لکھا، ''روس کی یوکرائن میں دخل اندازی، روس کی طرف سے یورپ کے قرب میں نئے جوہری میزائلوں کی تنصیب اور چین، شمالی کوریا اور دیگر ممالک کی صلاحیتیں اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ خطرہ اس وقت بھی موجود ہے۔‘‘
نیٹو اتحادی بمقابلہ روس: طاقت کا توازن کس کے حق میں؟
نیٹو اتحادیوں اور روس کے مابین طاقت کا توازن کیا ہے؟ اس بارے میں ڈی ڈبلیو نے آئی آئی ایس ایس سمیت مختلف ذرائع سے اعداد و شمار جمع کیے ہیں۔ تفصیلات دیکھیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: REUTERS
ایٹمی میزائل
روس کے پاس قریب اٹھارہ سو ایسے میزائل ہیں جو ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ نیٹو اتحادیوں کے پاس مجموعی طور پر ایسے 2330 میزائل ہیں جن میں سے دو ہزار امریکا کی ملکیت ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Lo Scalzo
فوجیوں کی تعداد
نیٹو اتحادیوں کے پاس مجموعی طور پر قریب پیتنس لاکھ فوجی ہیں جن میں سے ساڑھے سولہ لاکھ یورپی ممالک کی فوج میں، تین لاکھ بیاسی ہزار ترک اور قریب پونے چودہ لاکھ امریکی فوج کے اہلکار ہیں۔ اس کے مقابلے میں روسی فوج کی تعداد آٹھ لاکھ بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/PAP/T. Waszczuk
ٹینک
روسی ٹینکوں کی تعداد ساڑھے پندرہ ہزار ہے جب کہ نیٹو ممالک کے مجموعی ٹینکوں کی تعداد لگ بھگ بیس ہزار بنتی ہے۔ ان میں سے ڈھائی ہزار ترک اور چھ ہزار امریکی فوج کے ٹینک بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/F. Kästle
ملٹی راکٹ لانچر
روس کے پاس بیک وقت کئی راکٹ فائر کرنے والے راکٹ لانچروں کی تعداد اڑتیس سو ہے جب کہ نیٹو کے پاس ایسے ہتھیاروں کی تعداد 3150 ہے ان میں سے 811 ترکی کی ملکیت ہیں۔
تصویر: Reuters/Alexei Chernyshev
جنگی ہیلی کاپٹر
روسی جنگی ہیلی کاپٹروں کی تعداد 480 ہے جب کہ نیٹو اتحادیوں کے پاس تیرہ سو سے زائد جنگی ہیلی کاپٹر ہیں۔ ان میں سے قریب ایک ہزار امریکا کی ملکیت ہیں۔
تصویر: REUTERS
بمبار طیارے
نیٹو اتحادیوں کے بمبار طیاروں کی مجموعی تعداد چار ہزار سات سو کے قریب بنتی ہے۔ ان میں سے قریب اٹھائیس سو امریکا، سولہ سو نیٹو کے یورپی ارکان اور دو سو ترکی کے پاس ہیں۔ اس کے مقابلے میں روسی بمبار طیاروں کی تعداد چودہ سو ہے۔
تصویر: picture alliance/CPA Media
لڑاکا طیارے
روس کے لڑاکا طیاروں کی تعداد ساڑھے سات سو ہے جب کہ نیٹو کے اتحادیوں کے لڑاکا طیاروں کی مجموعی تعداد قریب چار ہزار بنتی ہے۔ ان میں سے تئیس سو امریکی اور ترکی کے دو سو لڑاکا طیارے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
طیارہ بردار بحری بیڑے
روس کے پاس صرف ایک طیارہ بردار بحری بیڑہ ہے اس کے مقابلے میں نیٹو اتحادیوں کے پاس ایسے ستائیس بحری بیڑے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/newscom/MC3 K.D. Gahlau
جنگی بحری جہاز
نیٹو ارکان کے جنگی بحری جہازوں کی مجموعی تعداد 372 ہے جن میں سے پچیس ترک، 71 امریکی، چار کینیڈین جب کہ 164 نیٹو کے یورپی ارکان کی ملکیت ہیں۔ دوسری جانب روس کے عسکری بحری جہازوں کی تعداد ایک سو کے لگ بھگ ہے۔
نیٹو اتحادیوں کی ملکیت آبدوزوں کی مجموعی تعداد ایک سو ساٹھ بنتی ہے جب کہ روس کے پاس ساٹھ آبدوزیں ہیں۔ نیٹو ارکان کی ملکیت آبدوزوں میں امریکا کی 70 اور ترکی کی 12 آبدوزیں ہیں جب کہ نیٹو کے یورپی ارکان کے پاس مجموعی طور پر بہتر آبدوزیں ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Bager
دفاعی بجٹ
روس اور نیٹو کے دفاعی بجٹ کا موازنہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ روس کا دفاعی بجٹ محض 66 بلین ڈالر ہے جب کہ امریکی دفاعی بجٹ 588 بلین ڈالر ہے۔ نیٹو اتحاد کے مجموعی دفاعی بجٹ کی کل مالیت 876 بلین ڈالر بنتی ہے۔
تصویر: picture alliance/chromorange
11 تصاویر1 | 11
امریکی سفیر کے مطابق جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس جو ایس پی ڈی کے رُکن ہیں، جرمنی کو 'امن کی ایک طاقت‘ بنانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے لکھا، ''اس یکجہتی کو نقصان پہنچانے کی بجائے، جو نیٹو کی جوہری دفاعی صلاحیت کی بنیاد ہے، اب وقت ہے کہ جرمنی کو اور خاص طور پر ایس پی ڈی کو اس بات کی واضاحت کرنا چاہیے کہ حکومت اپنی وعدوں کی پاسداری کر رہی ہے۔‘‘
’اپنی ذمہ داری پوری کریں‘
گرینیل کا کہنا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ سمیت امریکا جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کا حامی ہے مگر ساتھ ہی جوہری ہتھیار رکھنے کو روس اور شمالی کوریا کے خلاف دفاع کے لیے ضروری سمجھتا ہے۔ مگر حقیقت میں ایک طرف تو امریکی ٹیکس دہندگان کو ایک برس قبل کے مقابلے میں گزشتہ برس جوہری ہتھیاروں کی مدد میں 5.9 بلین ڈالرز زیادہ ادا کرنا پڑے تو دوسری طرف امریکا نے روس کے ساتھ 32 سالہ جوہری معاہدے سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے جرمنی میں موجود امریکی جوہری ہتھیاروں کو جدید بنانے کے عزم کا بھی اعلان کیا۔
اپنے تبصرے میں امریکی سفیر نے لکھا کہ نیٹو کی مشرقی یورپی رکن ریاستوں کو روس کے خطرے سے محفوظ رکھنا امریکا اور جرمنی جیسے بڑے رکن ممالک کی ذمہ داری ہے۔
امریکا جوہری ہتھیار جرمنی سے ہٹائے، ایس پی ڈی کا مطالبہ
رواں ماہ کے آغاز میں ہی جرمنی کی اتحادی حکومت میں شامل جماعت ایس پی ڈی کے پارلیمانی سربراہ نے مطالبہ کیا تھا کہ امریکا جرمن سرزمین پر نصب جوہری ہتھیار ہٹائے۔
سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے پارلیمانی سربراہ رالف مؤٹزینش کے بقول جرمن سرزمین پر امریکی جوہری ہتھیار، جرمنی کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں اور اسی لیے انہیں ہٹایا جانا چاہیے۔ مؤٹزینش کے بقول، ''جرمن سرزمين پر جوہری ہتھیار ہماری سلامتی کو بڑھاتے نہیں، بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''اب وقت آ گیا ہے کہ جرمنی مستقبل میں ان کی تنصیب کی اجازت نہ دے۔‘‘ مؤٹزینش کے بقول اس طرح کی پیشرفت سے جرمنی کی مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی رکنیت پر کوئی سوال نہیں اٹھے گا۔
خیال رہے کہ رچرڈ گرینیل کے ایسے بیانات پہلے بھی جرمنی حکام اور عوام کی تنقید کا سبب بن چکے ہیں جنہیں جرمنی کے داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیا جاتا ہے اور جو کسی سفیر کے کردار سے مطابقت نہیں رکھتے۔ انہیں حال ہی میں امریکی نیشنل انٹیلیجنس کا قائم مقام سربراہ بھی مقرر گیا ہے جو ان کی صدر ٹرمپ سے قربت کا اظہار ہے۔
ا ب ا/ ش ح (الزابیتھ شوماخر)
سربیا کے خلاف نیٹو کی فوجی کارروائی کے بیس برس
سربیا کے خلاف نیٹو کی فوجی کارروائی اقوام متحدہ کی باقاعدہ اجازت کے بغیر چوبیس مارچ سن 1999 کو شروع ہوئی تھی۔ اس عسکری مشن سے سرب فوج کے کوسووو کی البانوی نژاد آبادی پر حملے کنٹرول کیے گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کوسووو کے تنازعے کے ابتدائی اشارے
کوسوو کے تنازعے کی صورت حال سن 1990 کی دہائی میں خراب سے خراب تر ہوتی گئی۔ امن کی تمام کوششیں ناکامی سے دوچار ہونے کے بعد چوبیس مارچ سن1999 کو مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے سرب فوج کے خلاف اپنے فضائی حملوں آغاز کر دیا۔ یہ حملے گیارہ ہفتوں تک جاری رہے۔
تصویر: Eric Feferberg/AFP/GettyImages
غیر متشدد مزاحمتی تحریک کی ناکامی
سن 1980 کی دہائی میں بلغراد حکومت کی طرف سے البانوی نسلی اقلیت کے ثقافتی حقوق کے تحفظ میں ناکامی کے بعد کوسووو کے عوام نے مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ کوسووو کے رہنما ابراہیم روگووا کی یہ سیاسی کوشش اس لیے ناکام ہوئی کہ سرب رہنما سلوبوڈان میلوشیووچ اپنی سوچ میں تبدیلی پر تیار نہیں تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مسلح گوریلا جنگ
حالات پرتشدد ہونے کے بعد کوسووو لبریشن آرمی نے ایک مسلح گوریلا جنگ شروع کر دی۔ اس نے سرب آبادی کے ساتھ ساتھ البانوی نژاد افراد کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ سرب دستوں نے ان دہشت گردانہ حملوں کے جواب میں اس نسلی اقلیت کی ملکیت گھروں اور دکانوں کو نذرآتش کرنا شروع کر دیا۔ ہزار ہا لوگوں جانیں بچاتے ہوئے نقل مکانی پر مجبور ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
منظم بے دخلی
سربیا کی جنگ شدید تر ہوتی گئی اور اس دوران کوسووو لبریشن آرمی کی طرف سے سخت مزاحمت کے تناظر میں سرب فوجوں نے عام شہریوں کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ ہزارہا ’کوسووار‘ باشندوں کو ریل گاڑیوں اور ٹرکوں کے ذریعے سرحدی علاقوں کی جانب منتقل کر دیا گیا۔ ان کی اکثریت کے پاس اپنی شناختی دستاویزات تک نہیں تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مذاکرات کی آخری کوشش بھی ناکام
امریکا، فرانس، جرمنی، برطانیہ اور روس نے اس تنازعے کے فریقین کو فروری سن 1999 میں پیرس کے نواحی علاقے ریمبولے میں منعقدہ ایک کانفرنس میں مدعو کیا تاکہ کوسووو کے لیے عبوری خودمختاری کا سمجھوتہ طے پا سکے۔ کوسووو نے اس ڈیل پر رضامندی ظاہر کر دی لیکن سربیا نے کوئی رعایت دینے سے انکار کر دیا تو یہ مذاکرات بھی ناکام ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
’انسانیت کے نام پر فوجی مداخلت‘
چوبیس مارچ سن 1999 کو نیٹو نے سربیا کے فوجی اور اسٹریٹیجک مقامات کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کیا تا کہ کوسووو کی البانوی نژاد آبادی کو پرتشدد حملوں سے بچایا جا سکے۔ جرمنی بھی ان حملوں میں شریک تھا۔ مغربی دفاعی اتحاد کی قیام کے بعد کے پچاس برسوں کی تاریخ میں یہ نیٹو کی پہلی جنگ کارروائی تھی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس کی حمایت نہیں کی تھی اور روس نے نیٹو کی اس کارروائی کی شدید مذمت کی۔
تصویر: U.S. Navy/Getty Images
بنیادی ڈھانچے کی تباہی
نیٹو کے جنگی طیاروں نے مسلسل اناسی دنوں تک سینتیس ہزار فضائی مشن مکمل کیے۔ سربیا کے اہم مقامات کو فضائی حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ اس دوران رسد کے راستے ختم کرنے کے لیے بے شمار پل اور ریلوے ٹریک تباہ کر دیے گئے۔ سربیا پر بمباری کے علاوہ دو ہزار راکٹ بھی داغے گئے، جس دوران بہت سے عام شہری بھی مارے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پانچیوو کے اوپر زہریلے بادل
بلغراد کے قریبی شہر پانچیوو کی کیمیائی کھاد بنانے والی ایک فیکٹری پر بھی نیٹو کے جنگی طیاروں نے بم برسائے۔ اس حملے کے بعد اس فرٹیلائزر فیکٹری سے انتہائی مضر کیمیائی مادہ دھوئیں کی صورت میں پانچیوو کی فضا میں پھیل گیا۔ سربیا نے نیٹو پر الزام لگایا کہ اس حملے میں کلسٹر بموں کے ساتھ ساتھ افزودہ یورینیم والے ہتھیار بھی استعمال کیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جنگی پراپیگنڈے کے خلاف بھی جنگ
سربیا کے رہنما سلوبوڈان میلوشیووچ کے پراپیگنڈے کو روکنے کے لیے نیٹو کے جنگی طیاروں کو بلغراد کے ٹیلی وژن اسٹیشن کو بھی نشانہ بنانا پڑا۔ اس حملے سے قبل سربیا کی حکومت کو مطلع بھی کر دیا گیا تھا۔ اس حملے میں سولہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
غلط اہداف پر بمباری
نیٹو کی بمباری کے دوران ایک مرتبہ البانوی نژاد مہاجرین کا ایک قافلہ بھی نشانہ بن گیا تھا، جس میں اسی افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اسی طرح بلغراد میں چینی سفارت خانے پر بھی غلطی سے بم گرنے سے چار افراد کی موت ہوئی۔ اس واقعے کے بعد بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان ایک شدید سفارتی تنازعہ بھی پیدا ہو گیا تھا۔
تصویر: Joel Robine/AFP/GettyImages
المناک میزانیہ
سلوبوڈان میلوشیووچ کی طرف سے ہتھیار پھینکنے کے ابتدائی پیغام سے ہی خوف و ہراس کے سلسلے میں کمی پیدا ہونے لگی تھی۔ نیٹو نے انیس جون سن 1999 سے بمباری بند کرنے کا عندیہ دے دیا۔ اس جنگ میں ہزاروں افراد ہلاک اور ساڑھے آٹھ لاکھ سے زائد افراد بےگھر ہو گئے تھے۔ سرب معیشت زوال پذیر تھی اور بیشتر انتظامی ڈھانچے تباہ ہو گئے تھے۔ پھر کوسووو کو اقوام متحدہ کی نگرانی میں دے دیا گیا۔