1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتافریقہ

برکینا فاسو کی ایک مسجد کے اندر فائرنگ میں درجنوں نمازی ہلاک

27 فروری 2024

برکینا فاسو کے نتیابوانی قصبے کی ایک مسجد کے اندر یہ حملہ فجر کی نماز کے وقت ہوا، جس میں درجنوں نمازی ہلاک ہو گئے۔ ملک میں باغیوں کی جانب سے عبادت گاہوں اور مذہبی رہنماؤں پر حملے تیز ہوتے جا رہے ہیں۔

سکیورٹی فورسز اور مقامی لوگ
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ برکینا فاسو کا بحران دنیا کے سب سے زیادہ نظر انداز کیے جانے والے بحرانوں میں سے ایک ہےتصویر: Sebastien Rieussec/Hans Lucas/IMAGO

افریقی ملک برکینا فاسو میں حکام کا کہنا ہے کہ ایک مسجد میں فجر کی نماز کے وقت درجنوں افراد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ جس دن مسجد پر یہ حملہ ہوا، اسی روز ایک چرچ کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

القاعدہ نے سات سال بعد آسٹریلوی ڈاکٹر کو رہا کر دیا

مسجد کے اندر فائرنگ کا واقعہ فجر کی نماز کے دوران ہوا، جہاں بندوق برداروں نے نتیابوانی قصبے میں مسجد کو چاروں طرف سے گھیر لیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق یہ حملہ اتوار کی صبح ہوا۔

برکینافاسو میں جنگجووں کے حملے میں 33 فوجی ہلاک

مقامی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق موٹر سائیکلوں پر سوار مشین گنوں سے لیس سینکڑوں عسکریت پسندوں نے اس حملے کو انجام دیا۔

برکینا فاسو کا فرانسیسی فوجیوں کو ملک سے نکل جانے کا حکم

سوشل میڈیا پر غیر تصدیق شدہ رپورٹس بتاتی ہیں کہ مسجد پر حملے میں مرنے والوں کی تعداد حکام کی طرف سے دی گئی گنتی سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

برکینا فاسو میں ایک سال میں دوسری فوجی بغاوت پر عالمی تشویش

نتیابوانی، جہاں پر یہ حملے ہوئے، برکینا فاسو کا شورش زدہ مشرقی علاقہ ہے، جہاں متعدد مسلح گروپ سرگرم ہیں۔

نمازیوں پر اندھا دھند فائرنگ

قصبے کے ایک مقامی باشندے نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ''متاثرین میں سبھی مسلمان تھے، جو مسجد میں نماز ادا کرنے پہنچے تھے اور ہلاک ہونے والے بیشتر مرد ہیں۔''

تجزیہ: کیا افریقہ میں جمہوریت کی ضرورت ہے؟

برکینا فاسو میں کئی برسوں سے جاری تشدد کے سبب بڑھتے ہوئے عدم تحفظ نے 20 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو اپنے گھروں سے نقل مکانی پر مجبور کر دیا ہےتصویر: MSF/Nisma Leboul

سکیورٹی سے وابستہ ایک دیگر شخص نے ایف پی کو بتایا کہ ''مسلح افراد نے صبح کے تقریباً پانچ بجے نتیابوانی میں ایک مسجد پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں کئی درجن افراد ہلاک ہو گئے۔''

سپاہی بچوں کا مرکز، مغربی و وسطی افریقہ

ایک اور مقامی ذرائع نے بتایا، ''دہشت گرد صبح سویرے قصبے میں داخل ہوئے۔ انہوں نے مسجد کا محاصرہ کر لیا اور ان لوگوں پر گولیاں چلائیں، جو وہاں فجر کی نماز کے لیے جمع ہوئے تھے۔ ان میں سے بیشتر کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا، جن میں ایک اہم مذہبی رہنما بھی شامل ہیں۔''

چرچ پر بھی حملہ

جس روز مسجد پر حملے میں درجنوں افراد کو فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا اسی دن  ملک کے شمال مشرق میں ایساکانے میں ایک کیتھولک چرچ پر بھی حملہ کیا گیا جس میں، کم از کم 15 افراد ہلاک ہوگئے۔

جب حملہ ہوا تو چرچ کے اندر اجتماع منعقد کیا جا رہا تھا۔ چرچ کے ایک اہلکار نے کہا کہ اس کے ذمہ دار مشتبہ اسلام پسند عسکریت پسند ہیں۔

 حکام نے دونوں حملوں کے درمیان باضابطہ طور پر کسی تعلق کی کوئی بات نہیں کی ہے۔ تاہم مقامی میڈیا نے اس حوالے سے سوال ضرور اٹھائے ہیں کہ یہ کہیں کسی ایک مربوط سازش کا حصہ تو نہیں ہے۔

برکینا فاسو میں مذہبی مقامات اور شخصیات پر حملے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ماضی میں بھی ایسے حملے کئی بار ہو چکے ہیں۔

پانچ برس قبل ایک پادری کو شمالی قصبے جیبو سے اغوا کیا گیا تھا، جو تاحال لاپتہ ہیں۔ سن 2021 میں اسی قصبے جیبو کی ایک مرکزی مسجد کے امام کو مسلح افراد نے اغوا کر لیا تھا اور کچھ دن بعد وہ مردہ پائے گئے تھے۔

انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ برکینا فاسو کا بحران دنیا کے سب سے زیادہ نظر انداز کیے جانے والے بحرانوں میں سے ایک ہے۔

کئی برسوں سے جاری تشدد کے سبب بڑھتے ہوئے عدم تحفظ نے 20 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو اپنے گھروں سے نقل مکانی پر مجبور کر دیا ہے۔

 اقوام متحدہ کا تخمینہ ہے کہ پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں سے ایک چوتھائی کی کم غذائیت کے سبب نشوونما رک گئی ہے۔

دو برس قبل فوج نے باغیوں کے خلاف جنگ جیتنے کا وعدہ کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا، لیکن تشدد بدستور جاری ہے۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، نیوز ایجنسیاں)

افریقی صدور جو اپنی عوام کے لیے مایوس کن ثابت ہوئے

01:35

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں