برلینالے میں ’مائی بیسٹ اینیمی‘ کے چرچے
17 فروری 2011وہ یہودی شہری نازی دور میں خود کو اور اپنی والدہ کو بچانے کے لیے اس وقت کی ریاستی پولیس ایس ایس کی یونیفارم پہنا کرتا تھا۔
اس فلم کا نام ہے’ My Best Enemy‘ اور یہ آسٹرین ڈائریکٹر وولفگانگ مرنبیرگر کی پیشکش ہے۔ برلن فلم فیسٹول برلینالے میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’مجھے اس بات کا اندازہ تھا کہ یہ ایک انتہائی سنجیدہ موضوع ہے اور اگر میری کاوش کو غلط انداز میں سمجھا گیا تو میرے لیے بڑے مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں۔ تاہم میرے خیال میں ناظرین کچھ مختلف دیکھنے کے منتظر ہیں۔‘
اس فلم میں 1930ء کی دہائی دکھائی گئی ہے، جب وکٹر کاؤفمان نامی ایک یہودی اپنے والد کی آرٹ گیلری میں کام کر رہا ہے۔ یہ کردار جرمن ادکار مورٹز بلائب ٹروئے ادا کر رہے ہیں۔کاؤفمان فیملی کو گمان تھا کہ وہ اپنے تعلقات کی وجہ سے نازیوں سے بچنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ وکٹرکاؤفمان کی گرل فرینڈ اور منگیتر لینا اس کے بچپن کے دوست روڈی کی بھی اچھی دوست تھی۔ ایک دن وکٹر نے ان دونوں پر راز افشاں کیا کہ ان کے پاس اطالوی مصورمائیکل اینجلوکا ایک بہت ہی نادر شاہکار موجود ہے۔ اسی دوران روڈی ایس ایس پولیس میں شامل ہوچکا تھا۔
نازیوں نے جب یہودیوں کے خلاف کارروائیاں شروع کیں تو کاؤفمان فیملی فرار ہونے کا صحیح موقع ضائع کر بیٹھی۔ اس موقع پر روڈی نے اپنے دوست کو بچانے کے لیے نازی افسران کو پیشکش کی کہ اگر کاؤفمان فیملی کو آزادی دی جائے تو وہ اطالوی مصور کا نادر نمونہ ان کے حوالے کر سکتا ہے، جس پر اٹلی اپنے حق کا دعویٰ کرتا ہے۔ لیکن جیسے ہی تصویر نازیوں کے قبضے میں آتی ہے وہ اپنے وعدے سے پھِر جاتے ہیں۔ اس کے بعد وکٹرکس طرح اپنی والدہ کو نازیوں سے بچاتا ہے، اسے اس دوران کونسے اور کس طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑا، یہ سب کچھ ہلکے پھلے مزاح کے ساتھ اس فلم میں پیش کیا گیا ہے۔
آسٹرین ڈائریکٹر وولفگانگ مرنبیرگر کہتے ہیں کہ طنز و مزاح اور المیے کو ایک ساتھ پیش کرنا اور ان کے مابین فرق برقرار رکھنا ایک مشکل مرحلہ تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ اب یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ جرمن سنیماؤں میں اس فلم کو کس قدر پذیرائی ملتی ہے۔ My Best Enemy برلن فلم فیسٹول برلینالے کی ان سولہ فلموں میں شامل ہے، جن کے درمیان گولڈن بیئر جیتنے کی دوڑ جاری ہے۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت: ندیم گِل