قید کی دنیا: برڈ مارکیٹ میں پرندے کس اذیت سے گزرتے ہیں؟
24 اکتوبر 2025
یہ لاہور کی ٹولنٹن مارکیٹ ہے، پرندوں اور پالتو جانوروں کی خرید و فروخت کا مرکز۔ اس عمارت میں داخل ہوتے ہی گوشت اور خون کی بساند آپ کا استقبال کرتے ہیں اور دائیں بائیں نظر ڈالنے پر آپ کو مختلف سائز کے پنجروں میں بند بے بس، خوف زدہ، سہمے ہوئے اور اذیت کا شکار پرندے دکھائی دیتے ہیں۔ دکانداروں سے لے کر گاہکوں تک، ہر کسی کے چہرے سے پرندوں کی اس بےبسی سے بے نیازی دکھائی دیتی ہے۔
ایک گاہک دکان میں داخل ہوتا ہے اور بٹیر کے گوشت کی فرمائش کرتا ہے۔ دکاندار پنجرے میں ہاتھ ڈال کر بٹیر کو باہر نکالتا ہے اور وہیں سب کے سامنے بٹیر کے گلے پر چھری پھیر دیتا ہے۔ بٹیر ایک آدھ بار پھڑپھڑا کر ٹھنڈا ہو جاتا ہے مگر باقی پنجروں میں قید پرندے یہ منظر دیکھ کر شور مچانے لگتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے پنجروں سے باہر نکلنے کی کوشش میں اپنے پر پھیلا کر اڑنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ یہاں ہر چیخ، ہر پھڑپھڑاہٹ محض چند سو روپے کی قیمت رکھتی ہے۔
جیسے ہی آپ ٹولنٹن کی کسی برڈ شاپ میں داخل ہوں پنجرے کے اوپر پنجرہ رکھا ہوتا ہے، تنگ پنجروں میں مختلف اقسام کے پرندے ایک ساتھ ٹھونسے ہوتے ہیں، یہاں تک کہ بعض اوقات جانور اور پرندے ایک ہی پنجرے میں قید اوپر نیچے گرے پڑے ملتے ہیں۔
ہمیں پرندوں کی اذیت محسوس کیوں نہیں ہوتی؟
علی اصغر گزشتہ پندرہ برس سے ٹولنٹن مارکیٹ میں ایک برڈ شاپ چلا رہے ہیں۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ”ہم زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتے ہیں کہ پرندوں کو بروقت خوراک ملے، اس کا باقاعدہ اہتمام کیا جاتا ہے۔ ہفتے میں ایک بار پنجروں کی صفائی کرتے ہیں۔ اگر پرندے بو میں رہ رہے ہیں تو ہم بھی ان کے ساتھ ہی پورا دن بیٹھتے ہیں۔"
پرندوں کو دوسرے پرندوں کے سامنے ذبح کرنے کے حوالے سے وہ کہتے ہیں، ”ان میں شعور ہی نہیں تو آپ کیسے کہہ سکتے ہیں انہیں تکلیف ہوتی ہو گی؟ ہر دکان میں یہ ہو رہا ہے، میں نہ کروں تو گاہک ساتھ والی دکان میں چلا جائے گا، وہاں بھی یہی ہو گا۔"
ہم نے تین مختلف دکانداروں سے جاننے کی کوشش کہ کیا پرندے اور جانور ایک ہی پنجرے میں قید رکھنے، دوسروں پرندوں کے سامنے ان کے ساتھیوں کو ذبح کرنے یا گنجائش سے زیادہ ایک پنجرے میں پرندے ٹھونسنے پر کبھی آپ کو انتظامیہ کی طرف سے جرمانہ یا کسی طرح کی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا؟ تینوں دکانداروں کا جواب نفی میں تھا۔
سماجی دانشور احمد اعجاز پرندوں سے ہمارے تعلق کو محض 'شہری زندگی کا نمائشی رشتہ‘ سمجھتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ”گائے، بکری یا اونٹ صدیوں سے ہمارے ساتھ ہیں، ہماری بقا میں ان کا اہم کردار رہا، وہ ہمارے احساس اور ثقافت کا حصہ بن گئے۔ وہ محض ہماری معاشی سرگرمی کا حصہ نہیں، ہمارے گیتوں کا کردار بھی ہیں۔ اس کے برعکس برڈ مارکیٹ کے پرندے زیادہ تر شوق، نمائش یا کاروبار کی علامت ہیں۔ ان کے ساتھ وابستگی احساس کی نہیں، عادت یا مفاد کی بنیاد پر ہے۔ برڈ مارکیٹ میں بیٹھا دکاندار پنجرے میں قید پرندوں کو زندگی نہیں، معاش کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں انسانی جان کی قدر و قیمت نہیں پرندے اور جانوروں کو کون پوچھتا ہے۔"
کیا پرندے خوف، درد اور جدائی محسوس کرتے ہیں؟
پرندوں کو بے شعور اور جذبات سے عاری سمجھنے میں علی اصغر اکیلے نہیں، اکثر لوگ یہی خیال رکھتے ہیں کہ انہیں کوئی احساس یا تکلیف نہیں ہوتی۔ تاہم محققین کے مطابق پرندے جذباتی طور پر نہایت حساس مخلوق ہیں جو خوف، درد، جدائی اور خوشی جیسی کیفیات کو نہ صرف محسوس کرتے ہیں بلکہ اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔
رواں برس انوائرنمنٹل لٹریسری کونسل میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق، ”کسی جذباتی تجربے کے نتیجے میں پرندوں کے دماغ کے وہی حصے فعال ہوتے ہیں جو ہمارے ہوتے ہیں، ان کے دماغ میں نیرو ٹرانس میٹر اور ہارمونز انسانی دماغ کی طرح کام کرتے ہیں۔"
'کیا پرندے درد محسوس کرتے ہیں؟‘ کے نام سے شائع ہونے والی اس تحقیق کے مطابق، ”ان کے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے، بعض اوقات وہ کھانا پینا چھوڑ دیتے ہیں، اپنے پر نوچنے لگتے ہیں یا کثرت سے آوازیں نکالتے ہیں۔"
ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ویٹنری ماہر ڈاکٹر ظفر سلطان کہتے ہیں، ”اکثر پرندے انتہائی مربوط قسم کی سماجی زندگی گزارتے ہیں۔ وہ محض جھنڈ کی صورت میں اڑنے یا رزق کی تلاش میں اکٹھے پرواز نہیں کرتے بلکہ ایک گہرے سماجی اور جذباتی نظام سے جڑے ہوتے ہیں۔ وہ جدائی اور نقصان کا شعور رکھتے ہیں۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ، ”پرندوں یا جانوروں کے لیے قید خود ایک اذیت ہے، لیکن ہمارے بازاروں میں یہ اذیت کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ ایک ایک پنجرے میں درجنوں پرندے ٹھونس دیے جاتے ہیں، جہاں ان کے پروں کو پھیلنے کی گنجائش تک نہیں ہوتی۔ بلیوں کو اکثر ان پنجروں میں بند کر دیا جاتا ہے جو دراصل چڑیوں کے لیے بنائے گئے ہوتے ہیں۔ ہم ایسی دنیا کا حصہ ہیں جہاں احساس اور رحم کی جگہ صرف منافع دیکھا جاتا ہے۔"
پرندوں کا غیر قانونی کاروبار اور حیاتیاتی تنوع کا خطرہ
پاکستان میں پرندوں کی مارکیٹ تیزی سے پھیل رہی ہے اور ماہرین کے مطابق اس کے ساتھ ہی غیر قانونی کاروبار بھی فروغ پا رہا ہے۔ پنجاب وائلڈ لائف اینڈ پارکس ڈیپارٹمنٹ کے مطابق رواں برس صرف لاہور میں گیارہ ہزار سے زائد پرندے بغیر لائسنس کام کرنے والے تاجروں سے برآمد کیے گئے۔
ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے جنگلی حیات کے تحفظ کے کارکن منیر سرور کہتے ہیں، ”پرندوں کی غیر قانونی تجارت پرعائد جرمانے اتنے معمولی ہیں کہ ایک عام تاجر انہیں ہفتہ وار بھی ادا کرے تو اس کے منافع پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا۔ اکثر تاجر ان جرمانوں کو کاروباری اخراجات کا حصہ سمجھ کر نظرانداز کر دیتے ہیں۔"
وہ کہتے ہیں غیر قانونی کاروبار سے پاکستان میں مقامی پرندوں کی بقا اور توازن کو شدید خطرات درپیش ہیں، ”سبز طوطے، چڑیاں اور شکرا جیسے پرندے قدرتی مسکن سے غائب ہو رہے ہیں، پرندے بیج پھیلاتے ہیں، فصلوں سے کیڑے مکوڑے چنتے ہیں، فطرت کے توازن کو برقرار رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔"
ان کے بقول، ”المیہ یہ ہے کہ یہی پرندے انہی شہروں میں بیچے جاتے ہیں جہاں وہ کبھی آزاد تھے۔ شوق، عقیدت اور لاعلمی کا امتزاج اس غیر قانونی کاروبار کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ پیسے اور پنجرے کا یہ غیر انسانی تعلق نہ صرف پرندوں کی آزادی اور زندگیاں سلب کر رہا ہے بلکہ فطرت کے توازن سے بھی کھیل رہا ہے۔"
یہ منظر صرف لاہور کی ٹولنٹن مارکیٹ تک ہی محدود نہیں، بلکہ پاکستان کے بیشتر شہروں کی برڈ مارکیٹس میں بھی یہی صورتحال دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ بازار صرف پرندوں کی خرید و فروخت کے مراکز نہیں بلکہ اس رویے کی نمائندگی کرتے ہیں، جس میں شوق کے نام پر دیگر جانداروں سے ان کی آزادی چھینی جا رہی ہے اور انہیں قربان کیا جا رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق انتظامیہ کا کردار اس صورتحال میں فیصلہ کن ہو سکتا ہے، بشرطیکہ وہ موجودہ قوانین پر مؤثرعمل درآمد کرائے تاکہ ان پرندوں کی اذیت میں کچھ کمی واقع ہو۔
ایسا اس لیے بھی ہونا چاہیے کہ جن کی کوئی آواز نہیں ہوتی، ان کے آواز بننے کے لیے بھی تو انسانوں کے معاشرے میں کوئی نہ کوئی ہونا چاہیے۔