1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برلن کرسمس مارکیٹ کا خونریز حملہ: اداروں کی غلطیوں کا نتیجہ

9 اگست 2021

برلن میں 2016ء میں کرسمس مارکیٹ پر 16 افراد کی ہلاکت کا سبب بننے والے دہشت گردانہ حملےکی وجہ متعدد سکیورٹی اداروں کی غلطیاں تھیں۔ یہ اعلان جرمن پارلیمان کے ایوان نمائندگان کی انکوائری کمیٹی کی طرف سے 9 اگست کو کیا گیا۔

Deutschland Berlin | Evakuierung Weihnachtsmarkt Breitscheidplatz
تصویر: Reuters/A. Hilse

مسلم دہشت گرد انیس امری، جس نے 2016 ء میں برلن کی ایک کرسمس مارکیٹ پر حملہ کر کے 16 افراد کو ہلاک کر دیا تھا، اس کارروائی سے پہلے ہی وہ پولیس کی نگاہوں میں تھا۔ اس خونریز حملے کے بعد بہت سے افراد یہ سوال کر رہے ہیں کہ اگر پولیس کو انیس امری پر شکوک و شبہات تھے اور وہ اس پر نظر رکھے ہوئی تھی تو آخر یہ دہشت گرد کرسمس مارکیٹ پر حملہ کرنے میں کیسے کامیاب ہوا؟

اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے وفاقی جرمن پارلیمان کے ایوان نمائندگان کی انکوائری کمیٹی نے چھان بین کے بعد پیر 9 اگست کو اپنی حتمی رپورٹ پیش کی۔ اس رپورٹ میں  اس امر کا اقرار کیا گیا ہے کہ 2016  ء میں برلن کے کرسمس بازار پر ہونے والا حملہ دراصل سکیورٹی کے متعدد اداروں کی غلطیوں کے سبب ممکن ہوا۔  اس کمیٹی کے صدر اور کرسچن ڈیموکریٹک یونین سی ڈی یو کے سیاستدان اشٹیفان لنس کا اس رپورٹ کو منظر عام پر لاتے ہوئے کہنا تھا، '' اس واقعے کا کوئی ایک فریق قصوروار نہیں ہے۔ نا ہی کسی ایک فرد کی اس میں غلطی ہے جس کے سبب یہ دہشت گردانہ واقعہ رونما ہوا تھا۔‘‘ تاہم جرمن سیاستدان کا کہنا تھا کہ بہت سی غلطیاں مل کر اس کا سبب بنیں جن کا تعلق کرمنل پولیس اور تحفظ آئین کے ادارے سے ہے۔ انہوں نے کہا،'' ان غلطیوں اور کوتاہیوں کا نتیجہ 2016 ء کا دہشت گردانہ حملہ بنا۔‘‘

برلن کی کرسمس مارکیٹ پر ہونے والے حملے میں ہلاک ہونے والوں کے ساتھ اظہار ہمدردیتصویر: picture alliance/dpa/J. Carstensen

حتمی غلطی

جرمنی کی وفاقی پارلیمانی کمیٹی میں ہونے والی انکوائری کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سب سے فیصلہ کن امر یہ تھا کہ پناہ کے متلاشی تیونسی باشندے انیس امری کو صحیح طور پر جانچا یا سمجھا نہیں گیا۔ یاد رہے کہ امری کی سیاسی پناہ کی درخواست مسترد ہو چکی تھی۔ امری کو گرچہ زیادہ پر تشدد اور زیادہ خطرناک سمجھا جا رہا تھا تاہم 2016 ء موسم گرما سے اس پر سکیورٹی اداروں نے مکمل کڑی نظر نہیں رکھی نا ہی اسٹیٹ کرمنل آفس نے امری کو مبنیہ طور پر 'دھماکہ خیز خطرے‘ کا سبب قرار دیا تھا۔

برلن حملہ: پناہ کا متلاشی پاکستانی رہائی کے بعد کہاں ہے؟

تفتیشی کمیٹی کی کارروائی

امری کیس کی چھان بین یا انکوائری کمیٹی نے چار سالوں کے دوران 67 نشستوں یا میٹنگوں میں 97 گواہان جن میں تحفظ آئین کی عدالت کے استغاثہ، کرمنل پولیس کے محکمے کے متعدد افسران اورسیاستدان شامل تھے سے سوالات کیے۔ اس طویل اور مفصل انکوائری کے بعد سامنے آنے والی رپورٹ 1235 صفحوں پر مشتمل ہے۔ اس میں وفاقی پارلیمان کے متعدد سیاسی دھڑوں کے خصوصی رائے اور بیانات بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اس تفتیشی کارروائی میں وفاقی جرمن پولیس برائے جرائم کے دفتر کے کردار کا بھی تفصیلی جائزہ لیا گیا، جس کے بعد رپورٹ میں کہا گیا کہ امری کے  سلسلے میں  تمام اداروں نے غلط فہمی اور غلط تاثر سے کام لیا۔

وفاقی جرمن پارلیمان میں ایوان نمائندگان کی انکوائری کمیٹی کی طرف سے امری کیس کی چھان بین تصویر: Bernd von Jutrczenka/dpa/picture alliance

حملے سے قبل کے مسائل

چار سال تک جاری چھان بین کے بعد امری کی طرف سے ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کی جو وجوہات پیش کی گئیں ان میں ایک اہم وجہ یہ بھی شامل ہے کہ جرمنی میں مسلم انتہا پسندی اور دہشت گردی سے منسلک جرائم سے نمٹنے کے وفاقی دفتر کے عملے میں افرادی قوت کی کمی ہے۔ اس سلسلے میں پیرس میں ہونے والے حملے کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ اُس کے بعد جرمنی میں اس عملے کے اراکین کی تعداد میں اضافہ کیا جانا چاہیے تھا جو نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ برلن اور مغربی صوبے نارتھ رائن  ویسٹ فیلیا کے ریاستی دفاتر برائے انسداد جرائم جرمنی کی تحفظ آئین کی عدالت اور برلن کے دفتر استغاثہ کے مابین اس بارے میں ناکافی تبادلہ خیال کیا گیا اور امری سے لاحق ''مستقل خطرات سے نمٹنے کے لیے ناکافی انتظام کیا گیا۔‘‘کرسمس مارکیٹ پر حملہ: ایک دن، جو جرمنی کو بدل دے گا، تبصرہ

اس حملے نے برلن کے قلب میں خوف و دہشت پھیلا دی تھیتصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انیس امری پر ہر وقت کڑی نظر رکھی جانی چاہیے تھی اور اس کے ٹیلی فون کالس اور چیٹ وغیرہ کی ہر وقت نگرانی ضروری تھی۔ اس کے علاوہ 2016 ء میں ریاستی دفتر برائے انسداد دہشت گردی 'ایل کے اے‘ نے موسم گرما میں اپنی تفتیشی کاروائیوں کا مرکز انتہائی بائیں بازو کی انتہا پسندی کے واقعات اور مناظر پر مر کوز کر رکھی تھی۔

واضح رہے کہ جرمنی کا انسداد دہشت گردی کا نیا مرکز 2022 اور 2023 ء سے اپنا کام شروع کردے گا۔ پولیس محکمے کو 60 ملین یورو کی رقم فراہم کی گی ہے جس سے نئی گاڑیاں، ہتھیار اور حفاظتی وردیاں وغیرہ خریدی جائیں گی۔ علاوہ ازیں وفاقی جرمن پولیس کے 'آئی ٹی ڈپارٹمنٹ‘ کو بھی جدید تر بنایا جائے گا۔

ک م/ ع آ (ڈی پی اے، بی ڈی ٹی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں