برٹش خاتون جہاز سے سمندر میں گرنے کے دس گھنٹے بعد بھی زندہ
20 اگست 2018
ایک برطانوی خاتون ایک تعطیلاتی بحری جہاز سے سمندر میں گر جانے کے دس گھنٹے بعد بھی زندہ بچ گئی۔ اس خاتون کے مطابق جب موت بہت قریب تھی، گانا گانے اور یوگا کی وجہ سے جسمانی فٹنس نے اسے بحیرہ آڈریا کے پانیوں میں زندہ رکھا۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق اپنے زندہ بچا لیے جانے کے بعد اس برطانوی خاتون سیاح نے بتایا کہ وہ بحیرہ آڈریا میں ایک کروز شپ پر تفریحی سفر پر تھی کہ اچانک جہاز کے عشرے سے نیچے سمندر میں گر گئی۔
اس نے بتایا کہ اس کی زندگی بچانے میں یوگا کی وجہ سے اس کی جسمانی فٹنس اور گانا گاتے رہنے نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اس خاتون کو کھلے سمندر سے یورپی ملک کروشیا کی بحریہ کے ایک جنگی جہاز نے بچایا اور اسے کوئی چوٹ نہیں آئی تھی۔
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے بتایا کہ اس خاتون کا نام کے لانگ سٹاف ہے، جو ناروے کے ایک کروز شپ ’نارویجیئن سٹار‘ پر تفریحی سفر کے لیے سوار تھی کہ ہفتہ 18 اگست کی شام جہاز کے عشرے سے نیچے سمندر میں گر گئی تھی۔
زاغرب میں کروشیا کی وزارت داخلہ نے ملکی بحریہ کے افسروں کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ کے لانگ سٹاف اس کروز شپ کی ساتویں منزل سے سمندر میں گری تھی لیکن یہ بات واضح نہیں کہ وہ کس وجہ سے یا کن حالات میں جہاز کے ساتویں عرشے سے بہت نیچے پانی میں جا گری تھی۔
عالمی رہنما سیاسی اُمور سے دور تعطیلات کیسے مناتے ہیں؟
سیاستدان بھی آخر انسان ہی تو ہیں اور چھٹیوں پر جانا کون نہیں چاہتا۔ ڈی ڈبلیو نے تصاویر کے ذریعے اس بات پر نظر ڈالی ہے کہ کون سا عالمی لیڈر اپنی نجی چھٹیاں کہاں اور کیسے مناتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ڈونلڈ ٹرمپ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سابق صدر اوباما پر اس حوالے سے بہت تنقید کیا کرتے تھے کہ وہ چھٹیاں بہت لیتے ہیں۔ تاہم ٹرمپ خود گرما گرم سیاسی معاملات سے فرار حاصل کر کے سترہ روز کے لیے نیو جرسی میں واقع اپنے ریزورٹ روانہ ہوئے۔ یہ الگ بات کہ ٹرمپ کو چھٹیوں میں بھی کام سے فراغت نہیں مل سکتی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Buchanan
ولادیمیر پوٹن
روسی صدر ولادیمیر پوٹن اپنی چھٹیاں ایسی مقامات پر گزارنا پسند کرتے ہیں جہاں انہیں زیادہ کپڑے نہ پہننے پڑیں۔ پوٹن نے رواں برس موسم گرما کی چھٹیوں کے لیے سائبیریا کا انتخاب کیا اور اپنے ہمراہ میڈیا کی ایک ٹیم بھی لے گئے تاکہ مچھلیاں پکڑتے اور کشتی رانی کرتے ہوئے لمحات کو تصویروں میں قید کر کے روسی عوام تک بھی پہنچایا جا سکے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Druzhinin
انگیلا میرکل
جرمن چانسلر انگیلا میرکل گزشتہ دس برسوں سے گرمیوں میں شمالی اٹلی کے الپائن کے علاقے میں اپنے شوہر کے ہمراہ چھٹیاں گزارتی ہیں۔ تاہم سفر پر روانہ ہونے سے قبل وہ اپنی ٹریڈ مارک لال رنگ کی کیپ لینا نہیں بھولتیں۔ جرمن میڈیا اس کیپ کو ’ چانسلرز کیپی‘ کہتا ہے۔ سن 2014 میں سکیٹنک کرتے ہوئے اسی علاقے میں چانسلر میرکل گر گئی تھیں اور اُن کے کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ٹریزا مے
اپنی جرمن ہم منصب کی طرح برطانوی وزیر اعظم ٹیریزا مے بھی ہائکنگ کی شوقین ہیں۔ سن دو ہزار سولہ میں مے نے اپنے شوہر کے ہمراہ سویٹزر لینڈ میں کوہ پیمائی کی۔ البتہ سن 2017 اپریل میں اُنہوں نے چھٹیوں کے پانچ دن ویلز میں نیشنل پارک سنوڈونیا میں گزارے۔
تصویر: Reuters/M. Bertorello
ایمانوئیل ماکروں
اگرچہ نو منتخب فرانسیسی وزیر اعظم ماکروں اور اُن کی بیگم کے پاس فی الحال تفریح کرنے کے لیے زیادہ وقت نہیں۔ تاہم جب بھی اُن کے پاس کچھ وقت ہوتا ہے وہ اس کا استعمال بھرپور طور پر کرتے ہیں۔ اس تصویر میں یہ جوڑا اپریل سن دو ہزار سترہ میں ایک پہاڑ پر دوپہر کے کھانے کے وقفے میں لطف اندوز ہوتا نظر آ رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/E. Feferberg
جسٹن ٹرو ڈائے
کینیڈین وزیر اعظم کا بہاماس کے جزیرے پر نئے سال کے ہالی ڈے ٹرپ کو عوام کی جانب سے اُس وقت تنقید کا نشانہ بنایا گیا جب یہ پتہ چلا،کہ وہ اس ٹور کے لیے سرکاری ہیلی کاپٹر کے بجائے ایک پرائیویٹ ہیلی کاپٹر لے گئے ہیں۔ ٹروڈائے گرمیوں میں گھر سے قریب رہنا چاہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/The Canadian Press/A. Vaughan
ماریانو راخوئے
ہسپانوی وزیر اعظم ماریانو راخوئے کے لیے گرمیوں کی تعطیلات اتنے آرام سے نہیں آئیں۔
اُنہیں جولائی سن 2017 میں اپنی قدامت پسند جماعت پیپلز پارٹی کے فراڈ اور رشوت خوری کے حوالے سے ایک مقدمے میں بطور گواہ عدالت میں پیش ہونا پڑا۔ تاہم ایک پریس کانفرنس کے بعد راخوئے اپنے من پسند تفریحی مقام گلیشیا کی جانب روانہ ہو گئے۔
تصویر: Imago/Agencia EFE
رابرٹ موگابے
زمبابوے کے طویل عرصے سے چلے آ رہے صدر جب بھی چھٹیوں پر جاتے ہیں، اُن پر تنقید ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اقتصادی بدحالی کے شکار ملک زمبابوے کو ترانوے سالہ موگابےکی ہر سال موسم سرما میں ایک ماہ سے زیادہ کی تعطیلات کا خرچہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ سن 2017 کے آغاز میں سنگاپور میں اُن کی تعطیلات پر آنے والے اخراجات مبینہ طور پر چھ ملین ڈالر تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Mukwazhi
کم جونگ اُن
شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ اُن اپنے بین الاقوامی طور پر الگ تھلگ ملک تک محدود سہی لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہ تعطیلات کا خواب نہیں دیکھ سکتے۔ کم جونگ اُن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ چھوٹی عمر ہی سے ڈزنی ورلڈ کو جنون کی حد تک پسند کرتے ہیں اور جاپانی ذرائع ابلاغ کے مطابق سن انیس سو اکیانوے میں ایک فرضی نام سے وہ ٹوکیو کے ڈزنی لینڈ کی سیر بھی کر چکے ہیں۔
9 تصاویر1 | 9
اس خاتون کو قریب دس گھنٹے تک سمندر میں رہنے کے بعد اتوار 19 اگست کو مقامی وقت کے مطابق بعد دوپہر قریب ایک بجے کروآٹ بحریہ کے ایک جہاز نے بچایا اور اس وقت وہ اس جگہ سے صرف 1.3 کلومیٹر دور تھی، جہاں وہ سمندر میں گری تھی۔
اس واقعے کے بارے میں لانگ سٹاف نے بعد ازاں برطانیہ کے کثیر الاشاعت روزنامے ’سن‘ کو بتایا کہ وہ پانی میں مسلسل گانا گاتی رہی تھی تاکہ رات کے وقت سمندر میں ٹھنڈے پانی اور سردی کی وجہ سے اس کی ہمت جواب نہ دے جائے۔
کے لانگ سٹاف نے ’سن‘ کو بتایا، ’’میں باقاعدگی سے یوگا کرتی ہوں۔ مجھے خدشہ تھا کہ میرے پٹھے شل نہ ہو جائیں۔ اس لیے میں مسلسل آہستہ آہستہ تیرتی اور گانا گاتی رہی۔‘‘ 46 سالہ لانگ سٹاف نے مزید کہا، ’’کروشیا کی بحریہ کے جن ارکان نے مجھے بچایا، وہ بہت نفیس انسان تھے۔ میں بہت شکر گزار ہوں اور انتہائی خوش کہ میں زندہ ہوں۔‘‘
م م / ا ا / اے ایف پی، ڈی پی اے
انتہائی شاندار نئے کروز شپ
بحری جہاز تیار کرنے والی یورپی صنعت کو ایشیائی ملکوں کے اداروں کی طرف سے سخت مقابلے اور دباؤ کا سامنا ہے۔ لیکن بات اگر کروز شپ تیار کرنے کی ہو، تو یورپی برتری ابھی تک مسلمہ ہے، جیسے کہ یہ تصویریں بھی ظاہر کرتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Wagner
تیز رفتار ترقی کرنے والی صنعت
اس سال دنیا کے مختلف ملکوں کے پچیس ملین یا ڈھائی کروڑ سے زائد انسان کروز بحری جہازوں پر سمندری تعطیلات گزاریں گے۔ یہ تعداد 2016ء کے مقابلے میں ایک ملین زیادہ ہے۔ زیادہ مسافروں کا مطلب ہے زیادہ جہازوں کی ضرورت۔ اس سال دنیا بھر میں 448 کروز سپش کے عالمی بیڑے میں 26 نئے شپ شامل کیے جا رہے ہیں۔ ان میں چھوٹے دریاؤں کے لیے بنائے گئے شپ بھی شامل ہوں گے اور گہرے سمندروں کے لیے بہت بڑے بڑے بحری جہاز بھی۔
تصویر: cmm-marketing.com by Bianca Berger, Eus Straver and Marc Hansen
گہرے سمندروں کے لیے بارہ نئے کروز شپ
صرف اسی سال کروز بحری جہازوں کے عالمی بیڑے میں گہرے سمندروں میں سفر کرنے والے جو نئے کروز شپ شامل کیے جا رہے ہیں، ان کی تعداد 12 ہے۔ ان بحری جہازوں پر ایک وقت میں مجموعی طور پر 28 ہزار سے زیادہ مسافر سفر کر سکیں گے۔ بحری جہاز سازی کی صنعت کی تنظیم CLIA کے مطابق عالمی سطح پر ایسا ہر چوتھا نیا کروز شپ کسی نہ کسی جرمن شپ یارڈ یا اس کی کسی ذیلی کمپنی کا تیار کردہ ہو گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Marks
’اوویشن آف دا سیز‘ کا پہلا سمندری سفر
یورپی کمپنیوں کو بہت بڑے بڑے پرتعیش کروز شپ تیار کرنے کا عشروں کا تجربہ ہے۔ یہ کام بہت مہارت رکھنے والی کمپنیاں اپنے بہت ماہر اور تجربہ کار کارکنوں کے ذریعے کرتی ہیں۔ جرمنی میں فولاد کی صنعت کی نمائندہ ٹریڈ یونین آئی جی میٹل کا کہنا ہے کہ یورپی شپ بلڈنگ کمپنیوں کے پاس ایسے باصلاحیت انجینئر اور تکنیکی ماہر موجود ہیں، جو شپ بلڈنگ سے متعلق کسی بھی خواب کو حقیقت کا روپ دے سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Wagner
کروز شپ بلڈنگ پر تین یورپی شپ یارڈ چھائے ہوئے
دنیا بھر میں کروز شپ بلڈنگ کی صنعت پر تین بڑے یورپی شپ یارڈ چھائے ہوئے ہیں۔ ان میں اٹلی کی کمپنی فنکانتیئری، فرانس کی ایس ٹی ایکس اور جرمنی کے شہر پاپن برگ میں قائم مائر شپ یارڈ شامل ہیں۔ 2016ء کے اوائل تک اطالوی کمپنی Fincantieri کے پاس 24 نئے بحری جہازوں کی تیاری کے آرڈر تھے، جرمنی کے مائر شپ یارڈ (تصویر) کے پاس 21 اور فرانس کی STX کے پاس 12 نئے کروز بحری جہازوں کی تیاری کے آرڈر۔
تصویر: Meyer Werft
جاپانی کمپنی کی طرف سے مقابلہ
کروز شپ بلڈنگ کے شعبے میں سرگرم واحد غیر یورپی ادارہ جاپانی کمپنی مِٹسوبیشی ہیوی انڈسٹریز ہے، جس کے پاس 2016ء کے اوائل تک صرف ایک شپ کی تیاری کا آرڈر تھا۔ پھر مِٹسوبیشی نے کروز شپ بلڈنگ کا کام ترک کر دیا۔ جرمنی کا مائر شپ یارڈ 2013ء تک صرف ایک کروز کمپنی آئیڈا کے لیے سات بہت بڑے بڑے لگژری شپ تیار کر چکا تھا۔ آئیڈا نے 2011ء میں مِٹسوبیشی کو دو جہازوں کے آرڈر دیے لیکن یہ کام تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔
تصویر: AP
آئیڈا کی واپسی
2015ء میں آئیڈا نے تصدیق کر دی کہ جرمنی کا مائر شپ یارڈ اس کے لیے دو نئے بحری جہاز تیار کرے گا۔ ہر شپ میں ڈھائی ہزار سے زائد مسافروں کے لیے کیبن ہوں گے اور دونوں شپ مائع قدرتی گیس سے چلیں گے۔ ایک بحری جہاز 2018ء کے موسم خزاں میں آئیڈا کے حوالے کیا جائے گا اور دوسرا 2021ء کے موسم بہار میں۔ یہ جہاز ماحول کے لیے کم نقصان دہ ہوں گے۔
تصویر: picture alliance/dpa/I. Wagner
جدید ترین بحری جہازوں کے برے ماحولیاتی اثرات کم
آج کل اکثر جدید ترین شپ ایسے ڈیزائن کیے جاتے ہیں کہ وہ پٹرول یا ڈیزل کے بجائے مائع قدرتی گیس پر چلتے ہیں۔ یوں ماحول کے لیے ضرر رساں گیسوں کا اخراج کم ہوتا ہے۔ ان دنوں الیکٹرک موٹروں اور کم بجلی استعمال کرنے والی ایل ای ڈی لائٹوں کے استعمال پر بھی زیادہ توجہ دی جا رہی ہے۔ ان جہازوں کی تیاری میں کم وزن بلڈنگ مٹیریل کے استعمال سے توانائی کے شعبے میں ان کی کارکردگی کو مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/I. Wagner
بہت بڑے جہازوں میں سے بھی سب سے بڑا کروز شپ
’ہارمنی آف دا سیز‘ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا کروز شپ ہے۔ یہ 66 میٹر چوڑا ہے اور 362 میٹر لمبا۔ اس 16 منزلہ بحری جہاز میں 20 ڈائننگ رومز، 23 سوئمنگ پولز اور ایک پارک بھی جس میں 12 ہزار پودے لگے ہیں۔ اس جہاز پر 5,480 مسافروں اور عملے کے 2000 سے زائد ارکان کے لیے گنجائش ہے۔ اس شپ کو ’تیرتا ہوا شہر‘ بھی کہا جاتا ہے، جسے بنانے والی فرانسیسی کمپنی کو ایک بلین یورو سے زائد کی قیمت ادا کی گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F.Dubray
15 اپریل 1912ء ، کروز شپنگ کی تاریخ کا برا دن
’ٹائٹینک‘ 269 میٹر لمبا ایک نو منزلہ کروز شپ تھا۔، جس میں 2687 مسافروں اور عملے کے 860 ارکان کے لیے گنجائش تھی۔ اس کے پہلے اور آخری سفر کے وقت اس میں 2200 مسافر اور عملے کے سینکڑوں ارکان بھی سوار تھے۔ ان میں سے 1500 ہلاک ہو گئے تھے۔ ان سب کو بچایا جا سکتا تھا۔ لیکن تب کارپیتھیا نامی ایک اور کروز شپ صرف ایک گھنٹے اور بیس منٹ کی تاخیر سے سمندر میں اس جگہ پر پہنچا تھا، جہاں ٹائٹینک ڈوبا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کروز شپ بلڈنگ میں نیا ممکنہ حریف ملک چین
چین مستقبل میں یورپی کروز شپ بلڈنگ کمپنیوں کے لیے نیا کاروباری حریف ثابت ہو سکتا ہے۔ گزشتہ برس قریب ایک ملین چینی باشندوں نے کروز شپنگ کی۔ 2030ء تک یہ تعداد آٹھ ملین تک پہنچ سکتی ہے۔ جولائی 2015ء میں اطالوی ادارے Fincantieri نے چینی شپ بلڈنگ کارپوریشن (CSSC) کے ساتھ مل کر ایک نیا منصوبہ شروع کیا، جس کے تحت کروز شپنگ کی چینی منڈی کے لیے بحری جہاز تیار کیے جائیں گے۔