بريگزٹ کے بعد برطانوی آٹو سيکٹر کا مستقبل بھی غير واضح
28 مئی 2018
بيلجيم ميں قائم ايک تھنک ٹينک نے خبردار کيا ہے کہ برطانيہ کے يورپی يونين سے اخراج کے نتيجے ميں اس ملک کو اليکٹرک کاروں کی کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اشتہار
برطانيہ کے يورپی يونين سے اخراج يا بريگزٹ کے بعد کار بنانے والی کمپنياں برطانيہ ميں اپنی کاريں فروخت کرنے ميں دلچسپی کھو سکتی ہيں۔ بيلجيم کے دارالحکومت برسلز ميں قائم تھنک ٹينک ’ٹرانسپورٹ اينڈ انوائرمنٹ‘ (T&E) نے پير اٹھائيس مئی کو اس بارے ميں خبردار کيا ہے۔ اس ادارے کے مطابق بريگزٹ کے بعد کار بنانے والوں کے ليے برطانيہ ميں مضر صحت کاربن ڈائی آکسائڈ گيسوں کے اخراج کے حوالے سے يورپی يونين کے اہداف بے معنی ہو جائيں گے اور اسی کے نتيجے ميں مقابلتاً کم اخراج والی ماحول دوست اليکٹرک کاروں کی برطانيہ ميں فروخت ميں دلچسی گھٹ سکتی ہے۔
دنیا میں سب سے زیادہ گاڑیاں کہاں استعمال کی جاتی ہیں؟
کار ساز اداروں کی عالمی تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق یورپ اور بر اعظم امریکا میں قریب چار لاکھ، جب کہ ایشیا میں چار لاکھ چھتیس ہزار گاڑیاں رجسٹر کی گئیں۔ کن ممالک میں گاڑیوں کی تعداد زیادہ ہے؟ جانیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: picture-alliance/dpa
۱۔ امریکا
دنیا میں سب سے زیادہ شہریوں کے پاس گاڑیاں امریکا میں ہیں۔ تعداد کے اعتبار سے ایک ہزار امریکی شہریوں میں سے 821 کے پاس گاڑیاں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. C. Hong
۲۔ نیوزی لینڈ
گاڑیوں کی تعداد کے اعتبار سے اس فہرست میں دوسرا نمبر نیوزی لینڈ کا ہے جہاں فی ایک ہزار نفوس 819 گاڑیاں پائی جاتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
۳۔ آئس لینڈ
تین ملین نفوس پر مشتمل یورپ کا جزیرہ ملک آئس لینڈ گاڑیوں کے تناسب کے اعتبار سے یہ یورپ میں پہلے اور دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے جہاں فی ہزار شہری 796 گاڑیاں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ dpa
۴۔ مالٹا
چوتھے نمبر پر بھی ایک چھوٹا سا یورپی ملک مالٹا ہے اور یہاں فی ایک ہزار شہری 775 گاڑیاں بنتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Schulze
۵۔ لکسمبرگ
یورپی ملک لکسمبرگ اس فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے جہاں فی ایک ہزار نفوس 745 گاڑیاں ہیں۔
تصویر: DW/M. M. Rahman
۶۔ آسٹریلیا
چھٹے نمبر آسٹریلیا کا ہے جہاں ایک ہزار شہریوں میں سے 718 کے پاس گاڑیاں ہیں۔
تصویر: M. Dadswell/Getty Images
۷۔ برونائی دار السلام
چالیس لاکھ نفوس پر مشتمل اس ایشیائی ملک میں اکہتر فیصد (یعنی 711 گاڑیاں فی یک ہزار شہری) عوام کے پاس گاڑیاں ہیں۔ یوں وہ اس اعتبار سے مسلم اکثریتی ممالک اور ایشیا میں پہلے جب کہ دنیا میں ساتویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/R. Rahman
۸۔ اٹلی
اٹلی بھی اس عالمی درجہ بندی میں ٹاپ ٹین ممالک میں آٹھویں نمبر ہے جہاں فی ایک ہزار شہری 706 گاڑیاں ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images
۹۔ کینیڈا
کینیڈا میں ایک ہزار افراد میں سے 646 کے پاس گاڑیاں ہیں اور وہ اس درجہ بندی میں نویں نمبر پر ہے۔
تصویر: imago/imagebroker
۱۰۔ پولینڈ
پولینڈ میں فی ایک ہزار نفوس 628 گاڑیاں پائی جاتی ہیں اور یوں وہ یورپی یونین میں چوتھے اور عالمی سطح پر دسویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture alliance/NurPhoto/J. Arriens
جاپان
جاپانی گاڑیاں بھی دنیا بھر میں مشہور ہیں اور اس ملک کے اپنے ایک ہزار شہریوں میں سے 609 کے پاس گاڑیاں ہیں۔ یوں عالمی سطح پر جاپان تیرہویں نمبر پر ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images/Y. Tsuno
جرمنی
جرمنی بھی گاڑیاں بنانے والے اہم ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے لیکن فی ایک ہزار شہری 593 گاڑیوں کے ساتھ اس فہرست میں جرمنی سترہویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Schwarz
روس
روس ہتھیاروں کی دوڑ میں تو اب دوبارہ نمایاں ہو رہا ہے لیکن اس فہرست میں وہ انچاسویں نمبر پر ہے اور یہاں فی ایک ہزار شہری گاڑیوں کی تعداد 358 بنتی ہے۔
اقتصادی طور پر تیزی سے عالمی طاقت بنتے ہوئے اس ملک میں ایک ہزار نفوس میں سے 118 کے پاس گاڑیاں ہیں۔ چین اس اعتبار سے عالمی درجہ بندی میں 89ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture alliance/Imaginechina/J. Haixin
بھارت
آبادی کے اعتبار سے دنیا کے اس دوسرے سب سے بڑے ملک میں فی ایک ہزار شہری 22 گاڑیاں ہیں اور عالمی درجہ بندی میں بھارت 122ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/I. Mukherjee
پاکستان
پاکستان اس فہرست میں ایک سو پچیسویں نمبر پر ہے اور کار ساز اداروں کی عالمی تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق یہاں فی ایک ہزار شہری 17 گاڑیاں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dpaweb/P. Grimm
16 تصاویر1 | 16
خبر رساں ادارے اے ايف پی کو موصول ہونے والی اس تھنک ٹينک کی ايک رپورٹ کے مطابق ’زيرو اميشن‘ يا بغير اخراج والی گاڑيوں کی فروخت ميں برطانيہ يورپی يونين ميں پچھلے سال تيسری بڑی مارکيٹ تھی اور ’پلگ ان ہائبرڈ‘ کاروں کے ليے سب سے بڑی مارکيٹ۔ ’پلگ ان‘ کاروں کے ايک ايسے نظام کا نام ہے، جس ميں کار ايک مخصوص رفتار کے اندر اندر سفر کرتے وقت تک بجلی سے چلتی ہے اور اسی ليے يہ ماحول دوست تصور کی جاتی ہے۔T&E سے وابستہ سيسل ٹوبيو نے کہا، ’’کاريں بنانے والے مقابلتاً کم معياری ماڈلز برطانوی مارکيٹ ميں فروخت کرنے کو ترجيح دے سکتے ہيں۔‘‘
لندن حکومت بريگزٹ کے عمل کو زيادہ سے زيادہ ماحول دوست بنانا چاہتی ہے اور اليکٹرک کاروں کی کمی اس سلسلے ميں بڑی رکاوٹ ثابت ہو سکتی ہے۔ T&E نے خبردار کيا ہے کہ بریگزٹ کے نتیجے میں برطانيہ کی اپنی کار ساز صنعت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ايک اندازے کے مطابق بريگزٹ کی تکميل پر کسی باقاعدہ ڈيل کی عدم موجودگی کی صورت ميں برطانوی آٹو سيکٹر سے وابستہ 6,700 افراد کی ملازمتوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ برطانيہ کے يورپی يونين سے اخراج کے بعد کاريں بنانے والی برطانوی صنعت کا مستقبل، وزير اعظم ٹيريزا مے کے ليے ايک اسیا مشکل سوال ہے، جس کا جواب ابھی تک نہیں ملک سکا ہے۔
الیکٹرک ہوائی جہاز پر سفر کب ممکن ہو گا؟
دنیا بھر میں الیکٹرک کاروں کا رحجان بڑھ رہا ہے۔ لیکن الیکٹرک ہوائی جہازوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ وہ وقت دور نہیں جب ہم بھی الیکٹرک طیاروں میں طویل نہیں تو کم ازکم مختصر سفر کرنے کے قابل ضرور ہو جائیں گے۔
تصویر: Siemens AG
چھوٹے مگر آلودگی سے پاک جہاز
متبادل توانائی سے اڑنے والے طیارے ماحول کے لیے نقصان دہ CO2 یا دیگر ضرر رساں گیسیں خارج نہیں کرتے۔ یہ نہ تو نائٹروجن آکسائیڈ کے اخراج کا سبب ہیں اور نہ ہی دیگر ماحول دشمن خطرناک ذرات کے۔ یہ طیارے قدرے چھوٹے، کم وزن اور زیادہ ماحول دوست ہوتے ہیں۔ ’الفا الیکٹرو‘ سلووینیہ کے سٹارٹ اپ ’پیپسٹرل‘ کا ای جہاز ہے، جو مذکورہ بالا باتوں کی صداقت کرتا ہے۔ اس جہاز نے پہلی مرتبہ سن 2015 میں پہلی پرواز بھری تھی۔
تصویر: Pipistrel
نو سیٹوں والا مسافر بردار ای جہاز
زیادہ تر کمپنیاں اور سائنسدان اس بات پر متفق ہیں کہ علاقائی سطح پر سفر کے لیے ایسے ای جہازوں کا مستقبل بہت تابناک ہے۔ اسرائیلی اسٹارٹ اپ ’ایوی ایشن‘ کا منصوبہ ہے کہ نو سیٹوں والے ایک ای جہاز کو بطور مسافر طیارہ استعمال کیا جائے۔ تصویر میں نظر آنے والا پروٹو ٹائپ ای جہاز ’ایلیس‘ مکمل چارچ کرنے کے بعد ساڑھے چھ سو میل کا فاصلہ طے کر سکے گا۔ منصوبہ ہے کہ یہ جہاز سن دو ہزار انیس میں پہلی پرواز بھر لے۔
تصویر: Eviation
اڑنے والی ٹیکسی
جرمن کمپنی لیلیم کی ’فلائینگ ٹیکسی‘ نے پہلی مرتبہ2017 میں ٹیسٹ پرواز کی تھی۔ پانچ سیٹوں والا یہ ای جہاز عمودی لینڈنگ اور ٹیک آف کرنے کے قابل ہے۔ یہ جہاز ایک سو نوے میل کا سفر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس جہاز نے پیرس سے لندن تک کا سفر ایک گھنٹے میں مکمل کیا۔ مقصد ہے کہ ایک دن لوگ موبائل ایپ سے اس جہاز کو بلوا سکیں اور عام ٹیکسی کے کرائے کے برابر رقوم ادا کر کے اس اڑنے والی ٹیکسی میں سفر کر سکیں۔
تصویر: Lilium
پرانے اور نئے کا امتزاج
کچھ طیارہ ساز کمپنیاں یہ ہمت نہیں کر سکتی ہیں کہ وہ صرف الیکٹرک جہاز ہی بنانا شروع کر دیں۔ نومبر سن دو ہزار سترہ میں ایئر بس، رولس رائس اور سیمینز نے اعلان کیا تھا کہ وہ مشترکہ طور پر ایک کمرشل ہائبرڈ الیکٹرک پروٹو ٹائپ تیار کریں گے۔ e-Fan X نامی یہ ای جہاز گیس کے تین ٹربائین اور ایک الیکٹرک موٹر کا حامل ہو گا۔ توقع ہے کہ سن دو ہزار بیس تک یہ جہاز اپنی پہلی پرواز بھرنے کے قابل ہو جائے گا۔
تصویر: Airbus
ڈیڑھ سو سیٹوں والا ای جہاز
برطانوی بجٹ ایئر لائن ’ایزی جیٹ‘ کمپنی کو زیادہ ماحول دوست بنانے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ اس برطانوی ایئر لائن نے اسی مقصد کی خاطر امریکی اسٹارٹ اپ ’رائٹ الیکٹرک‘ کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے ایک مکمل ای جہاز بنانے کا ارادہ کیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اس الیکٹرک جہاز میں 150 مسافروں کی گنجائش ہو گی۔ تاہم یہ ابھی معلوم نہیں کہ اس جہاز کا پہلا پروٹو ٹائپ کب منظر عام پر آ سکے گا۔
تصویر: Wright Electric
الیکٹرک فیوچر
ماہرین کا کہنا ہے کہ ہم آئندہ بیس برسوں بعد الیکٹرانک جہازوں میں سفر کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ متعدد پروٹو ٹائپس کمپنیاں کوشش میں ہیں کہ یہ جہاز مکمل چارج کیے جانے کے بعد ایک ہی مرتبہ ایک سو پچپن تا چھ سو پچاس میل تک کا سفر کر سکیں۔ ٹیکنالوجی میں ترقی بہت تیزی سے ہو رہی ہے اور کسے معلوم کہ ہم ضرر ساں گیسوں سے پاک متبادل توانائی سے چلنے والے ای جہازوں میں جلد ہی سفر کرنے کے قابل ہو جائیں۔