برلن کے وکٹری کالم سے تانبے کی پلیٹیں چوری
21 اگست 2021چوری کی ابتدائی معلومات
جرمن پولیس نے ہفتے کے روز بتایا کہ نامعلوم چوروں نےبرلن میں وکٹری کالم (فتح کا ستون) کی چھت پر نصب تانبے کی پلیٹیں توڑ کر چوری کر لی ہیں۔ اس چوری کا پتہ ضلعی دفتر کے بھیجے گئے ورکرز نے لگایا ہے۔
برلن کا اسٹریٹ آرٹ
برلن شہر کے کئی علاقوں کی گلیوں کی دیواروں پر کی گئی رنگ برنگی ’نقش و نگاری‘ بہت اہمیت رکھتی ہے۔ یہ دانستہ توڑ پھوڑ یا بگاڑ کے زمرے میں بھی آتی ہے۔ لیکن کچھ آرائشی نمونے واقعی فن میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔
کیا یہ آرٹ ہے؟
اسٹریٹ آرٹ کی کوئی بنیادی تعریف دستیاب نہیں ہے۔ بعض اسے آرٹ اور بعض اسے فضول خیال کرتے ہیں۔ اس میں ایک پہلو مشترک ہے کہ اس آرٹ کو آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے کیونکہ یہ عام جگہوں پر ہوتا ہے۔ ایسی پینٹگز کے علاقے کو ’اوپن ایئر آرٹ گیلری‘ بھی کہا جا سکتا ہے۔ کورونا وبا میں انہیں دیکھنا ایک تفریح بھی ہو سکتی ہے۔
فریڈرش شائن: مشرقی سائیڈ والی گیلری
برلن شہر کے ڈسٹرکٹ فریڈرش شائن کی عمارتوں پر کی گئی رنگ برنگی تصویر کشی قابل دید ہے۔ ایسی تصویر کشی بچی کچی دیوار برلن پر بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ ان میں شوخ رنگوں کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس علاقے کی مشرقی سمت والی دیواریں اسٹریٹ فن کا شاندار نمونہ ہیں۔
ٹوئفیل بیرگ کا اسٹریٹ فن
فریڈرش شائن کی مشرقی دیوار کے علاوہ بھی کئی علاقوں میں گمنام مصوروں نے دیواروں پر شاہکار بنا رکھے ہیں۔ ایسی ہی ایک دیوار ٹوئفیل بیرگ کی پہاڑی کے دامن میں ہے۔ اس مقام پر ایک گری ہوئی دیوار کے ساتھ مزید دیوار تعمیر کر کے فنکاروں کو جگہ فراہم کی گئی ہے۔
شاہراہ میرکِش: مارسان ڈسٹرکٹ
برلن کے اس علاقے کے لیے دنیا کے کئی آرٹسٹوں کو دعوت دی گئی کہ وہ ایک مخصوص علاقے کی دیواروں پر بڑی بڑی تصویر یا میورلز تخلیق کریں۔ اوپر کی تصویر کو سن 2019 کے برلن میورل فیسٹ میں دوسرا انعام دیا گیا تھا۔ اس میلے میں مدعو فنکاروں نے بڑے بڑے کینوس پر اپنے شاہکار تخلیق کیے اور وہ عمارتوں کی زینت بنے۔
اورانیئن اسٹریٹ 195: کروئس برگ
یہ ایک تاثر ہے کہ برلن کے اسٹریٹ آرٹ کے کئی نمونے سیاسی پیغام کے حامل ہیں۔ یہ نمونے کروئس برگ ڈسٹرکٹ میں واقع سابقہ دیوار برلن کے محفوظ حصوں پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ تصویر میں میورل (بہت بڑی تصویر) ایک رہائشی عمارت پر سن 2017 میں آویزاں کی گئی تھی۔
برلن کے چڑیا گھر کا علاقہ
یہ تصویر برلن کے چڑیا گھر کے قریب واقع ایک عمارت پر بنائی گئی ہے۔ اس بڑی تصویر کا نام ’ورلڈ ٹری‘ ہے۔ سن 1970 کی دہائی میں جرمن پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا سینیٹ نے ایس تصاویر تخلیق کرنے کے منصوبے کو مالی معاونت فراہم کی تھی۔
لہرٹیر اسٹریٹ 30، موابٹ ڈسٹرکٹ
برلن چڑیا گھر کے باہر بنائی گئی تصویر ’ورلڈ ٹری‘ کو کسی اور فنکار نے موابٹ ڈسٹرکٹ کے مقام لہرٹیر اسٹریٹ تھرٹی پر دوبارہ بنایا۔ اس کا نام ’ورلڈ ٹری ٹُو‘ رکھا گیا ہے۔ اسے اسٹریٹ آرٹ کی تصاویر کو محفوظ بنانے کا عمل خیال کیا گیا ہے۔
ریل گاڑیوں کے ٹریک
اسٹریٹ آرٹ کی ایک مشہور قسم گریفٹی کو خیال کیا جاتا ہے۔اس میں مصور اسپرے پینٹ کا استعمال کرتا ہے۔ اس انداز میں کوئی بھی اور کسی بھی قسم کی سطح کو کینوس بنا لیا جاتا ہے۔ جرمنی میں ریل گاڑی کے ٹریک کے ساتھ دیواریں یا انڈر پاس میں یہ نمونے دستیاب ہیں۔
وسطی برلن کی روزنتھالر اسٹریٹ
اسٹریٹ آرٹ کا ایک اور انداز اسٹیکرز کا مخصوص طریقے سے استعمال ہے۔ ان اسٹیکرز کو کسی اسٹریٹ یا سڑک یا ٹریفک نشان پر چسپاں کرنا ہوتا ہے۔ یہ اسٹیکرز ہر قسم کے ہو سکتے ہیں۔ ٹریفک نشان پر س اسٹیکرز لگانا برلن میں ممنوع بھی ہے۔
اسٹریٹ آرٹ کا ایک منفرد نمونہ
جرمن دارالحکومت کے علاقے شوئنے بیرگ میں ایک ٹریفک سائن کے اوپر دو کارک کے ٹکڑوں پر دو چھوٹے انسانی پتلے بنا کر لگائے گئے ہیں۔ اسکلپچر کا یہ ایک منفرد نمونہ ہے اور اسے بھی اسٹریٹ آرٹ میں شمار کیا گیا ہے۔
اسٹریٹ آرٹ میوزیم
برلن کے شوئنے بیرگ کی دیواروں پر اتنی زیادہ میورلز (بہت بڑی تصاویر) ہیں کہ اس کو سن 2017 میں سرکاری طور پر ’عصری شہری آرٹ کا میوزیم‘ قرار دے دیا گیا ہے۔ ان میں مشہور مصوروں کے ساتھ ساتھ نوآموز فنکاروں کے فن کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
اس چوری کی واردات کا جمعہ کے روز اس وقت معلوم ہوا جب ڈسٹرکٹ آفس کی طرف سے بھیجے گئے گٹر چیک کرنے والے ورکرز نے چھت پر تانبے کی پلیٹوں کے بڑے حصے کو غائب پایا۔
تفتیشی عمل
پولیس کے مطابق ابھی تک یہ واضح نہیں کہ یہ چوری کب ہوئی اور کس نے کی۔ دریں اثناء پولیس نے 'تاریخی اور اہم مواد‘ کی چوری کے حوالے سے تفتیشی عمل شروع کر دیا ہے۔
جرمنی کا فنی شاہکار
برلن میں واقع وکٹری کالم یا فتح کا ستون سن 1864 سے 1871 کے دوران جرمنی کی آسٹریا، فرانس اور ڈنمارک کے خلاف فتوحات کی یاد میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کا ڈیزائن مشہور آرکیٹیکٹ ہائنرش اشٹراک نے بنایا تھا۔ اس کا افتتاح دو ستمبر سن 1873 کو کیا گیا تھا۔
ع آ / ع ح (اے ایف پی، ڈی پی اے)
برلن کا رائش ٹاگ، جمہوریت کا گھر
جرمن دارالحکومت برلن میں واقع تاریخی عمارت رائش ٹاگ کی گنبد نما چھت دنیا بھر میں مشہور ہے۔ یہ عمارت جرمن تاریخ کی کئی میٹھی اور تلخ یادیں ساتھ لیے ہوئے ہے، نازی دور حکومت سے لے کر جرمنی کے اتحاد تک۔
رائش ٹاگ کا لان
رائش ٹاگ کا لان منتخب ارکان پارلیمان کو پرسکون انداز میں غور وفکر کا موقع فراہم کرتا ہے۔ سن انیس سو ننانوے سے یہ عمارت جرمن بنڈس ٹاگ یعنی جرمن پارلیمان کے طور پر استعمال کی جا رہی ہے۔
شیشے کا گنبد
رائش ٹاگ کا منفرد گنبد مشہور آرکیٹیکٹ سر نورمان فوسٹر کی تخلیق ہے۔ برلن آنے والے سیاحوں کے لیے یہ مقام انتہائی مقبول ہے۔ اس گنبد کی اونچائی چالیس میٹر (130فٹ) ہے، جہاں سے برلن کا شاندار نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ اس گنبد سے پارلیمان کا پلینری ہال بھی دیکھا جا سکتا ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ لوگوں کا اجازت ہے کہ وہ قانون سازوں کو مانیٹر بھی کر سکتے ہیں۔
پارلیمان کی شاندار عمارت
رائش ٹاگ کی تاریخی عمارت سن 1894 سے دریائے سپری کے کنارے کھڑی ہے۔ آرکیٹیکٹ پال والوٹ نے جرمن پارلیمان کے لیے پہلی عمارت تخلیق کی تھی، یہ الگ بات ہے کہ تب جرمنی میں بادشاہت کا دور تھا۔
جمہوریت ۔۔۔ بالکونی سے
نو نومبر سن انیس سو اٹھارہ کو جب جرمنی میں بادشاہت کا خاتمہ ہوا تو سوشل ڈیموکریٹ سیاستدان فیلپ شائڈے من نے جرمنی کو جمہوریہ بنانے کا اعلان کیا۔ اس عمارت کے بائیں طرف واقع یہ بالکونی اسی یاد گار وقت کی ایک علامت قرار دی جاتی ہے، یعنی جمہوریت کے آغاز کی۔
رائش ٹاگ میں آتشزدگی
ستائیس فروری سن انیس سو تینیتس میں یہ عمارت آتشزدگی سے شدید متاثر ہوئی۔ اس وقت کے چانسلر اڈولف ہٹلر نے اس واقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جرمنی میں آمریت نافذ کر دی۔ کیمونسٹ سیاستدان میرینوس فان ڈیر لوبے Marinus van der Lubbe کو اس سلسلے میں مجرم قرار دے دیا گیا۔
مقتول سیاستدانوں کی یادگار
رائش ٹاگ کی عمارت کے باہر ہی لوہے کی سلیں ایک منفرد انداز میں نصب ہیں۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو اس آرٹ کے نمونے کی ہر سل پر ان اراکین پارلیمان کے نام درج ہیں، جو سن 1933 تا سن 1945 نازی دور حکومت میں ہلاک کر دیے گئے تھے۔
روسی فوجیوں کی گرافٹی
رائش ٹاگ نہ صرف جرمنی میں نازی دور حکومت کے آغاز کی کہانی اپنے ساتھ لیے ہوئے بلکہ اس کے خاتمے کی نشانیاں بھی اس عمارت میں نمایاں ہیں۔ روسی افواج نے دو مئی سن 1945 میں کو برلن پر قبضہ کرتے ہوئے اس عمارت پر سرخ رنگ کا پرچم لہرایا تھا۔ روسی فوج کی یہ کامیابی دوسری عالمی جنگ کے اختتام کا باعث بھی بنی۔ تب روسی فوجیوں نے اس عمارت کی دیوراوں پر دستخط کیے اور پیغامات بھی لکھے، جو آج تک دیکھے جا سکتے ہیں۔
برلن کی تقسیم
دوسری عالمی جنگ کے دوران رائش ٹاگ کی عمارت بری طرح متاثر ہوئی تھی۔ سن 1948 میں برلن کے میئر ایرنسٹ روئٹر نے لوگوں کے ایک ہجوم کے سامنے اسی متاثرہ عمارت کے سامنے ایک یادگار تقریر کی تھی۔ روئٹر نے اتحادی فورسز (امریکا، برطانیہ اور فرانس) سے پرجوش مطالبہ کیا تھا کہ مغربی برلن کو سوویت یونین کے حوالے نہ کیا جائے۔ اپنے اس موقف میں انہیں کامیابی بھی حاصل ہوئی تھی۔
دیوار برلن کے سائے میں
جب سن 1961 میں دیوار برلن کی تعمیر ہوئی تو رائش ٹاگ کی عمارت مغربی اور مشرقی برلن کی سرحد پر تھی۔ تب اس عمارت کے شمال میں دریائے سپری اس شہر کو دو حصوں میں تقسیم کرتا تھا۔ تب مشرقی برلن کے لوگ مبینہ طور پر اس دریا کو عبور کر کے مغربی برلن جانے کی کوشش بھی کرتے تھے۔ اس کوشش میں ہلاک ہونے والوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کی خاطر سن 1970 میں رائش ٹاگ کے قریب ہی ایک خصوصی یادگار بھی بنائی گئی تھی۔
دیوار برلن کا انہدام اور جرمنی کا اتحاد
نو نومبر سن 1989 میں دیوار برلن کا انہدام ہوا تو پارلیمان کی یہ عمارت ایک مرتبہ پھر شہر کے وسط میں شمار ہونے لگی۔ چار ماہ بعد اس دیوار کو مکمل طور پر گرا دیا گیا۔ دو اور تین اکتوبر سن 1990 کو لاکھوں جرمنوں نے رائش ٹاگ کی عمارت کے سامنے ہی جرمنی کے اتحاد کی خوشیاں منائیں۔
جرمن پارلیمان کی منتقلی
رائش ٹاگ کی عمارت کو سن 1995 میں مکمل طور پر ترپالوں سے چھپا دیا گیا تھا۔ یہ آرٹ ورک کرسٹو اور جین کلاوڈ کا سب سے شاندار نمونہ قرار دیا جاتا ہے۔ رائش ٹاگ کی چھپی ہوئی عمارت کو دیکھنے کی خاطر لاکھوں افراد نے برلن کے اس تاریخی مقام کا رخ کیا۔ تب متحد برلن میں سب کچھ ممکن ہو چکا تھا یہاں تک اسے وفاقی جموریہ جرمنی کی پارلیمان کا درجہ ہی کیوں نہ دے دیا جائے۔
مستقبل کی جھلک
آرکیٹیکٹ نورمان فوسٹر اس ٹیم کے سربراہ تھے، جس نے رائش ٹاگ کی عمارت کی تعمیر نو کی۔ چار سالہ محنت کے بعد اس عمارت کا بنیادی ڈھانچہ بدلے بغیر اسے نیا کر دیا گیا۔ اب یہ ایک جدید عمارت معلوم ہوتی ہے، جس کا شیشے سے بنا گنبد آرکیٹکچر کا ایک منفرد نمونہ ہے۔ ستمبر 1999 میں اس عمارت کو جرمن پارلیمان بنا دیا گیا۔ سیاستدان اب اسی عمارت میں بیٹھ کر پارلیمانی طریقے سے جرمنی کے سیاسی مستقبل کے فیصلے کرتے ہیں۔