برلن نے مہاجرین کو یوں خوش آمدید کہا کہ وہ ’اُڑنے لگے‘
شمشیر حیدر2 مارچ 2016
جرمنی کے دارالحکومت برلن میں دنیا کے نامور موسیقاروں نے تارکین وطن کے لیے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ کنسرٹ میں شریک شامی مہاجر محمد کا کہنا تھا، ’’ایک لمحے کے لیے میں سب کچھ بھول گیا۔‘‘
اشتہار
تارکین وطن کے لیے اس مفت کنسرٹ کا اہتمام برلن کے مشہور زمانہ فِل ہارمونک ہال میں کیا گیا تھا جس میں بائیس سو سے زائد پناہ گزین اور ان کی مدد میں مصروف رضاکار شریک ہوئے۔ پچیس سالہ محمد بھی ان سینکڑوں تارکین وطن میں سے ایک تھا اور اس نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہا، ’’ہم نے مہاجر بن کر بہت تکلیفیں برداشت کی ہیں لیکن میں اس لمحے کا معترف ہوں۔‘‘
کنسرٹ کے دوران دنیا بھر سے آئے ہوئے نامور فنکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ فِل ہارمونک ہال کے جنرل مینیجر مارٹن ہوفمان نے کنسرٹ کے آغاز پر پناہ گزینوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا، ’’ہم آپ کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے برلن میں خوش آمدید کہتے ہیں۔ ایک زبان ہے جو ہم سب کو سمجھ آتی ہے، اور وہ ہے موسیقی کی زبان۔‘‘
محفل موسیقی کا اہتمام اگرچہ جرمن وفاقی چانسلر انگیلا میرکل کی سرپرستی میں کیا گیا تھا تاہم ان کی نمائندگی جرمنی کے وفاقی وزیر خزانہ وولف گانگ شوئبلے نے کی۔ اس موقع پر تارکین وطن کے بچوں کی بھی بڑی تعداد موجود تھی۔
ڈیڑھ گھنٹے کی محفل موسیقی نے حاضرین کو ایک اور ہی دنیا میں پہنچا دیا۔ شامی مہاجر خاتون میسرہ کا کہنا تھا، ’’یہ حیرت انگیز تھا، مجھے یوں لگا جیسے میں بادلوں میں اڑ رہی ہوں۔ کنسرٹ بہترین تھا اور موسیقی شاندار۔‘‘
میسرہ کا کہنا تھا کہ خانہ جنگی شروع ہونے سے پہلے وہ شامی دارالحکومت دمشق میں بھی موسیقی کی ایسی محافل میں جایا کرتی تھی، لیکن جرمنی میں وہ پہلی مرتبہ کسی کنسرٹ میں شریک ہوئی ہے۔
اسرائیلی فنکار ڈینئل بارنبوئم نے اپنے فن کا اظہار کرنے سے قبل حاضرین کو عربی زبان میں خوش آمدید کہا جس کے بعد انہوں نے معروف جرمن موسیقار بیتھوون کی ترتیب کردہ دھن پیش کی۔
تارکین وطن کی مدد کرنے والے ایک سماجی ادارے سے وابستہ انچاس سالہ رضاکار خاتون کوری سنڈرن نے اس محفل کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا، ’’یہ اہم ہے کہ تارکین وطن کو ہر شعبہ زندگی کی جانب سے خوش آمدید کہا جائے کیوں کہ یہاں ایسے لوگ بھی ہیں جو پناہ گزینوں کو ناپسند کرتے ہیں یا ان سے خوفزدہ ہیں۔‘‘
کیمرون سے آئے ہوئے چوبیس سالہ موریس نامی پناہ گزین کا کہنا تھا، ’’میں نے زندگی میں ایسے شاندار کنسرٹ میں شریک ہونے کا خواب تک نہ دیکھا تھا۔ میں بہت خوش اور شکر گزار ہوں کہ ہمیں ایسے شاندار کنسرٹ میں شریک ہونے کا موقع دیا گیا۔‘‘
پاکستانی تارک وطن، اکبر علی کی کہانی تصویروں کی زبانی
اکبر علی بھی ان ہزاروں پاکستانی تارکین وطن میں سے ایک ہے جو مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران جرمنی اور دیگر یورپی ممالک پہنچے۔ اس پرخطر سفر کے دوران علی نے چند مناظر اپنے موبائل فون میں محفوظ کر لیے۔
تصویر: DW/S. Haider
ایران کا ویزہ لیکن منزل ترکی
علی نے پاکستان سے مقدس مقامات کی زیارت کے لیے ایران کا ویزہ لیا۔ ایران سے انسانوں کے اسمگلروں نے اسے سنگلاخ پہاڑوں کے ایک طویل پیدل راستے کے ذریعے ترکی پہچا دیا۔ تین مہینے ترکی کے مختلف شہروں میں گزارنے کے بعد علی نے یونان کے سفر کا ارادہ کیا اور اسی غرض سے وہ ترکی کے ساحلی شہر بودرم پہنچ گیا۔
تصویر: Akbar Ali
میدانوں کا باسی اور سمندر کا سفر
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر سینکڑوں تارکین وطن کو نگل چکا ہے۔ یہ بات علی کو بھی معلوم تھی۔ پنجاب کے میدانی علاقے میں زندگی گزارنے والے علی نے کبھی سمندری لہروں کا سامنا نہیں کیا تھا۔ علی نے اپنے دل سے سمندر کا خوف ختم کرنے کے لیے پہلے سیاحوں کے ساتھ سمندر کی سیر کی۔ پھر درجنوں تارکین وطن کے ہمراہ ایک چھوٹی کشتی کے ذریعے یونانی جزیرے لیسبوس کے سفر پر روانہ ہو گیا۔
تصویر: Akbar Ali
دیکھتا جاتا ہوں میں اور بھولتا جاتا ہوں میں
سمندر کی خونخوار موجوں سے بچ کر جب علی یونان پہنچا تو اسے ایک اور سمندر کا سامنا تھا۔ موسم گرما میں یونان سے مغربی یورپ کی جانب رواں مہاجرین کا سمندر۔ علی کو یہ سفر بسوں اور ٹرینوں کے علاوہ پیدل بھی طے کرنا تھا۔ یونان سے مقدونیا اور پھر وہاں سے سربیا تک پہنچتے پہنچتے علی کے اعصاب شل ہو چکے تھے۔ لیکن منزل ابھی بھی بہت دور تھی۔
تصویر: Akbar Ali
کھنچی ہے جیل کی صورت ہر ایک سمت فصیل
ہزاروں مہاجرین کی روزانہ آمد کے باعث یورپ میں ایک بحرانی کیفیت پیدا ہو چکی تھی۔ علی جب سربیا سے ہنگری کے سفر پر نکلا تو ہنگری خاردار تاریں لگا کر اپنی سرحد بند کر چکا تھا۔ وہ کئی دنوں تک سرحد کے ساتھ ساتھ چلتے ہنگری میں داخل ہونے کا راستہ تلاشتے رہے لیکن ہزاروں دیگر تارکین وطن کی طرح علی کو بھی سفر جاری رکھنا ناممکن لگ رہا تھا۔
تصویر: Akbar Ali
متبادل راستہ: ہنگری براستہ کروشیا
کروشیا اور ہنگری کے مابین سرحد ابھی بند نہیں ہوئی تھی۔ علی دیگر مہاجرین کے ہمراہ بس کے ذریعے سربیا سے کروشیا کے سفر پر روانہ ہو گیا، جہاں سے وہ لوگ ہنگری میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ ہنگری سے بذریعہ ٹرین علی آسٹریا پہنچا، جہاں کچھ دن رکنے کے بعد وہ اپنی آخری منزل جرمنی کی جانب روانہ ہو گیا۔
تصویر: Akbar Ali
جرمنی آمد اور بطور پناہ گزین رجسٹریشن
اکبر علی جب جرمنی کی حدود میں داخل ہوا تو اسے پناہ گزینوں کی رجسٹریشن کے مرکز لے جایا گیا۔ علی نے جرمنی میں پناہ کی باقاعدہ درخواست دی، جس کے بعد اسے جرمنی کے شہر بون میں قائم ایک شیلٹر ہاؤس پہنچا دیا گیا۔ علی کو اب اپنی درخواست پر فیصلہ آنے تک یہاں رہنا ہے۔ اس دوران جرمن حکومت اسے رہائش کے علاوہ ماہانہ خرچہ بھی دیتی ہے۔ لیکن علی کا کہنا ہے کہ سارا دن فارغ بیٹھنا بہت مشکل کام ہے۔
تصویر: DW/S. Haider
تنہائی، فراغت اور بیوی بچوں کی یاد
علی جرمن زبان سے نابلد ہے۔ کیمپ میں کئی ممالک سے آئے ہوئے مہاجرین رہ رہے ہیں۔ لیکن علی ان کی زبان بھی نہیں جانتا۔ اسے اپنے بچوں اور بیوی سے بچھڑے ہوئے سات ماہ گزر چکے ہیں۔ اپنے خاندان کا واحد کفیل ہونے کے ناطے اسے ان کی فکر لاحق رہتی ہے۔ اس کا کہنا ہے، ’’غریب مزدور آدمی ہوں، جان بچا کر بھاگ تو آیا ہوں، اب پچھتاتا بھی ہوں، بیوی بچوں کے بغیر کیا زندگی ہے؟ لیکن انہی کی خاطر تو سب کچھ کر رہا ہوں۔‘‘