جرمن اداروں کو غیر ملکی ملکیت میں جانے سے روکنے کا منصوبہ
7 فروری 2019
جرمن وزیر اقتصادیات پیٹر آلٹمائر پر اپنی ’قومی صنعتی پالیسی 2030ء‘ بیان کرنے سے قبل ہی اس کا دفاع کرنے کے حوالے سے دباؤ بڑھ گیا تھا۔ حالانکہ ابھی تک اس بارے میں تمام تفصیلات سامنے نہیں آئی بھی نہیں تھیں۔
اشتہار
وفاقی جرمن وزیر اقتصادیات پیٹر آلٹمائر نے ملک کی صنعتی شعبے کو بہتر بنانے اور ٹیکنالوجی اور جدت پسندی میں بین الاقوامی مسابقت میں اضافے کے لیے ایک متنازعہ منصوبہ متعارف کرایا ہے۔ناقدین آلٹمائر پر تجارت میں ریاستی مداخلت کا الزام عائد کر رہے ہیں۔
یہ پہلی مرتبہ ہے کہ آلٹمائر نے ’قومی صنعتی پالیسی 2030ء‘ کو تفصیلی انداز میں بیان کیا ہے۔ اس پالیسی کے کچھ اہم حصے پہلے ہی گزشتہ ہفتے جرمن ذرائع ابلاغ تک پہنچ گئے تھے، جس کی باعث وزیر تحفظ تجارت اور سرکاری مداخلت کے دعوؤں کے دفاع پر مجبور ہو گئے۔
سرکاری شعبے کو لازمی طور پر اختراعی شعبے کو تعاون فراہم کرنا ہو گا اور اہم ٹیکنالوجیز کو جرمنی اور یورپ لانے میں مدد کرنا ہو گی۔ نئی سماجی اور ماحولیاتی پالیسیوں کو دیکھتے ہوئے کاروبار پر اٹھنے والے اخراجات کو کم کرنا ہو گا۔
مسابقت کے قانون پر مکمل طور پر نظر ثانی کی جائے تاکہ کسی خاص حالات میں جب ایک بڑی کمپنی عالمی سطح پر بہتر مقابلہ کر سکتی ہو تو دیگر چھوٹی کمپنیوں کے ایک دوسرے میں ضم ہونے کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔
جرمن اور یورپی کمپنیوں کے اعتماد میں لازمی طور پر اضافہ کیا جائے تاکہ وہ ٹیکنالوجی کے شعبے کی اہم کمپنیوں کو خرید سکیں۔
غیر معمولی حالات میں ریاست کو جزوی طور پر کاروباری اداروں کو قومیانے کی اجازت دینا ہو گی تا کہ بزنس کو کسی غیر ملکی سرمایہ کار کے ہاتھوں میں جانے سے تحفظ فراہم کیا جا سکے۔
ایک سرمایہ کاری فنڈ قائم کیا جائے تاکہ جزوی طور پر قومیائی گئی کمپنیوں کو تعاون فراہم کیا جا سکے۔ یہ تعاون محدود مدت کے لیے ہو گا۔
جرمن وزیر اقتصادیات آلٹمائر اب اپنی اس قومی پالیسی پر سیاسی جماعتوں اور تاجر تنظیموں کے ساتھ ساتھ بزنس کے شعبے کے نمائندوں سے بات چیت کریں گے۔ جرمن حکومت اس کے بعد ہی سامنے آنے والی نئی صنعتی حکمت عملی کو اپنا سکتی ہے۔
ع ا / ش ح (روئٹرز، ڈی پی اے)
جرمنی میں مردوں کی تدفین بھی ایک منافع بخش کاروبار
جرمنی میں مردوں کی تدفین کرنے والے چار ہزار سے زائد ادارے کام کر رہے ہیں، جن کے اشتہارات اب انٹرنیٹ پر بھی نظر آتے ہیں۔ جرمنی میں مردوں کی تدفین کے مختلف طریقے، تفصیلات اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: Imago/W. Otto
جرمنی میں مردوں کی تدفین بھی ایک منافع بخش کاروبار
زندگی اور موت ابتدائے حیات سے ہی ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ کسی انسان کی موت کے بعد اس کی آخری رسومات کی ادائیگی ہمیشہ ہی سے ایک پیشہ بھی رہی ہے۔ جرمنی میں اس وقت مردوں کی تدفین کرنے والے چار ہزار سے زائد ادارے کام کر رہے ہیں، جن کے اشتہارات اب انٹرنیٹ پر بھی نظر آتے ہیں، کیونکہ یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.Stratenschulte
کم قیمت تدفین، ایک مشکل عمل
مردوں کی تدفین کبھی صرف مذہبی روایات اور اخلاقی اقدار پر مبنی عمل ہوتا تھا۔ ماضی میں صرف خاندانی ادارے ہی یہ کام کرتے تھے۔ اب جرمنی میں یہ کام چار ہزار سے زائد کمپنیاں کرتی ہیں، جن کی مختلف شہروں میں متعدد شاخیں بھی ہیں۔ سب سے زیادہ آبادی والے جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں کسی مردے کی تدفین کا انتظام 444 سے لے کر 950 یورو تک میں ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ عمل بہت مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔
تصویر: Imago/Werner Otto
میت کو جلانا اب ترجیحی طریقہ
جرمنی میں اوسطاﹰ 45 فیصد مردے دفنائے جاتے ہیں اور قریب 54 فیصد لاشیں جلا دی جاتی ہیں۔ 1999ء میں تابوت میں تدفین کا تناسب 60 فیصد تھا۔ کسی میت کو جلا کر راکھ لواحقین کے حوالے کر دی جاتی ہے، جو راکھ دان کو کسی قبرستان میں دفنا دیتے ہیں۔ راکھ دان کی تدفین تابوت کی تدفین سے کہیں سستی ہوتی ہے۔ جرمن ریاست بریمن تو شہریوں کو اپنے عزیزوں کی راکھ اپنے گھروں کے باغیچوں میں دفنانے کی اجازت بھی دے چکی ہے۔
تصویر: Kai Nietfeld/picture-alliance/dpa
تدفین پر لاگت چار ہزار یورو تک
جرمنی میں مردوں کی آخری رسومات کی ادائیگی مسلسل مہنگی ہوتے جانے کی ایک وجہ تدفین کے متنوع طریقے بھی ہیں۔ تابوت میں بند لاش کو قبر میں دفنانا، میت کا جلا دیا جانا، لاش کو سمندر میں بہا دینا یا پھر کسی خاندانی قبر میں تدفین، خرچے کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ مردے کے لواحقین کا منتخب کردہ طریقہ کار کیا ہے۔ اس طرح آخری رسومات کی ادائیگی پر لاگت ڈھائی ہزار یورو سے لےکر چار ہزار یورو تک ہو سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kembowski
تابوت یا راکھ دان
مردے کی تدفین پر لاگت کا تعین اس بات سے ہوتا ہے کہ اسے دفنایا جائے گا یا جلایا جائے گا۔ میت جلا دی جائے، تو خرچہ کم۔ تب صرف راکھ دفنائی جاتی ہے۔ کبھی کبھی تدفین سستی ہوتی ہے لیکن سماجی تعزیتی تقریبات مہنگی۔ قبر میں دفنانے کے لیے بلدیاتی قبرستانوں میں انفرادی قبریں اکثر سالہا سال کے لیے کرائے پر لی جاتی ہیں۔ کسی قبر پر اگر سنگِ مرمر کا کتبہ بنوا کر لگوایا جائے تو تدفین مزید مہنگی ہو جاتی ہے۔
تصویر: DW/V. Weitz
شرحء اموات زیادہ، شرحء پیدائش کم
2016ء میں نو لاکھ گیارہ ہزار جرمنوں کا انتقال ہوا، جو 2015ء کے مقابلے میں 1.5 فیصد کم تھا۔ جرمنی میں 1972ء سے لے کر آج تک مجموعی شرحء اموات سالانہ شرحء پیدائش سے زیادہ رہی ہے۔ زیادہ شہریوں کی موت کے باعث تدفین کا کاروبار زیادہ ہوا تو وہ مہنگا بھی ہو گیا۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ جرمن زبان میں اگر گوگل پر ’سستی تدفین‘ کو سرچ کیا جائے تو نتائج کی تعداد لاکھوں میں نکلتی ہے۔
تصویر: Imago/R. Oberhäuser
سرکاری مدد سے تدفین کے لیے ساٹھ ملین یورو
جرمنی میں ہزاروں خاندان ایسے بھی ہیں، جو اپنے کسی عزیز کی موت کے بعد اس کی آخری رسومات کی ادائیگی کا خرچ خود برداشت نہیں کر سکتے۔ ایسے شہریوں کی مالی مدد مقامی حکومتیں کرتی ہیں، جنہوں نے اس مد میں 2017ء میں کُل 60 ملین یورو خرچ کیے۔ ان رقوم سے تقریباﹰ 22 ہزار شہریوں کی تدفین میں 750 یورو فی میت کی شرح سے سرکاری مدد کی گئی۔