برلن پریڈ: ہم جنس پسندوں کا جشن، مساوی حقوق کی مانگ
28 جولائی 2019
’کرسٹوفر اسٹریٹ ڈے‘ کے موقع پر مختلف رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے لاکھوں ہم جنس پسند افراد تعصب کے خاتمے کے غرض سے برلن پریڈ میں شریک ہوئے۔
اشتہار
جرمن دارالحکومت برلن کی اکتالیسویں 'ایل جی بی ٹی پریڈ‘ میں تقریباﹰ چھ لاکھ افراد نے ہم جنس پسندوں کے خلاف بڑھتے تعصب کو روکنے کے حق میں آواز بلند کی۔ 'کرسٹوفر اسٹریٹ ڈے‘ پر ہفتہ 27 جولائی کو برلن کی مرکزی شاہراہیں جیسے قوسِ قزح کا منظر پیش کر رہی تھیں۔ LGBT برادری کے 'رینبو فلیگ‘ کو ایک متنوع معاشرے کی علامت مانا جاتا ہے۔
ہم جنس پسند افراد اور 'ایل جی بی ٹی‘ برادری برلن پریڈ میں آزادی سے اپنی جنسی شناخت کا جشن مناتے ہیں۔ اس مرتبہ برلن پریڈ میں ہم جنس پسندوں نے جشن کے ساتھ ساتھ LGBT کمیونٹی کے لیے برداشت اور مساوی حقوق کی مانگیں کی۔ اس پریڈ میں شامل ماحولیاتی تبدیلی کے سرگرم کارکنان نے queersforfuture# کے ہیش ٹیگ کے ساتھ ماحولیاتی تحفظ میں ایل جی بی ٹی کمیونٹی کے کردار کو فروغ دینے کے عزم کا اظہار کیا۔
50 برس قبل نیویارک شہر میں اسٹون وال کے مقام پر ہونے والے پرتشدد واقعات، ہم جنس پسند افراد کے حقوق کے لیے مہم کا نقطہ آغاز ثابت ہوئے تھے۔ ایل جی بی ٹی افراد کے حقوق کو دنیا کے بہت سے ممالک میں تسلیم کیا جا چکا ہے لیکن آج بھی مختلف ممالک میں سیاسی و سماجی سطح پر ہم جنس پسند افراد کے خلاف تعصب اور نفرت دیکھی جاتی ہے۔
برلن میں امریکی سفارتخانے کے سامنے 'رینبو فلیگ‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے احکامات جاری کیے گئے کہ دنیا بھر میں قائم امریکی سفارتخانوں میں 'کرسٹوفر اسٹریٹ ڈے‘ کی تقریبات کے موقع پر امریکی پرچم کے ساتھ 'رینبو فلیگ‘ نہیں لہرایا جائے گا۔ تاہم برلن میں امریکی سفیر رچرڈ گرینیل نے اس کا ایک تخلیقی حل یہ نکالا کہ سفارتخانے کی عمارت کی بجائے انہوں نے اس عمارت کے سامنے ایل جی بی ٹی پرچم لہرایا۔ واضح رہے امریکی سفیر رچرڈ گرینیل اعلانیہ طور پر ہم جنس پرست ہیں۔
انتہائی دائیں بازو کے خلاف احتجاج
برلن پریڈ میں موجود متعدد شرکا نے جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت اور قدامت پسند نظریے کے حامل افراد کے خلاف مختلف بینرز بھی اٹھا رکھے تھے۔ اس پریڈ میں شامل دنیا بھر کی ایل جی بی ٹی برادری نے ایک واضح پیغام دیا کہ ہم جنس پسندوں کے ساتھ امتیازی سلوک کو ختم کیا جائے۔
ع آ / ا ب ا (نیوز ایجنسیاں)
ایسے ممالک جہاں ہم جنس پسند شادی کر سکتے ہیں
تائیوان ایشیا کا پہلا ملک بن گیا ہے، جہاں ہم جنس پسند قانونی طور پر شادی کر سکتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اب تک کن ممالک میں ہم جنس پسندوں کی شادیوں کو ریاستی تحفظ فراہم کیا جا چکا ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images/S. Yeh
ہالینڈ، سن دو ہزار ایک
ہالینڈ دنیا کا پہلا ملک تھا، جہاں ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی اجازت دی گئی۔ ڈچ پارلیمان نے اس تناظر میں سن دو ہزار میں ایک قانون کی منظوری دی تھی۔ یکم اپریل سن دو ہزار ایک کو دنیا میں پہلی مرتبہ دو مردوں کے مابین شادی کی قانونی تقریب منعقد ہوئی۔ یہ شادی تھی اس وقت ایمسٹرڈیم کے میئر جاب کوہن کی۔ اب ہالینڈ میں ہم جنس جوڑے بچوں کو بھی گود لے سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ANP/M. Antonisse
بیلجیم، سن دو ہزار تین
ہالینڈ کا ہمسایہ ملک بیلجیم دنیا کا دوسرا ملک تھا، جہاں پارلیمان نے ہم جنس پسندوں کی شادی کو قانونی اجازت دی گئی۔ سن دو ہزار تین میں ملکی پارلیمان نے قانون منظور کیا کہ خواتین یا مرد اگر آپس میں شادی کرتے ہیں تو انہیں وہی حقوق حاصل ہوں گے، جو شادی شدہ جوڑوں کو حاصل ہوتے ہیں۔ اس قانون کے منظور ہونے کے تین برس بعد ہم جنس جوڑوں کو بچے گود لینے کی اجازت بھی دے دی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/J. Warnand
ارجنٹائن، سن دو ہزار دس
ارجنٹائن لاطینی امریکا کا پہلا جبکہ عالمی سطح پر دسواں ملک تھا، جہاں ہم جنسوں کے مابین شادی کو ریاستی تحفظ فراہم کیا گیا۔ جولائی سن دو ہزار دس میں ملکی سینیٹ میں یہ قانون 33 ووٹوں کے ساتھ منظور ہوا جبکہ 27 ووٹ اس کے خلاف دیے گئے۔ اسی برس پرتگال اور آئس لینڈ نے بھی ہم جنس پسندوں کی شادی کو قانونی بنانے کے حوالے سے قوانین منظور کیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/L. La Valle
ڈنمارک، سن دو ہزار بارہ
ڈنمارک کی پارلیمان نے جون سن دو ہزار بارہ میں بڑی اکثریت کے ساتھ ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی قانونی اجازت دی۔ اسکینڈے نیویا کا یہ چھوٹا سا ملک سن 1989 میں اس وقت خبروں کی زینت بنا تھا، جب وہاں ہم جنس جوڑوں کو سول پارٹنرشپ کے حقوق دیے گئے تھے۔ ڈنمارک میں سن دو ہزار نو سے ہم جنس پسندوں کو اجازت ہے کہ وہ بچے گود لے سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/CITYPRESS 24/H. Lundquist
نیوزی لینڈ، سن دو ہزار تیرہ
نیوزی لینڈ میں ہم جنس پسند مردوں اور خواتین کو شادی کی اجازت سن دو ہزار تیرہ میں ملی۔ یہ ایشیا پیسفک کا پہلا جبکہ دنیا کا پندرہواں ملک تھا، جہاں ہم جنس پسندوں کو شادی کی اجازت دی گئی۔ نیوزی لینڈ میں انیس اگست کو ہم جنس پسند خواتین لینلی بنڈال اور ایلی وانیک کی شادی ہوئی۔ فرانس نے بھی سن دو ہزار تیرہ میں ہم جنس پسندوں کو شادی کی قانونی اجازت دی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/Air New Zealand
آئر لینڈ، سن دو ہزار پندرہ
آئرلینڈ ایسا پہلا ملک ہے، جہاں ایک ریفرنڈم کے ذریعے ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی اجازت کا قانون منظور ہوا۔ اس ریفرنڈم میں دو تہائی سے زائد اکثریت نے ہم جنسوں کے مابین شادی کی حمایت کی تو تب ہزاروں افراد نے دارالحکومت ڈبلن کی سڑکوں پر نکل کر خوشیاں منائیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/A. Crawley
امریکا، سن دو ہزار پندرہ
امریکا میں چھبیس جون سن دو ہزار پندرہ کو سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ سنایا کہ ملکی آئین ہم جنسوں کی مابین شادیوں کی قانونی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ اسی فیصلے کی بدولت امریکا بھر میں ہم جنس جوڑوں کے مابین شادی کی راہ ہموار ہوئی۔ اس سے قبل بارہ برس تک امریکی سپریم کورٹ نے ہم جنس پسند افراد کے مابین شادی کو غیر آئینی قرار دیے رکھا تھا۔
جرمنی یورپ کا پندرہواں ملک تھا، جہاں ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی قانونی اجازت دی گئی۔ تیس جون کو بنڈس ٹاگ میں 226 کے مقابلے میں یہ قانون 393 ووٹوں سے منظور کیا گیا۔ اگرچہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اس قانون کے خلاف ووٹ دیا تاہم انہوں نے اس کے منظور کیے جانے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کی۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Wire/O. Messinger
آسٹریلیا، سن دو ہزار سترہ۔ اٹھارہ
آسٹریلوی میں ایک پوسٹل سروے کرایا گیا، جس سے معلوم ہوا کہ اس ملک کی اکثریت ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی حمایت کرتی ہے تو ملکی پارلیمان نے دسمبر 2017 میں اس سلسلے میں ایک قانون منظور کر لیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Hamilton
تائیوان، سن دو ہزار انیس
تائیوان ایشیا کا پہلا ملک ہے، جہاں ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کو قانونی تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ سترہ مئی سن دو ہزار سترہ کو ملکی پارلیمان نے اس حوالے سے ایک تاریخی مسودہ قانون منظور کیا۔ اس قانون کی منظوری پر صدر نے کہا کہ ’حقیقی برابری کی طرف یہ ایک بڑا قدم ہے‘۔