1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برڈ فلو سے نئی ہلاکتوں کا خدشہ، عالمی ادارہ صحت کو تحقیق پر تشویش

2 جنوری 2012

چین میں حکام صحت کا کہنا ہے کہ برڈ فلو وائرس کی نئی قسم کے انسانوں میں منتقل ہونے کا خطرہ نہیں ہے۔ ان کی جانب سے یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب ہفتے کو چینی شہر شین جن میں ایک شخص اسی طرح کے وائرس سے ہلاک ہو گیا تھا۔

تصویر: AP

شین جن کے بیماریوں کی روک تھام کے مرکز کے ایک بیان میں کہا گیا، ’’مریض میں پائے جانے والے وائرس کی 90 فیصد خصوصیات ایچ فائیو این ون سے ملتی جلتی ہیں جو کہ چین میں بطخوں میں پایا جاتا ہے۔ اس چیز سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس شخص کو یہ وائرس شاید کسی پرندے کو براہ راست چھونے سے منتقل ہوا ہو گا اور یہ انسانوں سے انسانوں میں منتقل نہیں ہوتا۔‘‘

ایچ فائیو این ون سے متاثرہ انسانوں میں ہلاکت کی شرح ساٹھ فیصد کے قریب ہوتی ہے۔

چین کے حکام صحت نے کہا ہے کہ برڈ فلو وائرس کی نئی قسم کے انسانوں میں منتقل ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہےتصویر: AP

ادھر، ہانگ کانگ کے مرکز برائے تحفظ صحت کے مطابق اس شخص میں پایا جانے والا وائرس ہانگ کانگ کے جنگلی پرندوں میں پائی جانے والی قسم سے ملتا جلتا ہے۔ یہ وائرس عام طور پر پرندوں میں پایا جاتا ہے مگر بعض اوقات انسانوں میں بھی منتقل ہو سکتا ہے۔ محققین کو خدشہ ہے کہ یہ وائرس ایسی شکل اختیار کر سکتا ہے جو انسانوں کے درمیان آسانی سے پھیل سکتی ہے۔

ہانگ کانگ میں چند ہفتے قبل تین مرغیوں میں ایچ فائیو این ون وائرس کی موجودگی کا پتہ چلنے کے بعد سترہ ہزار مرغیوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔

ایک متعلقہ پیشرفت میں عالمی ادارہ صحت نے اس بات پر تشویش ظاہر کی ہے کہ بعض مغربی تجربہ گاہوں میں برڈ فلو وائرس کی ایسی اقسام پر تحقیق کی جا رہی ہے جن کے ذریعے یہ وائرس انسانوں کے درمیان زیادہ آسانی سے منتقل ہو سکتا ہے۔

ہالینڈ اور امریکہ کی دو لیبارٹریوں میں الگ الگ تحقیقی ٹیموں نے اپنی تحقیق میں ایسے طریقے تلاش کر لیے ہیں جن کے ذریعے اس وائرس کی تبدیل شدہ شکل کو ممالیہ جانوروں میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے برڈ فلو وائرس سے متعلق ایسی تحقیق پر خدشات ظاہر کیے ہیں جس سے یہ وائرس انسانوں کے درمیان زیادہ آسانی سے منتقل ہو سکتا ہےتصویر: AP

جنیوا میں قائم عالمی ادارے نے ایک بیان میں کہا، ’’ادارے کو کئی اداروں میں ہونے والی اس تحقیق پر تشویش ہے کہ ایچ فائیو این ون انفلوئنزا وائرس میں کی جانے والی تبدیلیوں سے اسے انسانوں کے درمیان زیادہ آسانی سے منتقل کیا جا سکتا ہے اور اس چیز میں کافی خطرات مضمر ہیں۔‘‘

ادارے نے مزید کہا ہے کہ اس طرح کے تجربات جاری تو رہنے چاہئیں مگر ان کا مقصد صرف اس وائرس پر قابو پانے کے طریقے دریافت کرنا ہونا چاہیے۔

انسانوں میں اس وائرس کے نتیجے میں بخار، کھانسی، گلے کی سوزش، نمونیہ، تنفس کے عوارض اور موت تک واقع ہو سکتی ہے۔

چین کو اس مرض سے متاثر ہونے کے لحاظ سے سب سے خطرناک ملک تصور کیا جاتا ہے کیونکہ وہاں مرغبانی کی صنعت دنیا میں سب سے بڑی ہے اور دیہی علاقوں میں مرغیاں انسانوں کے کافی نزدیک ہوتی ہیں۔

رپورٹ: حماد کیانی

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں