بریسٹ امپلانٹس اسکینڈل سے دنیا بھر میں تین لاکھ کے قریب خواتین متاثر
26 دسمبر 2011یورپ اور بعض دیگر ملکوں میں اس معاملے نے سنگین رخ اختیار کر لیا ہے کیونکہ کئی خواتین نے اپنے جسمانی حسن میں اضافے کی خاطر یہ امپلانٹس کروا رکھے ہیں۔ گزشتہ ماہ فرانس میں امپلانٹس کروانے والی ایک خاتون کی سرطان کی ایک نایاب قسم کے باعث ہلاکت نے ان خدشات میں اضافہ کر دیا ہے۔
یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا جب فرانسیسی کمپنی پولی امپلانٹ پروتھیس (Poly Implant Prothese) نے گزشتہ سال یورپ اور جنوبی امریکہ کی منڈیوں سے اپنے فروخت کیے ہوئے امپلانٹس واپس منگوا لیے۔
فرانس میں صحت کے تحفظ کے ذمہ دار محکمے کا کہنا ہے کہ اس کمپنی کے تیار کردہ امپلانٹس دیگر مصنوعات کے مقابلے میں پھٹنے کے خطرے سے کہیں زیادہ دوچار ہیں۔ اس کے علاوہ تفتیش کاروں کا یہ کہنا ہے کہ ان امپلانٹس کی تیاری میں رقم بچانے کی خاطر طبی لحاظ سے محفوظ مواد استعمال کرنے کے بجائے صنعتی سیلیکون استعمال کیا گیا ہے۔
اس اسکینڈل کے بعد پولی امپلانٹ پروتھیس کمپنی کے چیف ایگزیکیٹو افسر ژاں کلود ماس منظر عام سے غائب ہو گئے ہیں اور حکام ان کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ہفتے کو بین الاقوامی پولیس کے ادارے انٹرپول نے ژاں کلود ماس کے خلاف ایک ’ریڈ نوٹس‘ جاری کر دیا۔ فرانس کی قومی ہیلتھ انشورنس کمپنی نے بھی دھوکہ دہی اور بدعنوانی پر مبنی کاروبار کے الزام میں کمپنی پر مقدمہ دائر کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ کمپنی سن 2001 سے امپلانٹس کی تیاری میں مضر صحت صنعتی سیلیکون مواد استعمال کر رہی تھی کیونکہ طبی لحاظ سے محفوظ مواد کے مقابلے میں اس کی لاگت انتہائی کم تھی۔
اگرچہ وقت گزرنے کے ساتھ تمام بریسٹ امپلانٹس کمزور ہو کر پھٹ سکتے ہیں مگر سیلیکون مواد والے امپلانٹس اس لحاظ سے زیادہ حساس ہیں۔ ان کے پھٹنے سے جسم کے اندرونی اعضاء کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
فرانس کی حکومت کی جانب سے متاثرہ خواتین کو مالی امداد کی پیشکش سے ملک کے خزانے پر 60 ملین یورو کا بوجھ پڑے گا۔
تاہم اس چیز میں بڑے آپریشن اور انیستھیزیا کا خطرہ بھی درپیش ہے جس کی وجہ سے کئی خواتین اس مرحلے سے گزرنے سے انکار کر سکتی ہیں۔
ادھر برطانیہ میں ادویات اور صحت کی دیکھ بھال کی مصنوعات کے نگران ادارے کا کہنا ہے کہ ابھی تک اس بات کا واضح ثبوت نہیں ہے کہ ان امپلانٹس کے پھٹنے سے کینسر ہو سکتا ہے، لہٰذا خواتین کو یہ امپلانٹس نکلوانے کا مشورہ نہیں دیا جا سکتا۔ خیال ہے کہ برطانیہ میں چالیس ہزار کے قریب خواتین نے یہ امپلانٹس کروا رکھے ہیں۔ مجموعی طور پر دنیا بھر میں اس خطرے کا شکار ہونے والی خواتین کی تعداد تین لاکھ کے قریب بنتی ہے۔
مذکورہ کمپنی کی مصنوعات جنوبی امریکہ کے کئی ملکوں میں بھی فروخت ہوتی رہی ہیں اور وہاں بھی اس معاملے پر سنسنی پھیل چکی ہے۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: ندیم گِل