1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برکس میں توسیع کا اعلان، چھ نئے ممالک شامل

جاوید اختر، نئی دہلی
24 اگست 2023

برکس کے رہنماؤں نے جوہانسبرگ میں جمعرات کو اس گروپ میں چھ نئے ملکوں کو شامل کرکے توسیع کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ ابھرتی ہوئی معیشتوں کا یہ گروپ عالمی نظام کو نئی شکل دینا چاہتا ہے۔

برکس برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ پر مشتمل ابھرتی ہوئی معیشتوں کا گروپ ہے
برکس برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ پر مشتمل ابھرتی ہوئی معیشتوں کا گروپ ہےتصویر: Alet Pretorius/REUTERS

برازیل، روس، بھارت، چین اورجنوبی افریقہ پر مشتمل ابھرتی ہوئی معیشتوں کے گروپ برکس کے رہنماوں نے جوہانسبرگ میں جاری کانفرنس کے آخری دن جمعرات کے روزچھ نئے ملکوں کو اس میں شامل کرنے کا اعلان کیا۔ رہنماوں نے اتفاق رائے سے اعلان کیا کہ ارجینٹینا، ایتھوپیا، ایران، سعودی عرب، مصر اور متحدہ عرب امارات یکم جنوری سے برکس کے مکمل رکن ہوں گے۔

غیر مغربی ملکوں پر مشتمل اور دنیا کی ایک چوتھائی معیشت کی نمائندگی کرنے والے برکس کے سب سے طاقت ور رکن چین کے صدر شی جن پنگ نے کہا "اراکین کی تعداد میں توسیع کا فیصلہ تاریخی ہے۔"

انہوں نے مزید کہا، "یہ توسیع برکس تعاون کا ایک نیا نقطہ آغاز بھی ہے۔ اس سے برکس تعاون کے طریقہ کار میں نئی قوت آئے گی اور عالمی امن اور ترقی کو مزید تقویت ملے گی۔ "

برکس میں نئے اراکین کی شمولیت پر اختلافات

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے نئے رکن ملکوں کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا، "بھارت نے ہمیشہ برکس کی توسیع کی حمایت کی ہے۔ بھارت کا اس بات پر ہمیشہ یقین رہا ہے کہ نئے اراکین کو شامل کرنے سے برکس کو ایک تنظیم کے طورپر مزید تقویت ملے گی۔ "

 

مودی کی جانب سے توسیع کی حمایت

قبل ازیں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بدھ کے روز برکس میں توسیع کی حمایت کا اعلان کردیا تھا۔تاہم بھارت نے نئے ملکوں کی شمولیت کے سلسلے میں کچھ شرائط بھی رکھیں۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے برکس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا، ''بھارت برکس میں توسیع کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ اورہم اس میں اتفاق رائے کے ساتھ آگے بڑھنے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "سن 2016 میں بھارت کی صدارت کے دوران ہم نے برکس کو ایک ایسے گروپ کے طورپر تصور کیا تھا جو جوابدہ، شمولیتی اور اجتماعی حل پیش کرتا ہے۔ سات سال بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ برکس رکاوٹوں کو توڑنے والا، معیشتوں کو تقویت فراہم کرنے والا، اختراعات کی حوصلہ افزائی کرنے والا، مواقع پیدا کرنے والا اور مستقبل کی صورت گری کرنے والا ہوگا۔"

بھارتی وزیر اعظم کا کہنا تھا، "ہم تمام شراکت داروں کے ساتھ مل کر برکس کی اس نئی تعریف کو بامعنی بنانے میں فعال طورپر اپنا حصہ ادا کرتے رہیں گے۔"

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے نئے رکن ملکوں کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا، بھارت نے ہمیشہ برکس کی توسیع کی حمایت کی ہےتصویر: Sergei Bobylev/Imago Images

 

چین اپنا اثرو رسوخ بڑھانا چاہتا ہے

چینی صدر شی جن پنگ نے جوہانسبرگ میں افتتاحی تقریر میں کہا تھا، ''خواہ جو بھی مزاحمت ہو لیکن برکس، خیر سگالی کے لیے ایک مثبت اور مستحکم قوت کے طورپر بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ ہم ایک مضبوط برکس اسٹریٹیجک شراکت داری قائم کریں گے... رکنیت کی توسیع کو فعال طور پر آگے بڑھائیں گے اور بین الاقوامی نظم کو مزید منصفانہ اور مساوی بنانے میں مدد کریں گے۔''

بھارتی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چین برکس میں توسیع کی پرزور حمایت صرف اس لیے کرتا رہا ہے کیونکہ وہ اس کے ذریعہ اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانا چاہتا ہے۔

 چین اور روس برکس کو وسعت دینے کی پرزور وکالت کرتے رہے ہیں۔ جنوبی افریقہ بھی نئے ممالک کی شمولیت کی حمایت کرتا ہے۔ جنوبی افریقہ کے صدر سائرل رامفوسا نے اس کی تصدیق بھی کی ہے۔

جنوبی افریقہ کے حکام کا کہنا ہے کہ40 سے زائد ممالک نے برکس میں شامل ہونے کی کسی نہ کسی سطح پر دلچسپی ظاہر کی ہے جب کہ 20سے زائد ملکوں نے باضابطہ درخواستیں بھی دی ہیں۔

برکس گروپ کے مقاصد کیا ہیں؟

09:45

This browser does not support the video element.

کیا پاکستان بھی برکس کا رکن بن سکے گا؟

چین پاکستان کو برکس گروپ میں شامل کرنا چاہتا ہے لیکن بھارت اس کے خلاف ہے۔

بھارتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین برکس میں مزید ملکوں کو شامل کرنے کی سب سے بڑا حامی ہے اوراس کے تحت وہ پاکستان کو بھی اس میں شامل کرانا چاہتا ہے۔

رواں برس کے اوائل میں پاکستان نے بھی ارجنٹینا، ترکی اور سعودی عرب جیسے دیگر ملکوں کے ساتھ برکس میں شمولیت میں دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔ اس نے الزام لگایا تھا کہ چین کی میزبانی میں برکس کی ہونے والی ایک ورچوئل میٹنگ میں اس کی شرکت کو ایک "رکن ملک" نے روک دیا تھا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ زیادہ سے زیادہ ملکوں کی جانب سے برکس میں شمولیت میں دلچسپی کی وجہ یہ ہے کہ ترقی پذیر مماک مغرب کے تسلط والے اداروں کی طرف سے عائد کردہ سخت شرائط سے غیر مطمئن ہیں۔ اس کے علاوہ یہ ممالک مغربی اقدار کو شکو ک و شبہات کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ دراصل مغربی ممالک اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔

جاوید اختر

 

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں