1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برلن کے ہمبولٹ کلینک میں کورونا ایمرجنسی

26 جنوری 2021

برلن کے مشہور'ہمبولٹ ہسپتال میں کورونا وائرس کی نئی تغیر شدہ قسم ملی ہے۔ اس ہسپتال کو مکمل طور پر قرنطینہ کر دیا گیا ہے۔ ماہرین اس بارے میں متجسس ہیں کہ آیا اس کے پھیلاؤ پر قابو پایا جا سکے گا۔

Berlin Vivantes-Humboldt-Klinikum in Reinickendorf
تصویر: Frederic Kern/Future Image/imago images

 

برلن میں صدمے کا بڑا لمحہ۔ ہمبولٹ کلینک، جو برلن کے تمام ہسپتالوں کے انتظامات کے ذمہ دار ادارے 'ویوینٹس گروپ‘ کا حصہ ہے، کوقرنطینہ کردیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسا اقدام ہے جو جرمنی میں اس سے پہلے کبھی نہیں کیا گیا۔

وجہ: ہمبولٹ ہسپتال کے کارڈیالوجی وارڈ میں مریضوں اور عملے کے اراکین میں پہلی بار COVID-19 وائرس کی کہیں زیادہ متعدی اور کہیں زیادہ مہلک تبدیل شدہ قسم B.1.1.7 جو''انگلینڈ‘‘ سے پھیلنا شروع ہوئی، کے متعدد کیسز سامنے آئے ہیں۔

جرمن دارالحکومت برلن جو موسم خزاں میں کورونا کا گڑھ بنا ہوا تھا، وبائی امراض کی دوسری لہر سے بہت کامیابی سے نمٹ رہا ہے۔ حال ہی میں نئے متاثرہ افراد کی تعداد میں تیزی سے کمی بھی واقع ہوئی اور گزشتہ سات روز کے دوران یومیہ 100 سے زائد کے قریب کیسز کے ساتھ ہسپتالوں میں قومی سطح پر بھی شدید نوعیت کے کیسز میں کمی آئی ہے۔

برلن کے علاقے رائنیکن ڈورف میں قائم ہومبولٹ ہسپتال کا اسٹاف۔تصویر: Kay Nietfeld/dpa/picture alliance

ہر دوسرا کیس برلن میں

اب تک کی اطلاعات کے مطابق جرمنی میں وائرس کی تبدیل شدہ شکل B.1.1.7 کے ساتھ انفیکشن کے 51 واقعات میں سے 24 برلن میں پیش آئے۔ یہ اطلاعات رابرٹ کوخ انسٹی ٹیوٹ سے ملی ہیں۔

برلن کے اعداد و شمار کا اعلان پیر 25 جنوری کو ہسپتالوں کی انتظامیہ کے گروپ کی ایک پریس کانفرنس میں کیا گیا۔ سب سے پہلا کیس گزشتہ ہفتے پیش آیا تھا، جب صورتحال زیادہ پیچیدہ ہونا شروع ہوئی۔ مذکورہ ہسپتال نے تب سے ہی احتیاطی تدابیراورآمد ورفت میں سختی میں اضافہ کر دیا تھا اور رابرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ نے برلن کے صحت کے دیگر اداروں کے ساتھ مل کر نئے'انفیکشن کلسٹر‘ کے پھیلاؤ پر سخت نظر رکھنے کے سبب ہمبولٹ ہسپتال کے ساتھ تمام روابط کو ٹریک کرنا شروع کر دیا تھا۔

اس ہستال میں کووڈ انیس کی وبا کے پیش نظر انتہائی نگہداشت کی یونٹ میں 37 نئے بستر لگائے گئے تھے۔تصویر: Kay Nietfeld/dpa/picture alliance

ہسپتال میں داخلہ بند

640 بستروں پر مشتمل، ہمبولٹ کلینک کوئی چھوٹا ادارہ نہیں ہے۔ برلن کے شمال مغربی حصے میں ہنگامی طبی فراہمی کے لیے، سب سے اہم کردار ادا کرتا ہے تاہم اب یہاں داخلہ بالکل بند کردیا گیا ہے۔ لگ بھگ 17 ہزار اسٹاف ممبرز یا ہسپتال کے ملازمین کو قرنطیہ کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہسپتال کے ملازمین کو صرف کام پرآنے اور وہاں سے سیدھے گھرجانے کی اجازت ہوگی۔ جو ملازمین عام طور پر بس یا ٹرین کے ذریعہ کام پر آتے تھے، ان کے لیے  برلن ریاستی انتظامیہ نے ایک ٹرانسپورٹ سروس کا اہتمام کیا ہے۔

ہسپتال میں 400 سے زیادہ مریضوں کا علاج کیا جا رہا تھا، جو صحت مند ہیں۔ انہیں گھر پر قرنطینہ میں رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔ برلن کے محکمہ صحت کے طبی آفیسر پیٹرک لارشائیڈ نے کہا، ’’ہم ہسپتال کو خالی مگر چلتا رکھیں گے۔ اب یہ ایک معمول کا طریقہ کار ہے۔‘‘

نئے وائرس پر قابو پانے کے لیے اقدامات

رابرٹ کوخ انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے حال ہی میں بتایا گیا ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ B.1.1.7 زیادہ سنگین بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔ علاوہ ازیں بیونٹیک / فائزر کی تیار کردہ ویکسین بھی اس کی مختلف حالتوں میں مؤثر ثابت ہوئی ہے۔

یورپ پہلے ہی انگلینڈ کے ساتھ تمام سفری راستے منقطع کر چکا تھا۔ تصویر: Wolter/imago images

جرمنی میں ابھی تک وائرس کی اس مختلف یا تبدیل شدہ قسم کی کوئی منظم کھوج کا کام نہیں ہو سکا ہے۔ ایسا کرنے کے لیے، COVID-19  مثبت نمونے کی سیکوئنسنگ ایک پیچیدہ انداز میں  کی جاتی ہے۔ زیادہ تر جرمن لیبارٹریوں میں ایسا کرنے کی سہولیات  میسر نہیں ہیں۔ اب فروری میں ''جرمن الیکٹرانک سیکوئینس ڈیٹا حب‘‘ تیار کیا جانا ہے، جو ڈیٹا کی منتقلی کا یکساں پلیٹ فارم ہوگا۔ یورپ میں، بڑے پیمانے پر  COVID-19 پوزیٹیو سیکوئنسنگ صرف ڈنمارک اور برطانیہ میں عام ہے۔

ایک حکومتی ترجمان کے مطابق، ''جرمن وفاقی حکومت کو یورپ کے دیگر ممالک کی طرح ایک بہت بڑا اورانتہائی حقیقی خطرہ لاحق ہے۔ انہوں نے کہا، ''ہمارے ملک کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک میں بھی وائرس میں 'میوٹیشن‘ کا خطرہ برقرار رہے گا۔ انفیکشن کی تعداد کو جلد کم کرنا سب سے زیادہ ضروری ہے کیونکہ کیسز کی تعداد کم ہونے کے بعد ہی ہم تغیر پزیر وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں کامیاب ہوں سکیں گے۔‘‘

شولس کے الکسزانڈر (ک م/ ا ب ا)

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں